پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے قرضے کی بنیادوں پر اپنی معیشت اور نظام حکومت چلا رہا ہے اور خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خطاب سے نواز رکھا ہے جب کہ اسلام کا سودی ادھاری سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مجبوری پاکستان کو سودی نظام کی طرف لے جا چکی ہے اور پاکستان نے آئی ایم ایف کا چناؤ اپنی سیاسی بنیادوں پر کیا تھا جو ہنوز جاری ہے اور قرض کے تہ بہ تہ انبار میں دیا جا رہا ہے۔
ماضی میں آئی ایم ایف کے جو معاہدے ہوتے تھے وہ عوام سے پوشیدہ تھے۔ مگر یہ سب کو معلوم تھا کہ قرضہ جات یوں ہی نہیں مل رہے اس کے پیچھے ہلکی پھلکی دوررس معاشی اور سیاسی حقیقتوں کے بندھن ہیں مگر سیاسی اعتبار سے یہ بندھن عام آدمی کو نظر آنے سے قاصر تھے لیکن چونکہ آئی ایم ایف کا بوجھ انبار عظیم کی شکل اختیار کر چکا ہے تو آئی ایم ایف اور فنانشل ایکشن ٹاسک پروگرام اپنی تیغوں کو صیقل کر رہے ہیں، یہ الفاظ اور معاہدوں کے تیز دھار آلات کی چمک ہے جو دور تک پاکستانی عوام کی نگاہوں کو خیرہ کیے دے رہی ہے، ایک طرف تو انرجی کی قلت اور بلند نرخ مقامی مصنوعات پر ضرب لگا رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستانی مصنوعات روز بروز عوام کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ مل مالکان کی مجبوری کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کا ڈکٹیشن ہے کہ امپورٹ کی بندشیں ختم کی جائیں جس کو آزادانہ تجارت کے نام سے نوازا جا رہا ہے۔ ایکسپورٹ کے اہداف تو ویسے ہی گزشتہ کئی دہائیوں سے پورے نہیں ہو رہے جس میں تین اشیا تو خصوصی طور پر پاکستان کا طرہ امتیاز تھیں۔ ایک تو کاٹن یارن دوم کاٹن پروڈکٹس اور لیدر گارمنٹس۔ لیکن کاٹن یارن اور عام چمڑے کی ایکسپورٹ نے ویلیو ایڈیڈ پروڈکٹس کا دیوالیہ نکال دیا ہے اور اب بیرون ملک کی بنی ہوئی ویلیو ایڈیڈ پروڈکٹس پاکستان میں فروخت ہو رہی ہیں جس سے ایکسپورٹر حضرات کو بہت پریشانیاں لاحق ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کے ڈکٹیشن کی چند سطور بھی مان لی گئیں تو پھر سر پر لگانے کی کاٹن کی ٹوپیاں اور جائے نماز چاہے وہ کاٹن کی ہوں یا ایکریلک کی دگنے داموں میں خریدنی پڑے گی۔
کیونکہ مقامی انڈسٹری آزادانہ امپورٹ کی ہوئی ٹیکسٹائل پروڈکٹس سے لرزہ براندام ہو جائے گی۔ ابھی بڑی حد تک احرام، جانماز اور حج اور زیارت کی اشیا مقامی صنعتیں پورا کرتی ہیں اور بڑی حد تک ایکسپورٹ بھی کرتی ہیں کیونکہ کوالٹی اور ڈیزائن منفرد ہونے کے علاوہ پاکستان کی کاٹن پروڈکٹس مصری یارن سے بنائی گئی پروڈکٹس مصری یارن سے بنائی گئی پروڈکٹس سے زیادہ بہتر ہیں کیونکہ پاکستانی کپاس کا بنا ہوا دھاگہ نرم جاذب اور ریشم صفت ہے اسی لیے دنیا بھر میں پاکستانی تولیے فائیو اسٹار ہوٹلز زیادہ تر خریدتے ہیں اور یہی کچھ کیفیت پاکستانی خام لیدر کی بھی ہے مگر لیدر گارمنٹس تیزی سے بند ہو رہے ہیں کیونکہ ایکسپورٹ نے لیدر کو باہر جانے سے روکا نہیں۔ لہٰذا بیرونی ملک اپنی مشینری اور ڈیزائن کی بنیاد پر اپنی پیداوار کو دنیا بھر میں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں چمڑے کے جوتے بھی حد سے زیادہ مہنگے ہو چکے ہیں۔
پھر اگر آئی ایم ایف کی آزادانہ پالیسی کو رد بھی کردیا جائے تو بھی خام مال کی ایکسپورٹ سے بھی عوام کو شدید پریشانی ہے جب کہ حکومت فوری زرمبادلہ کو بڑھانے میں ہر طریقے سے مصروف ہے جب کہ اس کے آنے والے نتائج بڑے گمبھیر ہوں گے جس سے بیروزگاری کا ایک اور بڑا طوفان ملک میں داخل ہو جائے گا۔ لہٰذا فری امپورٹ پالیسی ملک کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ دوسری جانب حالیہ دنوں میں جو ایک شور مچا ہے کہ اناج کی قیمتیں دگنی ہوچکی ہیں خصوصاً آٹا دال اور چینی کی۔ آٹے پر تو وزیر اعظم نے خود اعتراف کر لیا ہے کہ یہ ذخیرہ اندوزوں کی کرشمہ سازی ہے مگر اب تک کسی کرشمہ ساز کو تحویل حوالات نہ کیا گیا۔ ایسے موقع پر صرف مرزا غالبؔ کا ایک شعر ہی جواب دے سکتا ہے:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
