پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے محترم ڈاکٹر باقر رضا کو اسٹیٹ بینک کا سربراہ تعینات کیا گیا ہے۔ انھوں نے معاشی جائزے کے بعد 20 فروری کو سرمایہ کاروں کے ایک مجمع سے فائیو اسٹار ہوٹل میں خطاب فرمایا جس میں پاکستان کے تجارتی پہلوؤں کا کھلے عام جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے کی ایک جھلک میری نظر سے بھی گزری۔
ایک زمانہ تھا کہ ایسی خطابت پر ہم طالب علموں کو لے کر پرچم اٹھائے احتجاج کیا کرتے تھے۔ مگر عمر کے ستر سال گزرنے کے بعد اب علم اٹھانا چھوڑ دیا، شروع سے جو قلم ہاتھ میں تھا، اس سے لوگوں کو آگاہی کی زبان میں کچھ سنانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔
فاضل مقرر نے ایکسپورٹ کے مسئلے کو بڑی اہمیت عطا کی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایکسپورٹ پاکستان کے ریڑھ کی ہڈی نہ سہی لیکن یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ انسان کے جسم میں خون کے سرخ ذرات (RBC) پاکستان تو رواں دواں ہے اور عوام بھی اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ کوئی بلندی پر ہے اور کوئی پستی پر ہے۔ مگر مجموعی طور پر اعداد و شمار کی روشنی میں پاکستان کے عوام کی فی کس مجموعی آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم ہے، فی الحال تو جو زر میسر ہے اس کی اقساط آئی ایم ایف کی جھولی میں سود سمیت ڈالی جا رہی ہیں۔
ملک میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ کرنسی کتنی بھی ڈی ویلیو ہو جائے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن عام لوگ دو وقت کھانا کھاتے ہیں۔ اب وہ مزید اشیا کے چڑھتے نرخوں اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کہیں مزید ایک وقت کا کھانا نہ جاتا رہے۔ عالیٰ جناب گورنر اسٹیٹ بینک نے پاکستان کی ایکسپورٹ کو سوڈان، ایتھوپیا اور یمن جیسے جنگ زدہ اور قحط زدہ خطوں سے تشبیہ دی ہے جو صحیح بھی ہے۔ مگر سلام ہو پاکستان کے کسانوں کو اور یہاں کی مٹی کو جوہر ایک ایکڑ رقبے میں پچاس من گیہوں پیدا کرتی ہے اور دریائی گزرگاہوں پر چاول کی کاشت ہوتی ہے۔
ورنہ ایتھوپیا اور یمن جیسے ممالک کی طرح یہاں بھی لوگ بھوک مری کا شکار ہو جاتے۔ فاضل مقرر نے کم ازکم اس راز کو تو فاش کر دیا کہ ایکسپورٹ ایکسپورٹ کا جو شور برپا ہے یہ بڑے تجارتی اداروں کے سی ای اوز کی آوازیں ہیں جس میں (Rebate) ری بیٹ اور ایکسپورٹ فنانسنگ کی مراعات اور پھر ڈالر کی چمک بھی موجود ہے۔ جس کی وجہ سے وہ برآمد حرف آخر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خواہ وہ ویلیو ایڈیڈ پروڈکٹس نہ ہوں۔ پیاز اور چاول ہی سہی۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ تقریر میں ایکسپورٹ فنانسنگ کی رقم کو کافی بڑھا کر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جو مل مالکان اور ایکسپورٹر حضرات کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ تقریر معزز سامعین کے لیے جام جم سے کم نہیں۔ لہٰذا کسی فرد کو وہاں کھڑے ہو کر احتجاج کی جرأت نہ ہوئی کہ پاکستان کو ایتھوپیا سے کیوں مشابہت دے رہے ہیں۔
جہاں ہزاروں افراد قحط میں بھوک سے مر گئے۔ اور یمن میں جہاں ناکہ بندی کے سبب لوگ اجناس سے محروم ہیں۔ مانا کہ ایکسپورٹ کے لیے زر تو میسر کر دیا گیا۔ پروڈکٹس بھی بنائی جائیں گی۔ لیکن کون اس کا تخمینہ لگائے گا کہ جو پروڈکٹس تیار کی جا رہی ہیں، ان کے وزن حجم اتنے ہی ہیں۔ جتنی کہ رقم کی ڈیمانڈ ہے۔ اور بروقت آرڈر کے حساب سے روانہ کی جا رہی ہیں۔ جہاں تک راقم کی نگاہ اور مشاہدہ ہے۔ زیادہ تر امریکا کے شہروں میں بھارت، بنگلہ دیش اور چین کی اجارہ داری ہے۔ البتہ تھوڑی بہت پاکستان کی ٹیکسٹائل پروڈکٹس، اسپتالوں اور ہوٹلوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔ البتہ نیویارک، شکاگو اور انڈیانا کے ہوٹلوں میں پاکستانی خواتین ملبوسات کی نمائش لگاتی رہتی ہیں۔ بقول گورنر اسٹیٹ بینک کے کہ یہ کسی زمرے میں نہیں آئیں۔
