ایسا لگتا ہے کہ کئی ہفتوں سے عوام تو مہنگائی کی وجہ سے بے حد پریشان ہیں اور کسی وقت بھی مہنگائی کا یہ لاوا پھوٹ سکتا ہے مگر گزشتہ چند ہفتوں سے ظاہری طور پر حکومت بھی مہنگائی کے ہوش ربا چڑھاؤ سے پریشان ہے۔ مگر اسے مہنگائی کی وجوہات کا علم غالباً اب تک نہ ملا۔ اور وہ مہنگائی کے راز کی تلاش میں اپنے وزراء سے مشورے لے رہی ہے۔ یہ تمام وزراء صد فیصد تو نہ سہی مگر بیشتر صدر پرویز مشرف کے دور کے تخت نشین ہیں۔
یقینا ان کو یہ علم تو ضرور ہو گا کہ مشرف کے دور کی مہنگائی کو بالکل خاطر میں نہیں لایا جا سکتا کیونکہ روپے کی قدر سے لے کر پٹرول کی اور اجناس کی قدر میں یقینا اوسطاً تیس فیصد کا فرق موجود ہے۔ جب کہ عوامی لحاظ سے کوئی ایسی تبدیلی رونما نہ ہوئی جس سے عوام کی زندگی میں سکون در سکون کے لمحات گردش کر سکیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتے قبل کراچی میں فیڈرل بی ایریا، حسین آباد کے علاقے میں علی الصبح ایک ڈکیتی کی واردات ہوئی جس میں ڈاکو صرف کھانے پینے کی چیزیں اور اجناس لوٹ کر لے گئے اور جاتے وقت دکاندار کو یہ کہتے گئے کہ ہمیں معاف کر دینا ہم مجبور ہیں۔ دوسری نمایاں ایک اور انسانی ضمیر کی آواز پیش کی جا رہی ہے جو صاحب اقتدار کے لیے سبق آفرین ہے۔
وہ یہ کہ گزشتہ تین ہفتوں سے گیارہ فروری تک ہر روز ایک مرد یا عورت غربت سے تنگ آکر گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر خودکشی سے زندگی کو تلف کر رہے ہیں۔ ان کے قریبی حلقوں سے یا پائی گئی پرچیوں سے یہ علم ہو رہا ہے کہ یہ زندگیاں تنگدستی، عسرت، غربت اور ذرایع آمدنی کی آمد بند ہونے کے سبب خود کو موت کے حوالے کر رہے ہیں جو لوگ اپنے ضمیر کے قیدی ہیں بھیک نہیں مانگ سکتے اور ڈاکہ بھی نہیں ڈال سکتے جو بالآخر گردن میں رسی کا پھندا ڈال کر ہمیشہ کی نیند سو جاتے ہیں اور گھر والوں کو مزید بے کسی کے عالم میں چھوڑ جاتے ہیں۔
معاشرے میں یہ دو قسم کی سماجی حقیقتیں اہل اقتدار سے یہ سوال کرتی ہیں کہ یہ کیسی مجبوری ہے، اور اس پر سے اسلام کا نام لینے والے اہل اقتدار ہیں جو ایسی اموات کی تحقیق اور تجسس میں اگر مبتلا ہو جائیں تو مہنگائی اور اس کے مضر اثرات عوام کے سامنے خود بخود نمایاں ہو جائیں گے۔ یہ ایک عام سی بات ہے کہ گندم کی کاشت کے لیے وہ مشقت نہیں کرنی ہوتی جو کپاس اور دیگر اجناس کی کاشت کے لیے ضروری ہوتی ہے جب کہ گیہوں پیداواری لحاظ سے ایک ایکڑ میں پچاس من کے قریب اگتا ہے۔ تو آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آٹے کی قیمت اچانک چند ماہ میں دگنی کیوں ہو گئی۔ اس سے صاف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گندم کی قیمت بڑھانے والے محض ذخیرہ اندوز نہیں بلکہ وہ بڑے زمیندار بھی ہیں جو ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اور وہی اجناس کے اتار چڑھاؤ کے مالک ہیں۔
لہٰذا حکومت کو خود چاہیے کہ وہ بنیادی چیزوں کی قیمتوں کو اپنی دسترس میں رکھے تا کہ عوام میں حکومت کے خلاف جذبات پیدا نہ ہوں اور وہ ہر بات پر یہ نہ کہیں کہ تبدیلی تو واقعی آگئی گندم اور چینی کے دام دگنے ہو چکے ہیں۔ لیکن عوامی اعتبار سے یہ وہ تبدیلی نہیں جس کا نعرہ وزیر اعظم نے الیکشن کے دوران لگایا تھا۔ اگر اب غور سے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت (ق) لیگ سے اتحاد کے بعد صدر پرویز مشرف سے بہت حد تک وزرا کے اعداد و شمار کے لحاظ سے قریب تر ہو گئی ہے۔ مگر اجناس کے بھاؤ میں اگر کمی واقع ہو جائے تو یقینا یہ بہتری ہو گی۔ موجودہ معاشی ہلچل نے ایکسپورٹ کی مد میں تنزلی کے صاف اشارے دے دیے ہیں۔
