اس وقت ملکی سیاست نام نہاد مائنس ون فارمولے کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ حکومتی ترجمان منڈیر پر آکر چیخ چنگاڑ رہے ہیں کہ کونسا مائنس ون فارمولہ؟۔ مائنس ون تو نوازشریف، شہبازشریف سمیت مسلم لیگ(ن) کی لیڈر شپ ہوچکی جولندن جا کر بیٹھ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے لندن سے یہ مطالبہ کردیا ہے کہ اتفاق رائے سے ان ہاؤس تبدیلی لا کر نیا وزیر اعظم بنایا جائے جو دو تین ماہ میں انتخابی قانونی اصلاحات کرنے کے بعد تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے عام انتخابات کا اعلان کرے۔ احسن اقبال کا یہ بھی فرماناہے کہ تحریک انصاف کے تین امید واروں نے شیروانیاں سلوالی ہیں، نہ جانے یہ تین کون ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہما ان کے سر پر بیٹھے۔ ان میں سے ایک تو یقینا شاہ محمود قریشی ہیں جن پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا عمومی اتفاق رائے ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان اور جہانگیر ترین رطب اللسان ہیں کہ پی ٹی آئی میں مائنس ون عمران خان کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان نہیں اب مریم نواز مائنس ہونے والی ہیں جنہوں نے ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے ہنوز اس معاملے میں معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
دوسری طرف لندن میں ایون فیلڈ جس کی ملکیت سے وہ ہمیشہ انکاری رہے ہیں میاں نواز شریف مقیم ہیں کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ تحریک انصاف کے کچھ کرائے کے لوگوں نے گھر کامرکزی دروازہ توڑنے کی بھی کوشش کی اور مبینہ طور پرنعرہ لگایا کہ "گولی مار دو، ایون فیلڈ کو بم سے تباہ کردو"۔ تحریک انصاف کے کھلاڑیوں کو شاید یہ ادراک ہی نہیں ہو رہا کہ وہ اب اپوزیشن میں نہیں بلکہ حکومت میں ہیں اور ان سے کسی حد تک ذمہ دارانہ گفتگو اور رویئے کی توقع کی جاتی ہے۔ غالباً انھیں یہ احساس بھی نہیں ہورہا کہ یہ مائنس ون، مائنس آل میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔
وزیردفاع پرویزخٹک کا دعویٰ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کی تقرری کے حوالے سے اپوزیشن کی مشاورت سے فیصلہ بدھ تک (یعنی آج) ہو جائے گا۔ لیکن کیسے؟۔ قومی اسمبلی کا ہر اجلاس تو ہنگامہ خیزی اور ایک دوسرے پر رکیک الزام تراشیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا یہ مطالبہ سراسر جائزہے کہ نیب کے زیرحراست سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جنہیں کال کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے اورخواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ مبینہ منشیات سمگلنگ کیس میں گرفتار رانا ثناء اللہ کو بھی ایوان میں پیش نہیں کیا جا رہا حالانکہ اے این ایف ابھی تک منشیات کی سمگلنگ کا ثبوت نہیں پیش کر سکی۔ ا س صورتحال کے پیش نظر دوروز میں الیکشن کمیشن میں نامزدگی کا قضیہ طے ہوتا نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف نے لندن سے فوری واپسی پر قومی اسمبلی میں اعلان کر دیا ہے کہ کسی بھی قانون سازی کے حوالے سے حکمران جماعت سے تعاون نہیں ہو گا اور یہ وارننگ بھی دے دی ہے کہ میاں نواز شریف کو کچھ ہوا تو حکومت کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کے بعد کی توسیع اورمدت وشرائط کا تعین کرنے کے بارے میں قانون سازی کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو کوئی جلدی نہیں۔ وزیردفاع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن سے آرمی چیف کی مدت پر بات نہیں ہوئی۔ اس کیس کا سپریم کورٹ سے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد حکومت لیگل ٹیم کے ساتھ مل کر فیصلہ کرے گی، گویا کہ اپوزیشن اس سلسلے میں فریق ہی نہیں ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے آرمی چیف کی مدت وشرائط ملازمت کے طریقہ کار پر مناسب ہوم ورک کر لیا جاتا اور اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے تھا۔ اس معاملے کو پہلے بھی مس ہینڈل کیا گیا جس کی بنا پر خاصی سبکی ہوئی۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے کو ایک بار عدالت میں تماشہ بنا چکی ہے، اب اسمبلی میں محتاط رہے، اس حساس معاملے پر حکومت کا رویہ اب بھی مثبت اور سنجیدہ نہیں، جب حکمران خود اپنی قبریں کھودنے لگے ہوئے ہوں تو حکومتیں مدت پوری نہیں کرتیں، انھیں غلطیوں کا احساس تب ہو گا جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ جس انداز سے وزیر قانون فروغ نسیم سمیت حکومت کی لیگل ٹیم نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ٹامک ٹوٹیاں ماریں، اس تناظر میں اگر اب احتیاط نہ برتی گئی تو مزید جگ ہنسائی ہو سکتی ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تاریخی طور پر بھارت پاکستان کو تر نوالہ بنانے کے درپے رہتا ہے اور 5اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد اس کی پاکستان مخالف سرگرمیاں مزید تیز ہو گئی ہیں، خطے کی صورتحال بھی تغیر پذیر ہے۔ امریکہ ہرحال میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور اب طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات پھر شروع ہو گئے ہیں۔ اسی بنا پر چھ ماہ کے بجائے یہ فیصلہ جلد از جلد ہو جانا چاہیے کہ جنرل قمرجاوید باجوہ آئندہ تین سال تک آرمی چیف رہیں گے یا کوئی اور سینئر ترین جرنیل ان کی جگہ لے گا، اس حوالے سے غیر یقینی صورتحال وطن عزیز کے مفاد میں نہیں ہے۔ جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان آ صف سعید خان کھوسہ نے کہا تھاکہ یہ توسیع کا معاملہ ماضی میں مبہم چھوڑا گیا تھا لیکن اب یہ ہمارے سامنے آیا ہے تو اسے طے کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے پارلیمنٹ کوہدایت کی کہ چھ ماہ میں قانون سازی کر لیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنے اہم معاملے کو دانستہ طور پر ماضی کی حکومتوں نے مبہم رکھا تھا؟۔ کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال ججوں کی سنیارٹی کے معاملے میں تھی۔ لیکن ججز سنیارٹی کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے اسے ہمیشہ کے لیے طے کر دیا تھااور اپنے فیصلے میں یہ ڈاکٹرائن متعارف کرایا کہ جو سینئر موسٹ جج ہوگا اس کا چیف جسٹس بننا قانونی اورجائز حق ہو گا اور سارا معاملہ سنیارٹی پر چلے گا اور وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو جائے گا جیسے کہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ19 دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس گلزار احمد کے چیف جسٹس بننے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے۔ ماضی میں اسی ڈاکٹرائن کی بنا پر سپریم کورٹ کے بعض چیف جسٹس صاحبان چند ماہ میں ہی ریٹائر ہو گئے اور سب سے کم مدت صرف 23دن گزارکر چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر ہوئے۔
لیکن آرمی چیف کی تقرری کا آئینی طریقہ کار مختلف ہے، مجموعی طور پر فوج کا سربراہ چار سینئر ترین اور اس منصب کے اہل جرنیلوں کے نام پیش کرتا ہے اور ضروری نہیں کہ وزیراعظم کسی سینئر ترین جنرل کو ہی آرمی چیف تعینات کر یں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ سیاسی حکمران بزعم خود اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آرمی چیف بننے والے جنرل ضیاء الحق سینئر ترین نہیں تھے لیکن خوشامدی ترین ضرور تھے۔ اکتوبر 1998ء میں میاں نواز شریف نے بھی کئی سینئر جنرلز کو نظرانداز کر کے جنرل پرویز مشرف کو محض اس لیے آرمی چیف چنا کہ اردو سپیکنگ ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی لابی نہیں ہو گی۔ 29نو مبر 2016ء کو میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا وہ بھی سینئر موسٹ نہیں تھے لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ آرمی چیف ملک کا ہرحال میں وفادار ہوتا ہے اور اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور پیچیدگی یہ ہے کہ دنیا میں پارلیمانی جمہوریتوں کے برعکس وطن عزیز میں مقتدر ادارے اور ان کے سربراہ جسد سیاست پر حاوی رہے ہیں اس لحاظ سے جسٹس آ صف سعید خان کھوسہ نے جاتے جاتے ایک پنڈورا باکس کھول دیا ہے کیونکہ مدت ملازمت میں توسیع بھی ایک سیاسی فیصلہ بن جاتا ہے لہٰذا یہ بات کلیدی ہے کہ اس ضمن میں حکمران جماعت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر کوئی واضح طریقہ کار طے کرے کیونکہ اس معاملے کا تعلق جمہوری اداروں کی بقا اور انھیں دوام بخشنے سے ہے۔