تاریخی اعتبار سے کراچی اور اس سے ملحقہ کئی سو میل دور تک زیر زمین میٹھے پانی کا لیول ستر اسی فٹ سے زیادہ گہرائی پر ہوا کرتا تھا۔ جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ سندھ میں برسات سالانہ دو سو ملی میٹر سے بھی کم ہوا کرتی تھی۔ کراچی سے میرپور خاص جانے والے مسافر جب ریل میں دائیں بائیں دیکھا کرتے تھے تو خشک جھاڑیاں اور سورج کی تپش سے جلے ہوئے پودوں کو دیکھ کر ہی اپنا دل بہلا لیتے تھے، مگر گزشتہ چند برسوں سے علاقے کا رنگ ہی بدل گیا ہے۔
اگر اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہفتہ بھر پہلے سرجانی میں تقریباً دو سو ملی میٹر برسات ریکارڈ کی گئی۔ اگر یہاں برسات کا رنگ ڈھنگ ان ملکوں جیسا ہوتا جہاں تواتر سے موسم گرما کے جاتے ہی برسات کے آنے کی توقع رکھتے۔ ساون کی آمد پر دھوم دھڑکا ہوتا۔ کھلے علاقوں میں کسان خود ہی گیہوں اور باجرے چھینٹ دیا کرتے جیساکہ بھارت کے دیہاتوں میں ہوتا ہے اور کچے اور چھوٹے مکانات بھی بارش کے حساب کتاب سے بنائے جاتے۔
لیکن آفت زدہ سرجانی کی کہانی سن کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں کے گاؤں گوٹھ کے لوگ برسات کی نعمتوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ یہی حال کراچی اور حیدرآباد کے شہروں کا ہے کہ نکاسی آب پر یہاں کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ازخود یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بارش تو کہیں آٹھ دس سال میں چند روزہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے نہ خصوصی گھر بنانے چاہئیں نہ ایسی راہداریاں ہوں کہ پانی خوش اسلوبی سے نکل جائے۔
اس کے علاوہ آب پاشی کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم جو بھارت کے تمام شہروں میں موجود ہیں یہاں پر ناپید ہیں۔ البتہ سپرہائی وے پر بائیں جانب ایک چھوٹا ڈیم ہے جس کا نام تھڈو ڈیم ہے۔ یہ کسی حد تک آب پاشی میں علاقائی لوگوں کے استعمال میں ہے۔ مگر چھوٹے ڈیم کا کلچر تو پاکستان میں ناپید ہے۔ اگر کہیں کہیں ہوگا بھی تو عوام الناس اس کی فیضیابی سے دلچسپی نہیں رکھتے۔
البتہ سپرہائی وے پر تفریحات کے لیے سوئمنگ پول اور ریسٹ ہاؤس بنائے جا چکے ہیں، لیکن تعمیری اور زرعی اصلاحات کی طرف نہ حکومت کی توجہ ہے اور نہ ہی عوام کی۔ کیونکہ عوام تو حکومت کی راہ پر چلنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی سے حیدرآباد تک زمینیں ویران پڑی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے البتہ جو قافلے پاکستان سے اجمیر شریف کی درگاہ پر جاتے ہیں وہ وہاں پر جو دعائیں مانگتے ہیں ان میں یہ دعا بھی نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ پاکستان کو بھی زرخیز کردے، کیونکہ اجمیر شریف کی پہاڑیوں سے جو پانی گزرتا ہے وہ بہت بڑے علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ ہند کے حکمران اکبر نے سب سے پہلے درگاہ پر توجہ دی۔ بعدازاں مغلیہ خاندان کے دیگر دو حکمرانوں جہانگیر اور شاہجہان نے ڈیم نما تالاب، آناساگر کے کنارے بارہ دری اور باغات بنوائے جن کو دولت باغ کا نام دیا۔ ان باغات کی آبیاری اناساگر کے پانیوں سے آٹومیٹک طریقے سے ہوتی ہے۔ اناساگر پیالے کی طرح لبالب پانیوں سے بھرا ہوتا ہے اور فاضل پانی سرکتا ہوا بڑی کیاریوں میں گرتا ہے وہاں سے اوپر سے نیچے کی طرف چھوٹی کیاریوں میں پہنچ جاتا ہے۔
