مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، وزیراعظم کی طرف سے جب ہفتے سے لاک ڈاؤن ختم یا نرم کرنے کی نوید سنائی جا رہی تھی ا س وقت جان لیوا کورونا وائرس پہلے کے مقابلے میں زیادہ آگ کی طرح پھیلنا شروع ہو گیا۔ جمعہ کو ایک ہی دن میں ملک بھر میں قر یباً دو ہزار مریضوں کا اضافہ ہوا اور پنجاب میں کیسز دس ہزار سے بڑھ گئے یہی نہیں بلکہ بدھ کو ریکارڈ47اور جمعرات کو 49افراد وائرس کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئے۔ خان صاحب کا واکھیان ہے کہ ان سے غریبوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں اجیر بے روز گاری، بھوک اور افلاس کا شکار ہو رہے ہیں لہٰذا لاک ڈاؤن کھولنا ضروری ہے تاکہ انھیں روزگار ملے اور اقتصادیات کا منجمد پہیہ دوبارہ چل سکے۔ وزیراعظم کا یہ درد اتنا بے جا بھی نہیں ہے۔ ان کے قریبی مشیروں کا خیال ہے کہ کورونا وبا سے متاثرین اور اموات کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے لہٰذا اللہ کا نام لے کر لاک ڈاؤن کھول دیا جائے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر جو نیشنل کو آرڈی نیشن کمیٹی کے سربراہ ہیں اور آج کل وزیراعظم کے چہیتے بھی، نے ایک دلچسپ مثال دی کہ پاکستان میں ٹر یفک حادثات میں ہر سال چار ہزار آٹھ سو افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کورونا سے چند سو افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی بے تکی مثال ہے کیونکہ ٹریفک حادثات کوئی وائرس نہیں ہے جو پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ ویسے تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی تعدا دبھی دنیا بھر میں بہت کم ہو گئی ہے۔
غالباً وزیراعظم اور ان کے مشیر امریکہ کی ییل یونیورسٹی کی ایک سٹڈ ی پرانحصار کر رہے ہیں جس کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث اقتصادی سرگرمیاں محدود ہو جانے سے خاصا نقصان ہوتا ہے جبکہ لاک ڈاؤن کے ذریعے ان لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جاتی ہیں جو اپنی زیادہ عمر یا بیماریوں کی وجہ سے اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا اکانومی کو بند کرنا اور نسبتاً ان لوگوں کو جن کے لیے بیماری جان لیوا ثابت نہیں ہوتی کو گھروں میں محدود کرنا گھاٹے کا سودا ہو گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی نقطہ نگاہ کے حامی لگتے ہیں انہیں تو اس لیے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اسی برس نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں اور ان کی قلابازیوں کی وجہ سے وہ امریکی ریاستیں بھی اب متنفر ہوتی جا رہی ہیں جنہوں نے پچھلے انتخابات میں ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا۔ کورونا وائرس سے امریکہ میں قر یباً 13لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں اور 78ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ صرف نیویارک میں جو ٹرمپ کا اپنا علاقہ ہے تین لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور بائیس ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں اس موذی وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد نائن الیون، ویتنام، عراق اور افغانستان کی جنگوں میں ہلاک ہونے والے امریکیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن ٹرمپ اپنی ضد پرقائم ہیں کہ سب کچھ کھول دو۔ ان کے بعض ناقدین کے مطابق وہ تواتر کے ساتھ اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ اب یہی جھوٹ انہیں سچ لگتا ہے۔
