دنیا شتر بے مہاری کی انتہاؤں کو چھونے لگی تھی۔ تمام گزری عذاب رسیدہ قومیں جن گناہوں پر پکڑی گئیں الگ الگ، آج وہ سبھی بیک وقت دنیا میں کالی گھٹائیں بن کر چھا چکے تھے۔ ایسے میں کورونا کی آمد! اس پر دنیا بھر میں بے پناہ لکھا گیا۔ کورونا کی سائنسی تفصیل یونہی نظر سے گزری۔ (MIT ٹیکنالوجی ریو یو: کورونا وائرس کیسے کام کرتا ہے۔ از نیل وی پٹیل۔ ) حیرت کی بات تھی کہ تہس نہس کرنے میں کورونا کا طریق واردات امریکا سے بہت ملتا جلتا ہے۔ جیسے کو تیسا ہوگیا! شاید اسی مماثلث پر کورونا کا دل امریکا میں بہت لگا! سائنسی تفصیل تو یوں دلچسپی کا باعث ہے کہ اللہ کی تخلیقات کا تنوع حیران کن ہے اور یہ اتنی ننھی سی شے پر کام کروں گا بڑے بڑے، والا مبہوت کن عالم ہے۔
ذرا اوقات تو دیکھیے۔ ایک وائرس، قطر میں تقریباً 80 نینو میٹر ہوتا ہے۔ (یہ ایک Nanometer ایک میٹر کا ایک کھربواں حصہ ہوتا ہے۔ )
کورونا وائرسوں کے جس خاندان سے تعلق رکھتا ہے، وہ اسی جیسے جلادوں کا خاندان ہے جن کا پیشہ ہی انسانوں پر قہر برسانا ہے۔ اسی خاندان کے پہلے نامی گرامی جابروں نے سارز اور مرز (SARS، MERS) امراض کا طوفان اٹھایا تھا۔ اس وائرس کا ہر متعدی ذرہ وائرین (Virion) کہلاتا ہے۔ نکا کہہ لیں یا ننھا (کورونا)، یہ پروٹین کا ایک کرہ یا گولا ہے جو RNA (ڈی این اے کی چھوٹی بہن، جو سنگل پسلی ہوتی ہے) کی حفاظت کرتا ہے۔ RNA، وائرس کا جینیاتی کوڈ کہہ لیجیے یا اس کی شناخت یا نادرا کا شناختی کارڈ، جس پر اس کا کچا چٹھا درج ہوتا ہے۔ اس کے اوپر کیل نما ابھار ہوتے ہیں (جسے اس کی اشتہاری مجرم والی تصاویر نے پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ) بدنام ہوئے ہم تو کیا نام نہ ہوگا؟ اس کے اوپر چربی کی ایک تہہ چڑھی ہے۔ ہمارے ہاں آنکھوں پر چربی چڑھ جانا بھرے پیٹ اور تکبر کی علامت کا محاورہ ہے۔ یہ مغرور کیوں نہ ہو جس نے کتنے ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم، سیاست دانوں، پارلیمنٹ ممبران، خبروں میں رہنے والے ہالی، بالی ووڈ کے جنگلوں کے بن مانسوں کے پھیپھڑے تناول فرمائے۔ جن کے ساتھ تصویر کھچوانا لوگ اعزاز سمجھتے تھے، کورونا بھی جا پہنچا، تو وہ کونوں کھدروں میں جا گھسے۔ جن ممالک کے ویزے حاصل کرنے میں جان، مال جوکھوں میں ڈالا جاتا تھا، وہاں یہ ان دیکھی مخلوق بلا پاسپورٹ، بلا ٹکٹ بے کھٹکے جا پہنچی، لوگ تھرمامیٹر لگاتے رہ گئے۔ ہاں تو بات اس منحنی سی کی چربی کی ہورہی تھی۔ اسی بنا پر باربار ہاتھ دھونے اور منہ دھو رکھنے کا حکم تھا کہ اس کی چربی گھل جائے اور یہ بن موت ماری جائے۔ یہ سارا ہنگامہ تھا بھی تو شاید گورے کو صاف ستھرا کرنے کا جو سمندروں میں تو ڈبکیاں لگا (کر اسے گندا، گدلا کر دے گا) لے گا مگر طہارت، پاکیزگی، نہانے سے گھبراتا ہے۔ ڈرائی کلینگ اور نری ٹشو پیپریاں کرنے نے تو یہ دن کھائے ہیں۔
