Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Amjad Islam Amjad/
  3. Qurbat Aur Doori

Qurbat Aur Doori

ادبی اصطلاح، فن کارانہ علیحدگی (artistic detachment) کے بارے میں پڑھا اور سُنا تو تھا اور کسی قانونی یا طبی حکم یا کیفیت کے باعث isolation میں رکھے جانے کے معاملات سے بھی تھوڑی بہت آگاہی تھی مگر اب جو یہ خود ساختہ تنہائی کا تصور کورونا نے دیا ہے، یہ بھی "تنہائی" کی ایک ہی شکل ہے، غالب نے کہا تھا "ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو" اس کے کئی پوشیدہ اسرار توکھلتے ہی رہتے ہیں مگر یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ اس غزل کے ایک اور مصرعے پر موجودہ صورتحال میں پیرومرشد سے اختلاف ہی نہیں بلکہ کھل کر انکار بھی کیا جاسکتا ہے یعنی اب یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ "حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو" اب عبرت کا سبق لیے ہی بنے گی کہ یہ صرف ہمارا آپ کا نہیں ساری دنیا کے مستقبل کا سوال ہے۔

اب رہی یہ بحث کہ یہ وائرس خودبخود پیدا ہوا یا اسے کسی لیبارٹری میں کسی خاص وجہ سے پیدا کیا گیا تو یہ وقت اس میں پڑنے کا نہیں، زندگی میں تو یہ سب حساب کتاب بعد میں بھی ہوتے رہیں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دوسروں کو مار کر خود(جسمانی طور پر ہی سہی) زندہ رہنا اب ممکن نہیں ہوسکے گا، اس ایک نظر کی گرفت میں نہ آسکنے والے موہوم سے وجود نے آسمانوں کو چھوتی ہوئی عمارتوں کے معماروں او ر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوشربا اور بظاہر زندگی کو آسان اور آسودہ بنانے والی نسلِ آدم کو کس طرح تگنی کا ناچ نچایا ہے اُس کا اندازہ ایشیا اور افریقہ سے زیادہ یورپ اور امریکا کی سڑکوں پر کیا جاسکتا ہے جن کی موجودہ ویرانی شائد تصور میں بھی نہیں آسکتی تھی۔

قرائن سے اندازہ ہوتا ہے اس وائرس کی زندگی کی طرح خوف اور دہشت کی یہ صورتِ حال بھی بہت جلد یا تو بالکل ختم ہوجائے گی یا انسانی جسم کسی دوا یا ویکسین کی ایجاد اور دریافت کے بعد اس کے اس طرح سے عادی ہوجائیں گے جیسا کہ اب وہ ماضی کی کئی جان لیوا بیماریوں کے مقابلے میں ہوچکے ہیں جہاں تک اس کے موجودہ علاج یعنی "احتیاطی تدابیر" کا تعلق ہے تو یہ بوجوہ بہت پیچیدہ ہونے کے باوجود کسی نہ کسی حد تک مثبت نتائج دے رہا ہے۔

پاکستان کے عوام اور حکام بالترتیب جہالت اور کنٹرول کی کمی کے باعث چین کے شہر"ووہان"کی مثال کو دہرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تربیت کی کمی اور بعض مخصوص دینی اور ثقافتی مسائل کی وجہ سے ہمارے بعض باخبر طبقے بھی اُن لوگوں کے لیے غیر سنجیدہ ردِعمل کا مظاہرہ کررہے ہیں جو آبادی کی کثرت، جہالت اور غربت کے ساتھ ساتھ محض طبیعت کی تلافی کے باعث اس مسئلے کی سنگینی کو یا تو پوری طرح سے سمجھ نہیں پارہے یا طرح طرح کی غیر ضروری غلط اور بے بنیاد اطلاعات کی یلغار کی وجہ سے اتنے کنفیوز ہوگئے ہیں کہ کورونا کے پھیلاؤ کے خلاف اور اُس کی زنجیر کو توڑنے کے عمل میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے حامی اور مدد گار بن رہے ہیں جس طرح سے حکومت، فلاحی اداروں اور انسان دوست صاحبِ حیثیت افراد نے بے روزگار، غریب اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے عمل، مدد اور سمجھ داری کا ثبوت دیا ہے اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ طبی عملے نے سہولیات کی کمی اور گوناگوں مسائل کے باوجود جس ہمت، مہارت اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنی جان خطرے میں ڈال کر خدمتِ خلق اور پیشہ ورانہ دیانت کا ثبوت دیا ہے وہ بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حفاظتی تدابیر کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے والے اور خوراک اور امدادی سامان مہیا کرنے والوں کے ساتھ چھینا جھپٹی کرنے والے گروہوں اور افراد کو بھی سیکیورٹی اداروں اور مقامی لوگوں کے تعاون سے کنٹرول کیا جائے تاکہ ان لوگوں کی پریشانیاں کم کی جاسکیں جو اپنے گھروں میں امداد کے منتظر ہیں۔

