دعویٰ تو یہ ہے کہ ملک کو مستحکم کر دیا ہے اور سال 2020ء اقتصادی ترقی کا سال ہو گا کیونکہ بقول وزیراعظم اکانومی کا جو پچھلی حکومت بیڑہ غرق کر گئی تھی اب ٹھیک ہو گئی ہے۔ لیکن نئے سال کے" تحفے" کے طور پر عوام پر پٹرول بم گرادیا گیا ہے، اس پر مستزاد گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ درآمدات حکومت کی گوناگوں کوششوں سے کم اور برآمدات میں اضافہ ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ ٹیکس ریونیو میں تاریخی کمی ہوئی ہے۔ درآمدات میں جس اندازسے کمی ہوئی اس پر تو حکومت کو تشویش ہونی چاہیے تھی کہ ملک میں بڑے پیمانے کی صنعتکاری میں منفی اضافہ ہوااور عمومی طورپر اقتصادی جمود کی بنا پر درآمدات تو کم ہونا ہی تھیں۔ اگر ملک میں نئی صنعتیں لگ رہی ہوں اور سرمایہ کاری ہو رہی ہو تو درآمدات میں اضافہ ہوتااور یہ اضافہ صحت مند ہی قرار دیا جاتا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو 2020ء خوشحالی کا سال نظر نہیں آ رہا تو پھر حکومت کیسے یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ نئے سال میں سب اچھا ہو گا۔
نیب آرڈیننس میں ترمیم کے حوالے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ اس سال کے دوران سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں تھم جائیں گی لیکن تاحال ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو اختیارات کے ناجائزاستعمال کے الزام میں گرفتارکیا گیا تھا، ان پر براہ راست مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اصولی طورپر نیب کے نئے آرڈیننس کی روشنی میں احسن اقبال اور دیگر ایسے افراد جو محض مفروضوں کی بنا پرپابند سلاسل ہیں کونیب کو یکطرفہ طور پر چھوڑ دینا چاہیے لیکن ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احسن اقبال کو رہا کرنے کے بجائے علاج کے لیے نیب نے انھیں لاہورمنتقل کر دیا۔ چیئرمین نیب، مصر ہیں کہ انھوں نے کسی کو ناجائز گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی نیب کی کارروائیوں سے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں اور نہ سرمایہ کاری کا ماحول متاثر ہوا ہے لیکن حکومت سمیت کوئی ان کے عذرلنگ کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔
2019ء کے آخری روز ہونے والے کابینہ اجلاس میں گھر کے بھیدی لنکا ڈھاتے رہے، اینٹی نارکوٹکس فورس کے سربراہ میجر جنرل عارف ملک کو کابینہ کے اجلاس میں جواب طلبی کیلئے بلایاگیا تاکہ وہ اے این ایف کے ہاتھو ں رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے محرکات اور ضمانت پر روشنی ڈال سکیں اور کابینہ کے ارکان کے سوالوں کے جواب دے سکیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق بعض وزراء کا اصرار تھا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ اے این ایف نے بنایااور تفتیش بھی کی، اب الزام وزیراعظم عمران خان پر آرہا ہے کہ ان کے حکم پر انتقامی کارروائی کی گئی۔ میجر جنرل صاحب جن کی سربراہی میں کئی حاضر سروس بریگیڈئیر اور فوجی افسران اے این ایف میں کام کرتے ہیں مصر تھے کہ کیس سچا ہے۔ خبر کے مطابق اجلاس کے دوران نوبت یہاں تک پہنچ گئی ڈی جی، اے این ایف اور وزراء کے درمیان تلخ جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ اعتراض اٹھانے والے وزراء میں مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ پیش پیش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ کے کیس میں اے این ایف کی نااہلی واضح ہے۔ وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفرید ی نے جو ٹی وی چینلز پر اس کیس کے حوالے سے اللہ کو حاضر ناظر جان کرقسمیں اٹھاتے رہتے تھے اپنے ہی دوستوں کی تنقید پرقلابازی لگائی اور مدعا ڈی جی، اے این ایف پر ڈال دیا کہ وہ ڈی جی کی قسموں پر ہی قسمیں اٹھاتے رہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ڈی جی نے اس معاملے پر میرے سامنے اپنے بچوں کی قسمیں کھائیں۔ وزیر داخلہ بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ جو خود بھی اے این ایف پنجاب کے ڈی جی رہے ہیں نے درست کہا کہ اس کیس میں بنیادی تفتیشی طریقہ کار کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا گیا۔ شاہ صاحب کو میاں نواز شریف کے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں کہا گیا تھا کہ زرداری پر منشیات سمگلنگ کا کیس بناؤ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ عام طور پر منشیات سمگلنگ کے کیسز میں ضمانت نہیں ہوتی لیکن جس بھونڈے انداز سے کیس بنایا گیا اس بنا پر استغاثہ کے موقف میں اتنے بڑے سقم تھے کہ عدالت کو بھی فیصلے میں کہنا پڑا کہ اپوزیشن کے متحرک رہنما ہونے کی بنیاد پر انتقامی کارروائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے ملک میں سیاسی انتقام کی حقیقت کا سب کو معلوم ہے۔
یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ وزیر اینٹی نارکوٹکس کس مرض کی دوا ہیں؟ ۔ انھیں قسمیں اٹھانے سے پہلے یقینی بنانا چاہیے تھا کہ اے این ایف ٹھوس شواہد کی بنا پر اور درست پروسیجر کے تحت رانا ثناء اللہ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے؟ ۔ کیا اے این ایف متعلقہ وزیر کے ماتحت ادارہ نہیں ہے۔ کیا ڈی جی، اے این ایف میجرجنرل عارف ملک ان کے ماتحت نہیں ہیں۔ حکومت کی اس جگ ہنسائی پروزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور وزیر سائنس وٹیکنالوجی فوا دچودھری جو کابینہ میں عموماً بلا کم وکاست بات کرتے ہیں، چپ نہ رہ سکے اور اس معاملے پر کڑی تنقید کی۔ اس تمام صورتحال پر جہاں متعلقہ وزیر کو خود استعفیٰ پیش کر دینا چاہیے تھا وہیں حکومتی ٹیم کے سربراہ وزیراعظم عمران خان کے طریقہ کار پر بھی بنیادی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا ایک صف اول کے اپوزیشن کے سیاستدان پر20کلو گرام ہیروئن سمگل کرنے کا الزام عائد کرنے سے پہلے وزیر اعظم کو خود تسلی نہیں کرلینی چاہیے تھی۔ لگتا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو نشان عبرت بنانے کا عندیہ کہیں اور سے آیا تھا۔ نئے سال میں اگر حکومت کا مقصد گورننس کوبہتر بنانا ہے تو پھرنہ صرف گزشتہ ڈیڑھ برس کے طریقہ کار کو بدلنا ہو گابلکہ حکمرانی پارلیمنٹ اور کابینہ کے ذریعے ہی کرنا ہو گی۔ ایساکرنے کے کئی لوازما ت ہیں۔ وزیر اعظم کو خود کویہ باور کرانا پڑے گا کہ وہ وزیر اعظم ہیں مغل اعظم نہیں۔ پارلیمانی نظام مشاورت، کچھ لو کچھ دو اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی چلتا ہے۔
شاید خان صاحب کو یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ حکمرانی کرکٹ کی کپتانی سے مختلف ہوتی ہے۔ پارلیمانی نظام میں تو وزیراعظم کابینہ میں بھیFirst Among Equals سب وزراء کے برابرہوتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ شوکت خانم ہسپتال ان کی ذاتی کاوشو ں اور خداداد صلاحیتوں کا نتیجہ ہے جس کے لیے انھیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے لیکن پاکستان جیسا پیچیدہ ملک چلانا خاصا کٹھن ہے۔ یہ شوکت خانم ہسپتال نہیں جو محض ایک بورڈبنا کر قابل ٹیکنوکریٹس کی صلاحیتوں اور چندے کی بنا پر چل سکے۔ وطن عزیز جو مختلف قومیتوں اور علاقوں پر مشتمل ایک وفاق ہے اورپارلیمانی "جمہو ری" وفاقی سیاسی نظام "ون مین شو" کے ذریعے نہیں چل سکتا، اگرایسا ہوتا تو ماضی میں طالع آزما آمرانہ نظام کے ذریعے کچھ نہ کچھ ڈلیور کر جاتے۔ عمران خان پاکستان میں فوجی آمریتوں کے باواجان فیلڈ مارشل ایوب خان کو اپنا آئیڈیل بتا تے ہیں، غالباً انھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پوری طرح ادراک ہی نہیں ہے۔ یہ ایوب خان ہی تھے جنہوں نے بنیادی جمہوریت کے نام پر ملک کو سرزمین بے آئین میں تبد یل کیا۔ انہی کے بنائے بائیس خاندانوں کے ذریعے ارتکاز دولت ہوا اورجیسے ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا کہ افقی اور عمومی(Horizontal & Vertical Polarisation) پولرائزیشن بڑھ گئی گویا کہ دوسرے لفظوں میں طبقاتی طور پر قوم چند امیروں اورکروڑوں غریبوں میں تبدیل ہو گئی اور بعض علاقے ترقی یافتہ قرار پائے اور باقی ماندہ علاقے بالخصوص مشرقی پاکستان پسماندہ ترین اور یہیں سے ملک دولخت ہونے کی بنیاد پڑی۔ میں نے چینل 92 میں اپنے پروگرام "ہو کیا رہا ہے"میں متعدد بار کہا کہ فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کے قواعد وضوابط متعین کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں جانا پڑے گا، ایسا ہی ہوا ہے۔ وفاقی کابینہ نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے۔
وفاقی وزرا کا لہجہ بھی کچھ بدلا ہوا ہے کیونکہ اب چور اور خائن اپوزیشن سے سلسلہ جنبانی بڑھانا حکومت کی مجبوری بن گئی ہے۔ ساتھ ساتھ اپوزیشن کو یہ لالی پاپ بھی دیا گیا ہے کہ حکومت نیب آرڈیننس کو ترامیم کے ساتھ باقاعدہ قانونی شکل دینے کیلئے تیار ہے۔ لگتا ہے کہ آرمی چیف کو آنے والے دنوں میں تین سال مل جائیں گے۔