اب اس کا طریق کار ملاحظہ ہو۔ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا جرثومہ ہے۔ جب انسان یکے از حیوانات سا ہونے لگے اپنے اشرف المخلوقات اور مسجود ملائک ہونے کا زوردار انکار کرکے تو کچھ عجب نہیں کہ جرثومہ غلط فہمی کا شکار ہوکر ادھر کو بھی آن نکلے کہ یہ بندر کی اولاد ہے۔ (بولا ڈارون کہ بوزنا ہوں میں، کے مصداق) اب یہ نہ کہیے گا کہ پھر کورونا مسلمانوں اور کئی صالحین کو کیوں ہوا؟ یہ دو بالکل الگ پیکیج ہیں شناخت کے مطابق۔ مسلمان کی کہانی ہی مختلف ہے۔ ہم اس وقت صرف ساکنان مغرب بارے کورونا کی پالیسی پر بات کررہے ہیں۔ امراض تو سبھی مومن وکافر نیک وبد کو ہوتی ہیں۔ کسی کے لیے امتحان وآزمائش، کامیابی سے گزار لینے پر جزا، رضا اور جنت کے فیصلے۔ کسی کے لیے تازیانہ، سنبھلنے توبہ کرنے کی مہلت اور کسی کے لیے عذاب کا کوڑا، ظلم پر گرفت۔
ہاں تو اب یہ جانیے کہ کورونا، چمگادڑ کے وائرس کا قریبی رشتہ دار ہے، جہاں سے پینگولن سے ملاقات کرتا کراتا انسانوں پر چڑھ دوڑا، حکم ربی کے تحت۔ کرتا یہ ہے کہ انسان پر یہ اپنی پروٹین (Spikes) کی بنی کیلوں کے ذریعے انسانی خلیوں کی پروٹین سے جا چمٹتا ہے۔ اس کے ذریعے کورونا وائرس کا RNA، خلیے کے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ اب اس کی واردات دیکھیے کہ اندر گھسنے کی دیر ہے کہ (بدو کا اونٹ یا ایسٹ انڈیا کمپنی یا امریکا کی طرح) گھیر لیتا ہے۔ یہ اپنے میزبان کے خلیے کو اغوا کرکے اسے اپنی یعنی کورونا وائرس کی کاپیاں بنانے پر لگا دیتا ہے۔ بندہ خود کورونا کے لیے فوٹو اسٹیٹ مشین کا کام کرنے لگتا ہے۔ دھڑادھڑ چند گھنٹوں کے اندر یہ خود لاکھوں وائرس پیدا کردیتا ہے، جو میزبان کے ہر Cell پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ (پورے جسمانی بلکہ دفاعی نظام ہی کی مت ماری جاتی ہے!) ہم نے امریکا کی (مشرف کی مہمان نوازی کے ہاتھوں ) کچھ ایسی ہی آؤبھگت کی تھی۔ ہزاروں سی آئی اے والے، ریمنڈ ڈیوسوں نے ملک میں تہلکہ مچا رکھا تھا! ہاں تو بات ہورہی تھی کورونا کے طریق واردات کی۔ وائرس کا RNA تین کرتوتیں اور کرتا ہے۔ ایک یہ کہ میزبان خلیوں کو جسمانی مدافعتی نظام کو یہ سگنل (پیغام) بھیجنے سے منع کردیتا ہے کہ اس پر حملہ ہوگیا ہے۔ ہوشیار، خبردار! گویا ٹیلی فون لائن کاٹ دی۔ جسم کے سیکورٹی نظام کو اطلاع ہی نہ ہوسکے۔ یہ پہلی غنڈا گردی ہے تاکہ سیکورٹی الرٹ نہ ہو۔ دوسرا جبر یہ کرتا ہے کہ میزبان خلیے کو نئے ننھے وائرین بلاروک ٹوک کھلے چھوڑ دینے کو ہلہ شیری دلاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ خود وائرس کو بھی اس قابل بناتا ہے کہ وہ میزبان کی اندرونی قوت مدافعت (سیکورٹی، محافظوں ) کے خلاف لڑ سکے۔ اب یہ متعدی مرض پھیلنے لگتا ہے۔ جسم ہر وائرل بیماری کی طرح اس میں بھی بخار میں تپنے لگتا ہے۔ لال بھبھوکا ہوکر حملہ آور کو ڈرانے دھمکانے، ان پر چڑھ دوڑنے کو جسمانی گارڈ حرکت میں آجاتی ہے۔ خون کے سفید ذرات مرض کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ کچھ تو وائرس کے ہتھے چڑھ جانے والے مریض خلیوں کو کھا جاتے ہیں۔ دشمن کے لیے نرم چارہ بن کر ساتھ دینے کی سزا۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ دیگر دفاعی گارڈ (Antibodies) تیار کرتے ہیں تاکہ وائرسی ذرات مزید میزبان خلیوں کو بیمار نہ کردیں۔