یورپ میں فرانس، جرمنی، سپین اور اٹلی جیسے ممالک لاک ڈاؤن کو بتدریج نرم کر رہے ہیں۔ برطانیہ جو امریکہ کے بعد کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے ابھی اپنی ترجیحات طے کر رہا ہے۔ عمومی طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن اسی صورت کھولا جائے جب اس سے متاثرین اور اموات کی تعداد گھٹنا شروع ہو جائے اور گراف ایک جگہ ٹھہرنے کے بعد نیچے کی طرف آنے لگے لیکن پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے یہاں پر کورونا وبا کے حوالے سے صورتحا ل مزید دو درجے خراب ہو گئی ہے۔ خان صاحب اور ان کے حواری سائنس کے بجائے غالباً قدرت پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مملکت خداداد پر اپنا کرم کرے لیکن حکمرانوں کو فیصلے ٹھوس حقائق اور شواہد پرکر نے چاہئیں۔ بالخصوص ایسے معاملات میں جن کا گہرا تعلق قوم کی بقا سے ہو۔ موجودہ حکمت عملی میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر کورونا وبا کے پھیلاؤکی رفتار میں لاک ڈاؤن نرم ہونے کے بعد مزید تیزی آئی تو خدا نخواستہ انسانی جانوں کا ضیاع بڑھ جائے گا اور اکانومی بھی بحال نہیں ہو پائے گی۔ یہ خیال کہ لاک ڈاؤن کھلے گا تو اکانومی بحال ہو جائے گی ایک مفروضہ ہے۔ اگر دفاتر اور دکانیں کھلنے کے ساتھ ساتھ کورونا کیسز اتنے بڑھتے ہیں کہ ہسپتالوں میں بھی جگہ نہیں رہتی اور ہلاکتیں تیزی سے بڑھتی رہیں تو اس ماحول میں اقتصادی سرگرمیاں کیسے بحال ہونگی۔ شاید اس قسم کے خدشات کی بنا پر پنجاب میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت بھی لاک ڈاؤن کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی صدارت میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا جس میں کورکمانڈر لاہور، جنرل آفیسر کمانڈنگ 10، ڈی جی رینجرز پنجاب، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سمیت اعلیٰ حکام شریک تھے۔
جہاں تک سندھ کا تعلق ہے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے حوالے سے وفاق کے قریباً تمام فیصلوں پرعمل درآمد کیا ہے لیکن ساتھ ہی واضح کردیا کہ پیرکو صوبے میں لاک ڈاؤن ختم نہیں کیا جا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے اس عمومی اتفاق رائے کے باوجود وفاقی حکومت کے نمائند ے وزیراعلیٰ سندھ کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑے ہوئے ہیں حالانکہ خود پنجاب میں جزوی طور پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف بلو چستان کے عوامی پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی نے اپنے وزیراعلیٰ جام کمال کی معیت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کورونا وائرس جیسے نازک معاملے کی موجودگی میں سیاسی نفاق تباہ کن ہو سکتا ہے۔
دراصل کورونا وبا کا سب سے بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح اور دوٹو ک فیصلہ نہیں کر پائی اس کے برعکس مراد علی شاہ نے فیصلہ کن اقدامات کر کے پیپلزپارٹی کے مخالفوں کے بھی منہ بند کر دیئے ہیں کیونکہ وہ لیڈر شپ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب اپوزیشن اپنے زخم چاٹ رہی ہے شاہ صاحب نے اپنی کارکردگی کی بنا پر خود کو عمران خان کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ وہ ایک طرف وفاقی حکومت کے احکامات کو جی آیاں نوں کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ صوبے کے لیے مشکل فیصلے کرنے سے نہیں کتراتے۔ حکمران جماعت کے سندھ سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے ارکان اور گورنر سندھ عمران اسماعیل اس صورتحال پر سخت چیں بہ چیں ہیں۔ ان کی مخالفانہ بیان بازی کا بلاواسطہ سیاسی فا ئدہ وزیراعلیٰ سند ھ کو ہی پہنچ رہا ہے اور مراد شاہ کا موازنہ عمران خان سے کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی نا قص حکمت عملی کی بنا پر اب مراد علی شاہ عمران خان کے مقابل لیڈر بن چکے ہیں۔ حالیہ نیم درون نیم برون لاک ڈاؤن جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کیا کھلے گا اور کیا بند رہے گا عوام کو مزید گومگو کا شکار کر رہا ہے۔ غالباً لاک ڈاؤن کے بارے میں اعلان کو کسی دانستہ حکمت عملی کی بنا پر مبہم رکھا گیا ہے۔ اگر یہ ناکام ہوتا ہے جس کا قوی امکان ہے اس کا سیاسی فائدہ حکومت سند ھ کو پہنچے گا۔ نہ جانے خان صاحب کن مجبوریوں کی بنا پر ایک قدم آ گے دو قدم پیچھے کی روش کا شکار رہتے ہیں، اس روش کی بنا پر بے پناہ نقصان کا خطرہ ہے، اللہ ہمارے حال پر رحم کرے