گھروں میں محصور ہونے کی وجہ سے یقینا میری طرح زیادہ تر لوگوں کا وقت بھی ٹی وی یا سوشل میڈیا کے ساتھ گزر رہا ہوگا۔ سوشل میڈیا کے مضر اثرات اور مسائل اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس بحران میں عمومی طور پر زیادہ تر اچھی، مثبت اور ذمے دارانہ باتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں سو ہم بقیہ حصے پر تنقید کرنے کے بجائے تصویر کے اُسی رخ کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ انسانی صحت اور فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگی کی ضرورت کے حوالے سے بہت سی اچھی اور کارآمد باتیں تسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں مثال کے طور پر ایلوپیتھک طریقہ علاج کی ترقی، افادیت، آسان فراہمی اور ترویج کے باعث ہم نے عمومی طور پر اُن طریقہ ہائے علاج کا استعمال تو کیا اُن کے بارے میں غور کرنا بھی چھوڑ رکھا تھا جیسے حکمت، آیورویدک اور ہومیو پیتھی علاج صرف غریب طبقوں تک محدود ہوکر رہ گئے تھے اور وہاں بھی انھیں اعتماد سے زیادہ سستے ہونے کی وجہ سے قبول کیا جاتا تھا۔

کورونا کے اس بحران میں ان کے جسم کی حفاظت کے لیے فطرت کے بنائے گئے اصولوں اور پیدا کی ہوئی اشیاء کو پھر سے زیر بحث لایا جارہا ہے، جسے دوا ساز کمپنیاں مختلف فارمولوں کی (نسبتاً کم نفع آور صورتوں میں ) اپنے نفع کو بڑھانے کے لیے ہم تک پہنچا رہی ہیں مثال کے طور پر شہد اور کلونجی کو اگر صبح کے ناشتے کا لازمی حصہ بنا لیا جائے تو ہم کورونا جیسے کسی بھی وائرس کا دفاع بہت آسانی سے کرسکتے ہیں، اسی طرح وٹامن سی کے حامل پھل اور سبزیاں بھی اس جنگ میں زرہ بکتر کا کام دے سکتے ہیں اور اس کے لیے آپ کا دولت مند ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔

کورونا کے حملے کا اصل اور نسبتاً کمزور ہدف ہمارا نظام تنفس ہے، عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے باقی اعضاء کی طرح یہ بھی کمزور پڑجاتا ہے، شدید دمے کے علاوہ عام طور پر لوگ سانس کی بیماریوں کو خاطر میں نہیں لاتے کہ اُن کا زیادہ تر تعلق موسموں کی تبدیلی کے درمیانی عرصے سے ہوتا ہے جو بیشتر صورتوں میں بہت مختصر ہوتا ہے جب کہ تمباکو نوشی کرنے والے ان کو تمباکو کی قیمت کا حصہ تصور کرکے زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ تازہ ہوا میں سانس لینے، جسمانی محنت والے کام کرنے اور سیڑھیوں کے استعمال میں کمی کے باعث آج کے انسان کے پھیپھڑے اپنی قوتِ مدافعت کے اعتبار سے عمومی طور پر پہلے سے زیادہ کمزور ہیں، سو عمر کے بڑھنے کا اثر بھی اُن پر نسبتاً زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کورونا سے ہونے والی اموات کا تعلق بھی انھی دو باتوں سے نہیں رہا ہے۔

رب کریم اپنی رحمت اور لوگوں کی احتیاط سے انشاء اللہ معاشرے کی ان کمزوریوں کو ٹھیک کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے اور سب سے پہلے ایک ایسا موثر، مکمل اور مستقل بلدیاتی نظام رائج کریں گے کہ جس طرح پرہیز علاج سے بہتر ہوتی ہے اسی طرح عوام سے براہ راست اور چھوٹے یونٹ کی صورت میں رابطہ کسی معاشرے کی پہلی حفاظتی دیوار ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں میڈیا، ادب اور تعلیم سے تعلق رکھنے والے تین اہم لوگ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رفیق احمد، پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر اور بہت اچھے شاعر اقبال حیدر (کینیڈا) اور بہت اچھے نظم نگار اور عمدہ انسان عبدالاحد ساز (ممبئی)ہم سے جدا ہوگئے ہیں اگرچہ ان میں سے کسی کی موت کا تعلق بھی کورونا سے نہیں تھا مگر اتنا ضرور ہے کہ اس کی وجہ سے ان تینوں دوستوں کو علیحدہ علیحدہ کالموں میں یاد کرنے کی صورت نہیں نکل سکی۔ ربِ کریم ان کے درجات کو بلند فرمائے اورا س مشکل کو اپنے کرم سے جلد اَز جلد آسان بنانے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اس سے سبق لینے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ آمین۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran