100 Din (1)
Arif Nizami92 News809
عمران خان کی حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہو گئے، اپنی ابتدائی کارکردگی کے حوالے سے یہ مدت تحریک انصاف کی خود طے کردہ تھی۔ اس حوالے سے دوبالکل متضاد بیانیے ہیں، حکومت یہ دعویٰ تو نہیں کر رہی کہ اس عرصے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں لیکن وزیراعظم سمیت تحریک انصاف کے رہنما مصر ہیں کہ اس مدت میں انھوں نے آئندہ کا روڈ میپ متعین کر دیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کا اصرار ہے کہ حکومت نے سودن میں گالی گلوچ کی سیاست کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گی۔ ان متضاد دعوؤں کے باوجود حقیقت کچھ ملی جلی ہے، تحریک انصاف نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں اور نہ ہی یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ حکمرانی کے معاملے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دراصل اگر عمران خان نے سو دن کا لاحقہ خود نہ لگایا ہوتا تو کسی پارلیمانی نظام میں حکومت کے سو دن کامیاب یا ناکام قرار دینا زیادتی ہو گی بالخصوص تحریک انصاف پہلی بار مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار آئی ہے۔ عمران خان سمیت ان کی ٹیم کے اکثر ارکان امور مملکت سمجھنے کے معاملے میں نسبتاً نوآموز ہیں، اس لیے ابھی تک ٹیم ورک کا فقدان نظر آرہا ہے۔ خان صاحب اور پی ٹی آئی کا سب سے بڑا دعویٰ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہے لیکن کئی دہائیوں سے اس رستے ہوئے ناسور پر پلک جھپکتے ہی قابو پالینا ناممکن ہے۔ شاید اسی لیے عمل کے بجائے نعرے بازی سے زیادہ کام لیا گیا، جوش خطابت میں گزشتہ حکمرانوں کی کرپشن بلین میں نہیں بلکہ ٹریلین سے کم نہیں بتایا جاتا۔ وزیراعظم اور ان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری جوعملی طور پر ان کے ترجمان بھی ہیں اسی لیے اپنے مخالفین کے خلاف سخت اور تلخ زبان استعمال کرتے ہیں۔ خان صاحب پاکستان میں ہوں یا بیرون ملک ان کا ایک ہی نعرہ مستانہ ہے کہ ہم کرپشن ختم کرنے کے لیے آئے ہیں، ان کے مخالفین نام تو جموریت کا لیتے ہیں لیکن سب چور ہیں جنہیں جیل میں ڈالا جائے گا۔ گالی گلوچ کے اس رویئے نے پورے جسد سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عمران خان نیب کی اپوزیشن کے مطابق انتقامی کارروائیوں کے باوجود اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا بس چلے تو پچاس کرپٹ سیاستدانوں کو اندر کردیں۔ بقول قائد حزب اختلاف شہباز شریف انہیں متعدد کیسوں میں پھنسا کر نیب میں مسلسل ریمانڈ لیا جا رہا ہے لیکن عملی طورپر تمام پاپڑ بیلنے کے باوجود نیب کے پراسیکیوٹرز کو کچھ حاصل نہیں ہوا اسی لئے اپوزیشن کا اصرار ہے کہ یہ احتساب کے بجائے انتقامی کارروائی کے زمرے میں آتا ہے۔ سودنوں میں حکومت کی ایک بڑی ناکامی اپوزیشن سے بقائے باہمی کا فقدان ہے۔ تین ماہ میں پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو سربراہی نہ دینے کے باعث پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ابھی تک تشکیل نہیں پاسکی۔ حکومت نے اگر پی اے سی کی سربراہی اپنے پاس رکھی تو خدشہ ہے کہ اپوزیشن ایوان کا بائیکاٹ کر دے جس سے محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسی بنا پر پارلیمانی کمیٹیاں نہیں بن پا رہیں۔ پارلیمنٹ میں فروعی باتوں اور گالی گلوچ کے علاوہ کوئی مثبت کارروائی نہیں ہوئی۔ ایک طرف خان صاحب رطب اللسان رہتے ہیں کہ میں فضول خرچی اور قومی دولت کے ضیاع کے خلاف ہوں۔ یہاں یہ سوال پوچھنا بنتاہے کہ اپوزیشن کو آن بورڈ لینا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ۔ ایسانہ ہونے کی بناپر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس اور ارکان کے الاؤنسز پر جو خرچ ہو رہا ہے وہ کس زمرے میں آئے گا؟ ۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کو تو حال ہی میں اپوزیشن سے معذرت نہ کرنے کی بنا پر سینیٹ کے اجلاس سے معطل کردیاگیا لیکن ا س ضمن میں کسی ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے انھوں نے الٹا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو للکارا اور کہا کہ وہ تو بلاواسطہ طور پرمنتخب ہوئے ہیں۔ میں تو عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوا ہوں۔ اس مضحکہ خیز جواز کوآگے بڑھادیا جائے توا س طرح صدر مملکت اور وزیراعظم بھی بلاواسطہ منتخب ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں کیا ہمارے وزیر اطلاعات ہی افضل ٹھہرتے ہیں؟ ۔ چیئرمین سینیٹ ایک آئینی عہدہ ہے اس کی یہ توہین تحریک انصاف کے جمہوری اداروں کے بارے میں مجموعی طرزعمل کی غمازی کرتی ہے۔ سو دنوں کی سٹاک ٹیکنگ کرتے ہوئے وزیراعظم کو فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیا وہ ایک انقلابی جماعت ہیں یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی ایک پارلیمانی جمہوری حکومت؟ ۔ ایک اور معاملہ جس پر عمران خان کو اکثر مطعون کیا جاتا ہے وہ ان کے’یوٹرن، ہیں۔ اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے موصوف کا فرمانا ہے کہ ’یوٹرن، لیناتو اچھے سیاستدان کی نشانی ہے۔ ان کے بقول ہٹلر بھی یوٹرن لے لیتا تواسے اپنے بنکر میں خودکشی نہ کرنی پڑتی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کی یہ بات جزوی طور پر درست بھی ہے کیونکہ جہاں کوئی بنیادی غلطی سرزد ہو رہی ہو اس فیصلے کو بدلنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بعض بنیادی اور کلیدی معاملات پر سوچ سمجھ کر اور تمام محرکات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرناچاہیے۔ شاید ’پہلے تو لو پھر بولو، پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کا طرہ امتیاز ہی نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ خود کشی کرلوں گا لیکن کشکول لے کر نہیں پھروں گا یا یہ کہ غریبوں کے لیے معاملات آسان کرونگا لیکن عملی طور پر کشکول لے کر دنیا بھر میں پھرابھی جائے، آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی کیے جائیں اور منی بجٹ میں ترقیاتی اور سوشل سیکٹر کے لیے مختص رقم میں تحفیف بھی کردی جائے اور روزمرہ کی ضروریات کی اشیا پرٹیکس بھی بڑھا دیئے جائیں۔ یہ یقینا پاکستان کے معروضی حالات کی وجہ سے مجبوریاں ہیں لیکن اس معاملے کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے۔ خان صاحب نے بہت سے یوٹرن ٹھیک بھی لیے ہیں۔ مثال کے طو ر پر تحریک لبیک کے خلاف پہلے سجدہ سہو کرنے کے بعد اب سخت لائن اختیار کرنا وقت کا اہم تقاضا تھا کیونکہ کسی بھی گروپ کو تشدد، ہلڑ بازی اور گڑ بڑ کرکے وطن عزیز پر اپنا ایجنڈا ٹھونسنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح خارجہ پالیسی کے محاذ پر حکومت نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ امریکہ سے معاملات ابتر ہیں لیکن بھارت سے تعلقات کی تجدید ایک خوش آئندہ پیش رفت ہے۔ کرتارپور بارڈر کھولنے کا فیصلہ جراتمندانہ ہے اور اس کا کریڈٹ غیر رسمی سفارتکاری سے اس وقت ہوا جب بھارتی سابق کرکٹر اور ٹیلی ویژن پرسنیلٹی نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ تقریب کے دوران انھوں نے نومنتخب وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کرتارپور بارڈر کھولنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر صاد کرتے ہوئے یقینا فوجی قیادت کا کلیدی رول ہے لیکن اصل کریڈٹ حکومت کوہی جاتاہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ گزشتہ حکومت کی پالیسی جس کے تحت میاں نواز شریف نے کسی کو وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا تھا درست نہیں تھی یقینا موجودہ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ بھارتی فوج کی سیاہ کارروائیوں کی بنا پر مقبوضہ کشمیر میں ایک ہی دن میں آٹھ نوجوان شہید ہوگئے۔ بھارتی حکام کو باور کرانا پڑے گا کہ ان کی اس رٹ کہ یہ پاکستان کا پیدا کردہ مسئلہ ہے سے کشمیر میں امن بحال نہیں ہو گا کیونکہ یہ دراندازی نہیں بلکہ کشمیریو ں کی اپنی آزادی کی جنگ ہے۔ جتنی جلد بھارت اس حقیقت کو تسلیم کر لے گا اور اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنے کی کوشش کرے گا اتنی ہی جلدی خطے میں امن واستحکام ہو جائے گا اور دونوں ممالک کے غریب عوام جمہوریت کے بہتر ثمرات حاصل کر پائیں گے۔ تاہم پاکستان جو مسائلستان ہے کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرنے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