اگر پاکستان کی ایکسپورٹ کو کوئی مخلصانہ طریقے سے چاہتا ہے کہ وہ اپنے اہداف کو پورا کر لیں۔ تو پھر آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں صرف چند برسوں کے لیے کمی کر دے یا امریکا پاکستان کو اس بات کی اجازت دیدے کہ وہ ایران سے جو گیس پائپ لائن پاکستان آئی ہے۔ اس کو کم از کم پانچ سال کے لیے کھولنے کی اجازت ہو۔ اس طرح پاکستان کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔
اور وہ سعودی عرب کو بھی اس بات پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ گیس پاکستان جاتی رہے گی۔ یہ رعایت پاکستان میں کوئی بھیک کے طور پر نہیں مانگی جا رہی بلکہ یہ پاکستان کی سیاسی قوت تھی جس نے افغانستان کی حکومت کے خلاف جنگجو حضرات کی پذیرائی کی۔ میں مزید تفصیل میں جانا نہیں چاہتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ موجودہ وقت کے اعتبار سے افغان جنگ تقریباً نصف صدی سے جاری ہے اور اب جا کر اس کو بند کرنے پر مذاکرات جاری ہیں۔ یہی وہ جنگ ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا۔ ملک سے سیاحت کا باب بند کر دیا۔ فاٹا سے کراچی تک موت کے پروانے منڈلاتے رہے اور اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا کہ پشاور کے آرمی اسکول میں بچوں اور اساتذہ کو خون میں نہلا دیا گیا۔ اتنے نقصانات کے بعد اگر امریکا پاکستان کی معیشت کو زندہ کرنے کے لیے تھوڑی رعایت دیدے تو اس میں امریکا کا کوئی بڑا نقصان نہیں۔
اب افغانستان سے پرامن مذاکرات کا آغاز اور امن معاہدہ ہو چکا ہے اگر پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر اس آغاز کو ہونا ہی تھا تو اس کا آغاز نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں کیوں نہ کیا گیا۔ جب کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی لاش کو یو این او کے آفس کے باہر لٹکایا گیا تھا۔ اور بامیان کے بدھا کے مجسمے کو بارود سے اڑانے پر کوئی کارروائی نہ کی گئی جس نے سیاحت کے بام و در کو تاریک کر دیا۔
امید ہے کہ موجودہ مذاکرات امن کے راستے پر چلتے رہیں گے۔ مگر افغانستان میں تقریباً نصف صدی تک بدامنی کا راج رہا ہے تو خدشہ اس بات کا ہے کہ کوئی ڈھکی چھپی قوت برسر پیکار نہ آ جائے۔ سنا ہے کہ داعش کے بھی کچھ بچے کچھے عناصر وہاں سرگرم ہیں۔ کیونکہ پاکستان افغان مہاجرین کا میزبان رہا ہے اور طالبان کا حمایتی بھی۔ اس لیے اس کی معیشت کے بربادی کے دہانے پر پہنچنے میں افغان جنگ کا بڑا حصہ ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی حکومت آئی ایم ایف کو خصوصی ہدایات دیتی کہ پاکستان کی انمول قربانیوں کے عوض سود کو مکمل منفی کر کے صرف رقوم کی واپسی پر ہی اکتفا کرتی۔ نہ یہ کہ ملک کو سود در سود کے بوجھ تلے دبایا جاتا رہے اور اس بات کی ترغیب دی جائے کہ تجارت کو آزادانہ طور پر جاری رکھا جائے، اگر آزادانہ طور پر تجارت کو جاری نہ رکھا گیا اور قرضہ جات سود در سود وصول کیے جاتے رہے تو ڈر یہ ہے کہ پاکستانی عوام مزید دباؤ برداشت نہ کر سکیں گے اور وہ باہمی مڈبھیڑ پر آمادہ ہو جائیں گے۔
اس جملے میں کوئی دروغ گوئی نہیں کہ ابھی حالیہ دنوں میں میرے پاس ایسے پیغامات سیل فون پر آنے لگے ہیں کہ کب تک بیٹھے رہو گے۔ کھڑے کیوں نہیں ہوتے اور لوگوں کو منظم کر کے لوگوں کو کیوں نہیں لاتے۔ تمہاری ہمت کو کیا ہو گیا ہے۔ ماضی میں تو مارشل لا کے خلاف کھڑے ہوئے اور سلاخوں کے پیچھے بھی گئے۔ کوئی بتلائے کہ میں اب اس کا کیا جواب دوں۔ صرف یہی کہ اب ضعف نے گھیر لیا ہے اور روح نیم جاں ہو گئی اور کوئی انقلابی پارٹی بھی ملک میں موجود نہیں جس سے مزاج میل کھاتا ہو۔
بہرصورت آئی ایم ایف کی جانب سے ایکسپورٹ فنانس کی مد میں جو بھی مراعات سی ای او کو دی جا رہی ہیں، اس سے ملک کے عوام کو سکون میسر نہ آئے گا۔ ہاں اس تمام گفتگو میں زرعی اصلاحات کا کوئی ذکر نہ تھا۔