مزید کچھ سفید ذرات وہ کیمیائی مادے بناتے ہیں جو مریض خلیوں کا قلع قمع کردیں مگر ہر مریض کا معاملہ الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کا مدافعتی نظام مختلف ردعمل دیتا ہے۔ (اس وائرسی کہانی کے پس منظر میں امریکا کی مختلف مسلمان ممالک پر چڑھائی، طریق کار، ردعمل، مدافعت یا عدم مدافعت بھی دیکھا جاسکتا ہے! اور اب فیٹف پاکستان کے حق میں نرا وائرس ہے۔ اسلام پھیپھڑے اور دل کی مانند پاکستان کے لیے رگوں میں دوڑتے خون اور آکسیجن کی فراہمی کرتا، زندگی کی علامت اور ضمانت ہے۔ FATF اسی کو سلب کرنے کے درپے ہے۔ ) اگر تو چوکیداری (قوت مدافعت) مضبوط اور چوکس ہوتو فوری بھانپ کر لڑبھڑکر دشمن نکال باہر کرتا ہے۔ نظام تنفس کے اوپر والا حصہ متاثر ہوتا ہے صرف اور مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔ تاہم اگر وائرس نیچے پھیپھڑوں میں اترنے میں کامیاب ہوگیا تو مسائل پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔
دارومدار قوت مدافعت یعنی جسمانی سیکورٹی کی مضبوطی پر ہے۔ شراب نوشی، فاقے (یا نکمی بازاری خوراکیں ) نیند کی کمی اسے کمزور کرنے اور بیماری کا سبب بنتی ہے۔ (روحانی سطح پر جیسے تعلق باللہ، نماز، اذکار کی کمی گناہ کے لیے قوت مدافعت کمزور کردیتی ہے۔ ہر گناہ حملہ آور ہوکر روح چاٹ جاتا ہے۔ اندرون تاریکی سے بھر جاتا ہے) کورونا کے حملے سے کمزور ہوا انسان، دوسری بیماریوں کو بھی دعوت دے ڈالتا ہے۔ دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی، لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے! (امریکا کے بعد ہر بڑی قوت آنکھیں دکھانے لگتی ہے۔ فیٹف چڑھ دوڑا۔ وائرس کے بعد بیکٹریا کی باری۔ ) بخار اصلاً تو وائرس کو پکا، تپا کر موت دینے کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر لمبا چلے تو جسم کی اپنی پروٹینز توڑکر رکھ دیتا ہے۔ بعض اوقات قوت مدافعت زیادہ جذباتی ہوکر Cytokins (جو وائرس کو تعداد بڑھانے سے روکتے ہیں ) کی زیادہ بڑی تعداد پیدا کردیتی ہے۔ (غیرضروری دفاعی ایجنسیوں ہی کا جسم میں دور دورہ ہوجاتا ہے) خود انہی کا طوفانی ٹڈی دل جسم میں شدید سوزش پیدا کردیتا ہے! سو نظام جسمانی ہو روحانی یا ملکی و ملتی?? ہر کل پرزے کا طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق اعتدال و توازن سے چوکس رہ کر کام کرنے ہی میں صحت اور زندگی ہے۔ غیر کے لیے دروازے کھولنا، اس کی آلہ کاری تباہ کن ہے۔
روحانی زندگی میں نفاق کورونا سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ کالی اسکرینوں سے انسان میں منتقل ہوتا ہے بالعموم۔ دبے پاؤں روح چاٹ کر زنگ آلود کرکے مردنی طاری کرکے چلتا بنتا ہے اور موسیقی نفاق کو اس طرح بڑھاتی ہے جیسے پانی سبزہ اگاتا ہے۔ اللہ جسم وروح کو تندرست وتوانا رکھے، آمین۔