ایسی صورت میں زرمبادلہ کی پستہ حالی اور خستہ روش کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ جس حد تک کاروباری حلقہ اٹھا سکتا ہے اس کو یقینا اٹھانا چاہیے۔ مگر آئے دن فیول چارجز اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف عام صارف بلکہ مل مالکان بھی اس بوجھ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے لہٰذا وہ اپنے بچاؤ کی تدبیریں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا صرف ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے سرمایہ کاری اور سرمایہ ریزی، لہٰذا موجودہ الجھی ہوئی معاشی صورتحال میں اس بات کی فوری ضرورت پیش آ چکی ہے کہ تین چار قسم کے سرمایہ کاروں کی فوری کانفرنس بلائی جائے جن میں اجناس سرفہرست (2) کاٹن اور چمڑے کے ایکسپورٹرز (3) ٹیکسٹائل اور دھاگہ ایکسپورٹرز۔ (4) گارمنٹس اور ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس شامل ہوں۔
حکومت نے موجودہ معاشی بحران اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے سبسڈی کا نظام رائج کیا ہے۔ یہ ایک محدود اور ناقص کاروباری علاج ہے۔ کیونکہ عام آدمی تک سبسڈی کے فوائد نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی یوٹیلیٹی اسٹورز کا جال پورے ملک میں مکمل طور پر پھیلا ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی پروڈکٹس پر عوام کا اعتماد کوالٹی کے لحاظ سے الجھا ہوا ہے۔ لہٰذا ایک تو سبسڈی کے نظام سے حکومت کو خسارہ اٹھانا پڑے گا جب کہ دوسری جانب عوام کو اس کے مکمل فوائد حاصل نہ ہوں گے۔
لہٰذا کوئی متبادل طریقہ کار کو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس طریقہ کار میں انھی لوگوں کو شامل کیا جائے جو اس بندھن میں پوری طرح سے بندھے ہوئے ہیں۔ نہ کہ اپنی کابینہ سے جس کو عام طور پر زمینداری کے سوا کسی اور پہلو کا علم کم ہے۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد بڑا ملک ہے جہاں زمین کی حد ملکیت پر کوئی فیصلہ ستر سال میں بھی نہ ہوا۔ جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو نے زمینداری کی حد ملکیت مقرر کر دی اور آج وہ اس قابل ہیں کہ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کو اناج سپلائی کرنے کے علاوہ بہت سی اشیا ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں۔
لہٰذا پاکستان کو فوری طور پر زرعی یونیورسٹی کے فاضل اساتذہ کے مشورے سے اناج کی کمی کو اور نرخوں کو نیچے لانے کے لیے فیصل آباد میں ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے اور محترم وزیر اعظم کو ان اساتذہ کی تجاویز کو اتنی ہی اہمیت دینے کی ضرورت ہے جیسے کہ یہ ہمارے ملک کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ تا کہ ہمارے ملک کو ہر روز قرض کی ادائیگی کے لیے نئے قرضوں کے لیے تگ و دو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر مہنگائی کا بوجھ عوام کے بجائے زرعی زمین پر پڑے گا۔