100 Din (2)
Arif Nizami92 News721
سودن مکمل ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے سب سے بڑاچیلنج ایک مربوط اقتصادی پالیسی مرتب کرنا اور گورننس ہے۔ اس معاملے میں ابتدا ہی غلط ہوئی، خان صاحب نے بین الاقوامی اور مقامی ماہرین اقتصادیات پرمشتمل اقتصادی مشاورتی کونسل تشکیل دینے کا اعلان کیا جس میں ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹرعاطف میاں بھی شامل تھے۔ وزیراعظم کو اچھی طرح علم تھا کہ موصوف کا تعلق ایک اقلیتی فرقے سے ہے کیونکہ جب وہ اپوزیشن میں تھے اس وقت بھی انھوں نے عاطف میاں کواپنا اقتصادی مشیر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ وہ قادیانی ہیں تو خان صاحب پیچھے ہٹ گئے۔ اگر یوٹرن لینا تھا تو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے انھیں دوبارہ کیوں مقرر کیا گیا؟ اسی بنا پر احتجاج کے طورپر مشاورتی کونسل کے دو دیگر ارکان بھی مستعفی ہو گئے، اس طرح یہ اعلیٰ سطح کا نوزائیدہ اقتصادی ادارہ بن کھلے ہی مرجھا گیا۔ جب عمران خان نے عاطف میاں کی تقرری کی تو فواد چودھری نے فرمایا کہ پاکستان پر اکثریت کے ساتھ اقلیتوں کا بھی حق ہے اور مثال دی کہ قائد اعظم نے سرظفراللہ خان کو جواحمدیوں کے سرخیل تھے وزیر خارجہ مقرر کیا تھا، ہم بابائے قوم کے اصولوں کی پاسداری کر رہے ہیں نہ کہ شدت پسندوں کی۔ عاطف میاں کو فارغ کرنے کے تین دن بعد وزیراعظم کے یہی ترجمان نامدار فرماتے ہیں کہ وزیراعظم کے مطابق ان کی آئیڈیل ریاست مدینہ ہے اور ختم نبوت ان کے اور کابینہ کے ارکان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کی طرف سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ میں پہلے تین ماہ غیر ملکی دورے نہیں کرونگا پھر وہ باامر مجبوری کشکول لے کر سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا تشریف لے گئے۔ قبل ازیں غیر ملکی قرضوں کے بارے میں عمران خان قوم سے اپنے پہلے خطاب میں یہ فرما چکے تھے کہ میرے لیے یہ امر انتہائی شرمناک ہو گا کہ میں کسی اور ملک سے بھیک مانگوں چونکہ جس قوم میں عزت نفس ہو اس کی باقی بھی عزت کرتے ہیں۔ غالباً عمران خان کو اس وقت احساس نہیں تھا کہ اقتصادی صورتحال کس حد تک پتلی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ ہے کہ ہم تو ٹھیک اقتصادیات چھوڑ کر گئے تھے یہ اچانک بیڑہ غرق نئی حکومت کے اناڑی پن کی وجہ سے ہواہے۔ شرح نمو 5.8فیصد تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ہو رہی تھی، گردشی قرضوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور استعداد میں گونا گوں اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی کا تخمینہ 6.2 فیصد لگایا گیا تھا تاہم اب اس کا تخمینہ 4 فیصد لگایا گیا ہے۔ اسی طرح مہنگائی کی شرح حکومت آنے سے قبل 5.8 فیصد تھی جو اکتوبر کے مہینے تک ہی 6.8 فیصد تک پہنچ گئی۔ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے17 اگست کو ڈالر 124.04 روپے کاتھا جو 22 نومبر تک 133.99 روپے تک پہنچ گیا۔ ترسیلاتِ زر میں کمی واقع ہوئی، جو اگست میں 2 ارب 4 کروڑ ڈالر تھیں، اکتوبر تک 2 ارب ڈالررہ گئیں، درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جو اگست میں 4 ارب 46 کروڑ ڈالر تھیں، بڑھ کر 4 ارب 72 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں، اس کے برعکس برآمدات میں واضح کمی ہوئی، حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل برآمدات 2 ارب 9 کروڑ ڈالر تھیں جو اکتوبر تک کم ہوکر 2 ارب 6 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر اگست میں 10 ارب ڈالر سے زائد تھے لیکن 16 نومبر تک اس میں واضح کمی ہوئی جو 7 ارب 29 کروڑ ڈالر ہو گئے۔ مالی سال 19-2018ء کے دوران پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 10کھرب روپے مختص کیے گئے تھے جو کم ہو کر 6 کھرب 75 ارب روپے ہوگئے۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی اقتصادی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا۔ باہر سے مہنگے داموں قرضے لے کر ڈالر مارکیٹ میں پھینک کرروپے کی قدر کو بڑھائے رکھا گیا جس بنا پرہماری برآمدات بھی روبہ زوال رہیں۔ تجارتی اور بجٹ خسارہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور قرضے کئی گنا بڑھ گئے۔ ویسے بھی تین ماہ کی مختصر مدت میں معجزے رونما نہیں ہو سکتے تھے، اس پس منظر میں مرتا کیانہ کرتا کے مترادف عمران خان کو کشکول لے کر نکلنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی جوبات فطری تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضے لیے بغیر گزارہ نہیں، اس ضمن میں لیت ولعل سے کام لیا گیا۔ وزیر خزانہ اسدعمرسمیت وزیراعظم کے اقتصادی مشیر اس سنگین صورتحال سے نبٹنے میں قطعاً ناکام رہے۔ ’سی پیک، کے بارے میں حکومتی اہلکاروں کی’ لوزٹاک، بھی مہنگی پڑی۔ اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ چین سے بہت کچھ ملا لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ چین نے اس بحران میں ہماری کیامدد کی ہے؟ ۔ البتہ سعودی عرب سے 6 ارب ڈالر کا پیکیج جس میں سے ایک ارب ڈالرآ چکے ہیں حکومت کی کامیابی ہے لیکن یہ مال خرچ کرنے کیلئے نہیں ہے۔ آئی ایم ایف جو پاکستان پرکڑی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے کے معاملے میں ہم ابھی تک گومگوں کا شکار ہیں۔ عمران خان کی پریشانی قابل فہم ہے کیونکہ وہ تویہ وعدہ کر کے آئے تھے کہ کرپشن فری پاکستان میں غریبوں کے زخموں پر پھاہا رکھیں گے لیکن آئی ایم ایف کا پیکیج بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھانے سے مشروط ہے، لگتا ہے کہ اس کڑوی گولی کو نگلے بغیر اقتصادی استحکام حاصل نہیں ہو پائے گا۔ عمران خان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اب بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں روبہ زوال ہیں اس طرح انھیں وہی کشن مہیا ہو جائے گا جو مسلم لیگ(ن) کو حاصل رہا۔ سودن گزرنے کے باوجود گورننس کے محاذ پر ابھی تک واضح سمت متعین نہیں ہو سکی۔ محض علامتی اقدامات کا سہارالیا جا رہا ہے۔ پہلے تویہ کہا گیا کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن فواد چودھری نے ایک ایسی درفنطنی چھوڑی جس کی وجہ سے یہ مذاق بن کر رہ گیاکہ وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کے سفرپر محض 55روپے فی کلومیٹر خرچہ آتا ہے۔ میاں نوازشریف پر بجا طور پر تنقید کی جاتی تھی کہ وہ اپنے نورتنوں کو نوازنے سے نہیں چوکتے لیکن عمران خان نے تو دوستوں کو نوازنے کی نئی تاریخ رقم کردی۔ ان کے یارغارزلفی بخاری برطانوی پاسپورٹ رکھنے کے باوجود مشیر خصوصی بنے ہوئے ہیں اور وہ نہ جانے کیوں نیب کو بھی مطلوب ہیں اور عدالتوں میں بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے جواز پیش کیا جاتا ہے چونکہ وہ وزیر نہیں ہیں لہٰذا دوسری شہریت کا قانون ان پرلاگونہیں ہوتا۔ نہ جانے زلفی بخاری کے پاس کیا جوہر قابل ہے جس کی بنا پرقانون کی غلط تاویل کر کے یہاں رکھنا ضروری ہے۔ عوام کو یہ نوید بھی سنائی گئی کہ ان کے لیے پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے یہ کیسے بنیں گے اورکون بنائے گا، ان کے لیے وسائل کہاں سے مہیا ہونگے؟ کچھ واضح نہیں۔ اس معاملے میں بھی تریاق عمران خان کے برطانوی نژاد دوست انیل مسرت نظر آتے ہیں۔ وہ برطانیہ کے ایک کامیاب ترین پراپرٹی ٹائیکون ہیں لیکن پچاس لاکھ گھروں کی تعمیرکی منصوبہ بندی اور فنانسنگ کے بارے میں ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کسی کو معلوم نہیں۔ اس قسم کے کئی اور ’میر خوار، اقتدار کے ایوانوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح پہلے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بیوروکریسی اور پولیس کو سیاسی اثر ونفوذ سے آزاد کردیا جائے گا لیکن عملی طور پر اس کے الٹ ہوا۔ احسن جمیل گجر جن کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی اہلیہ خان صاحب کی فیملی فرینڈ ہیں اور انہی کے گھر میں بشریٰ بی بی سے ان کا نکاح ہوا تھا، کبھی ڈی پی او پاکپتن اور کبھی آئی جی پنجاب کا تبادلہ کرواتے نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اعظم خان سواتی کے مقابلے میں غریب کا ساتھ دینے والے آئی جی اسلام آباد کو تبدیل کردیاگیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ یوٹرن لیا گیا کہ پولیس اور بیوروکریسی کواپنے اپنے علاقے کے منتخب نمائندوں اور وزرا کے سامنے کورنش بجا لانا چاہیے۔ ان کے فون سننے چاہئیں گویا کہ سرکاری ملازم سرکار کے نہیں بلکہ حکمران جماعت کے ذاتی ملازم ہیں۔ اس پس منظر میں صرف یہی امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت سو دن کے تجربے کی روشنی میں کچھ مثبت یوٹرن لے۔