جب میں نے پاکستانی اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ گزشتہ دنوں سرجانی میں جو بارش ہوئی تھی تو اس کا بادل راجستھان سے چلا تھا۔ ظاہر ہے راجستھان میں بڑی ندیاں نہیں ہیں جن کی گہرائی اور پانی کا ٹھہراؤ اس قدر ہو کہ وہاں سے فیومز اٹھیں اور ایسے ملک میں جاکر برسیں جہاں قحط کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ خصوصاً تھر، میرپورخاص اور کراچی، حیدرآباد کے علاقوں کو اپنا نشیمن بنا لیں اور کراچی کے بعض علاقوں میں چند گھنٹوں میں 200ملی میٹر بارش ایک نئی تاریخ ہے، جس سے صوبہ سندھ کی ہریالی قابل دید ہوجائے گی۔
کراچی میں بارشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں مگر وہ تین تین چار چار سال کے وقفوں سے۔ اس لیے یہاں کے باسیوں کو آب پروری کی کوئی تربیت نہیں ہے۔ نہ ہی بچاؤ کی اور نہ ہی پانی کی ذخیرہ اندوزی کی۔ بس ایک دریائے سندھ ہے جس کے راستے میں کھیتی باڑی اور باغبانی کا راج ہے۔ باقی اگر آپ پورا سندھ دیکھیں تو چند مقامات چھوڑ کر ہر جگہ درختوں کے سوکھے پتے موجود ہیں۔ اسی لیے یہاں پر مویشیوں کی افزائش کا باقاعدہ کوئی انتظام نہیں ہے، البتہ اگر آپ دادو کی طرف یا سیہون شریف کی طرف جا رہے ہوں تو آپ اونٹوں کے قافلے بڑی تعداد میں دیکھیں گے جو ریگستانی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔
مگر گزشتہ چند برسوں میں تو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں نے اپنا روپ ہی بدل ڈالا ہے۔ اب سنا ہے کہ حکومت سندھ درختوں کی افزائش میں کوشاں ہے اور اس سال بقول اس کے کئی ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔ کاش ایسا ہی ہو۔ مگر جو درخت لگائے گئے ہیں ان میں پھول اور پھل والے درخت نہیں ہیں۔ جب کہ ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے ناریل اور کیلوں کے اتنے درخت لگائے ہیں کہ لوگوں کو اس کی خریداری کا کوئی شوق نہیں رہا۔ وہاں ناریل کے درختوں سے پکانے کا تیل بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ درختوں کی افزائش کا مطلب ملک میں کھانے پینے کی کفالت کی طرف ایک جدید قدم ہوگا۔
یہ سوچنا کہ چڑیاں اور دیگر پرندے ماحول کو آلودہ کردیں گے یہ غلط فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پرندے جب پولن کو توڑتے ہیں تو صرف اس کو استعمال ہی نہیں کرتے بلکہ انسانوں کے لیے مفید تر بنا دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں جو سن ساٹھ میں شجرکاری کی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولن الرجی دور دور تک پھیل گئی اور وہاں لوگوں کا رہنا دشوار ہو گیا۔
لہٰذا درختوں کو لگانے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا یہ درخت ہمارے انسانوں اور جانوروں کے لیے بار آور بھی ہے یا نہیں۔ شجرکاری کی مہم شروع کرنے سے پہلے پاکستان کے فاریسٹ آفیسروں کا مشورہ اور اردگرد کے دیگر ممالک کا دورہ ضروری ہے جو حکومت پاکستان ازخود منظم کرے۔ اس طرح ملک کی معیشت بھی ایسی ہو جائے گی کہ دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے گی اور ہم بھار ت سے کہیں زیادہ آگے نکل جائیں گے۔ ہمارے یہاں اگر کسی قسم کی صنعتی منصوبہ بندی میں رکاوٹیں ہیں تو کم ازکم زرعی منصوبہ بندی تو کی جاسکتی ہے۔ جس میں زمینوں کی حد ملکیت کئی ہزار ایکڑ نہ ہو بلکہ منصوبہ بندی سے تقسیم کیا جائے تو پھر سپر ہائی وے پر دونوں جانب لہلہاتے درخت اور کھیتیاں نظر آئیں گی۔