چلو ہم بتائے دیتے ہیں۔ یہ سب محفل حکمراں کے بہی خواہ ہیں۔ ہماری کیا مجال کہ ہم نشاندہی کریں۔
اب ذرا چینی کی طرف آئیے۔ سنا ہے کہ شوگر مل کے حکمران 130سے 150 روپے فی من گنا خریدتے ہیں۔ بقول کاشتکاروں کے ایک من گنے سے کم ازکم 16 کلو گرام شکر بنتی ہے جس کو دکانوں پر 80 روپے فی کلو گرام فروخت کیا جاتا ہے۔ مانا کہ بجلی کا خرچہ اور گنے کو شکر میں تبدیل کرنے کے اخراجات اور مینجمنٹ کو چالیس فیصد بھی شامل کر دیا جائے تنخواہیں اور ڈلیوری چارجز بھی شامل کر لیے جائیں۔ تو کس بھاؤ چینی مل مالک کو پڑتی ہے۔ اس کا کوئی حساب کتاب نہیں جب کہ کاشتکاروں کو گنے کی قیمت کی ادائیگی میں مل مالکان چھ چھ ماہ اور سال سال بھر کا وقت لگاتے ہیں۔
لہٰذا حکومتی سطح پر کاشتکار کے اخراجات سے لے کر چینی بننے کے عمل کا تجزیہ حکومتی سطح پر ضروری ہے۔ رہا دالوں کا مسئلہ تو یہ پاک بھارت تصادم کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ یہ تیسرے ملک سے گھوم کر آتی ہیں۔ جہاں بیرونی کرنسی کا عمل دخل ہے تو واقعی اس پر کسی قسم کا تبصرہ فی الوقت نہیں کیا جا سکتا کہ دالیں کہاں سے اور کس قیمت پر امپورٹ ہو رہی ہیں۔ لیکن ہمیں بچپن سے یہی بتایا گیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو زرعی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے کسی وزیر اعظم نے زرعی کانفرنس کا انعقاد نہ کیا جس کی ضرورت ہر صوبے میں تھی۔
کم ازکم سندھ کے صوبے میں دو زرعی کانفرنسوں کا انعقاد سالانہ کے پی کے اور بلوچستان میں بھی دو دو کانفرنسوں کا انعقاد اور پنجاب میں تین چار مقامات پر ایسی کانفرنسوں کا اجتماع جس میں زرعی پیداوار کی تفصیلات پر گفتگو اور عملی مظاہروں کی تفصیل باغات میں پھلوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے کون کون سے پھول لگائے جائیں۔ میری اطلاع کے مطابق بھارت میں ان دنوں پپیتے کی کاشت کافی زور و شور سے ہو رہی ہے اور باغات میں گیندے کے پھول اگائے جا رہے ہیں جس سے زہریلے کیڑے دور بھاگتے ہیں۔ مگر پاکستانی زرعی سائنسدان ہر ملک کے صارف کی ضروریات کو بھی جانتے ہیں۔
وہ ایکسپورٹ کے لیے بھی ایسے رہنما اصول بنا سکتے ہیں کہ ہمیں دوسرے ملکوں کے سامنے اپنی حاجت روائی کے لیے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں اور ان کا ڈکٹیشن قبول کر کے عوام کے گلے میں موت کے پھندے نہ ڈالیں۔ آخر ہم کب تک قسطیں اتارتے رہیں گے۔ جب کہ حالیہ حکومتی خسارے کی تصدیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو ششماہیوں کا خسارہ 708 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ اور ظاہر ہے نیا خسارہ مزید بڑھتا رہے گا۔
خدانخواستہ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ ہم چار و ناچار ایسے راستوں کو اپنائیں جو ہماری وحدت کے لیے بہتر ثابت نہ ہوں لہٰذا ہم یہ نہیں کہتے کہ ریاست مدینہ کا خواب نہ دیکھیں لیکن سراب کو پانی کا دریا بھی نہیں سمجھ سکتے ہمیں ریت میں ہل چلانے ہوں گے اور خالی بے آب و گیاہ زمینوں پر ٹیوب ویل لگانے ہوں گے اس کے لیے سیاسی طور پر حکومتوں کی تبدیلی اور دیگر کاغذی معاملات کے بجائے مشترکہ طور پر کابینہ کے اراکین کی کانفرنس بلانی ہو گی۔ بصورت دیگر:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک