Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Americi Telephone, Kuldip Nayar

Americi Telephone, Kuldip Nayar

وزیراعظم عمران خان نے عید کی چھٹیوں کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر دفتر خارجہ کا دورہ کیا اور پاکستان کو درپیش خارجہ چیلنجز پر تفصیلی بریفنگ لی لیکن اس بریفنگ سے پہلے ہی نئی حکومت کا امریکہ کے ساتھ پھڈا ہو گیا۔ یہ اطلاع بہت خوش آئند ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے بیوروکی سینئر رکن ایلس ویلز کے ہمراہ 5ستمبر کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ سارا جھگڑا امریکی وزیرخارجہ کی وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کال کی روداد پرہے۔ امریکی "ریڈآؤٹ" کے مطابق مائیک پومپیو نے عمران خان سے گفتگو میں ان مبینہ دہشت گردوں جو پاکستان سے کارروائیاں کر رہے ہیں، ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا معاملہ اٹھایا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں امن کے قیام میں کلیدی رول ہے۔ کچھ دیر بعد ہی دفترخارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اس امریکی" ریڈ آؤٹ "کو خلاف واقعہ قرار دیا۔ ترجمان ڈاکٹر فیصل کے مطابق دہشت گردوں کے پاکستان سے آپریٹ کرنے کا عمران خان سے مائیک پومپیو کی گفتگو میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔ تاہم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان کا اصرار ہے کہ واشنگٹن نے ٹیلی فون کال کی جو روداد جاری کی، وہ درست ہے۔ یقینا ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ بیان نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ہدایت پر ہی جاری کیا ہو گا اور اس کی کلیئرنس عمران خان نے دی ہو گی جو اس معاملے میں فریق اول ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے خود بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی موقف کو مسترد کر دیا۔ مائیک پومپیو نے کہا یا نہیں کہا خارجہ تعلقات میں ریکارڈ کی درستگی ضروری ہوتی ہے، اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو صحیح ڈگر پر ڈالنا اس وقت پاکستان کی کلیدی ضرورت ہے اور امریکہ اور اس کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا دیرینہ موقف یہی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ مائیک پومپیو کی گفتگو میں بھی یہی پیغام مضمر تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حال ہی میں غزنی میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی میں دو سو کے قریب افراد مارے جانے کی اطلاعات ہیں اور عید کے روز بھی صدارتی محل پر راکٹ برسائے گئے ہیں۔ بھارت نے فورا ً یہ الزام عائد کر دیا کہ یہ حملہ پاکستان نے کرایا ہے تاکہ غزنی سمیت افغانستان بھر میں بھارت کی مالی امداد سے چلنے والے پراجیکٹس اور پروگرامز کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ افغان حکام نے بھی بھارتی موقف کی تائید کی ہے۔ بقول ان کے پشاور اور کوئٹہ سے اس مشن کے لیے دہشت گرد بھیجے گئے۔ امریکہ جو اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ سے جان چھڑاتا ہے اس معاملے میں بوکھلا سا گیا ہے اور پاکستان پرالزام تراشی کا سلسلہ تیز تر ہو گیا ہے۔ امریکہ نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ افغان مسئلے کے پرامن حل اور انھیں شریک اقتدار کرنے کے پراسس میں اپنا رول ادا کرے کیونکہ افغان طالبان پر پاکستان کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی پابندیوں کا ہے۔ FATF کا وفد حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کر چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ وفد اسلام آباد سے مطمئن ہو کر واپس نہیں گیا۔ یہ تنظیم جس میں ترکی اور چین نے بھی پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کی تھی، پہلے ہی جون میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال چکی ہے۔ گویا کہ نئی حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے مرحلے پر ہو رہا ہے جب ملک کو فوری اقتصادی بحران سے بچانے کے لیے نئے وزیر خزانہ اسد عمرکے بقول خود کم ازکم بارہ ارب ڈالر کا قرضہ چاہیے اور آئندہ چند برسوں میں بھی اتنا ہی قرضہ چاہیے ہو گا۔ یہ رقم آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پروگرام طے کیے بغیر کہاں سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیرخزانہ سمیت عمران خان حکومت اس معاملے میں مہر بلب ہے۔ یہ انتہائی مشکل فیصلہ ہوگا کیو نکہ عمران خان کے فوری ایجنڈے سے لگا نہیں کھاتا لیکن اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ چین اور سعودی عرب جیسے دوست اور تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم کسی حد تک ہمارے زخموں پر پھاہا رکھ سکتی ہیں لیکن مقروض اور قلاش پاکستان اس کے باوجود رینگتا ہی رہے گا۔ عمران خان نے بھارت کے ساتھ تجارتی اور سیاسی تعلقات کی بہتری پر بھی زور دیا ہے لیکن جب یہی نوازشریف کہتے تھے تو پوری تحریک انصاف بیک زبان کہتی تھی کہ وہ بھارتی ایجنٹ ہیں۔ بہرحال اب حالات کا تقاضا ہے کہ بڑھکیں مارنے کے بجائے امریکہ، افغانستان، بھارت اور تمام ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی سعی مسلسل کی جائے اور اس ضمن میں خارجہ پالیسی اور سٹرٹیجک پیراڈائم کے خدوخال ازسرنو متعین کرنے کے لیے فوجی قیادت کو بھی نیشنل سکیورٹی کونسل کے فورم کو استعمال کرنا چاہیے۔ عید کے روز بھارتی صحافی کلدیپ نائر چل بسے، کلدیپ میرے عزیز دوست تھے۔ میری اور مشاہد حسین سید کی ان سے پہلی ملاقات 80ء کیدہائی کے اوائل میں ہوئی۔ ہمارے ساتھ میر شکیل الرحمن بھی بھارت گئے تھے، یہ وہی موقع تھا جب میں نے اندرا گاندھی سے سوال کیا تھا کہ آپ پاکستان کے ساتھ بھی عدم جارحیت کا معاہدہ کرنے کو تیار ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ نہ صرف یہ بلکہ ہم سوویت یونین کی طرز پر دوستی کا معاہدہ کرنے کو بھی تیار ہیں۔ کلدیپ نائر نے اس موقع پر نوائے وقت میں کالم لکھنے کی بھی حامی بھری اور بعدازاں جب میں نے ’دی نیشن، کا آغاز کیا تو وہ ’نیشن، کے لیے کالم لکھنے لگے بعدازاں ’ پاکستان ٹو ڈے، کے بھی کالم نگار تھے اور آخری دم تک کالم لکھتے رہے۔ وہ جب بھی پاکستان آتے تو لاہورمیں ان کی مہمان نوازی میرے ذمے ہوتی تھی لیکن وہ اپنے ہوٹل میں قیام کے اخراجات خود ادا کرتے تھے۔ کلدیپ نائر اگرچہ بڑے بڑے اخبارات کے ایڈیٹر انچیف بھی رہے لیکن انھوں نے بطور فری لانس کالم نگار اپنا سکہ جمایا۔ ان کے کالم برصغیر کے قریباً ایک سو اخبارات میں بیک وقت شائع ہوتے تھے۔ وہ پاکستان میں انتہائی مقبول اور جانے پہچانے تھے اور جنون کی حد تک پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات کے داعی تھے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ان کے پاس فارمولہ تھا کہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان کشمیریوں کی آمدورفت، تجارت اور قریبی تعلقات کا آغاز کیا جائے اور اس کے بعد کشمیریوں کی تقدیر کا فیصلہ کیا جائے۔ وہ بھا رتی سیکولرازم کے زبردست حامی تھے اور برملا طور پر انتہا پسندی کی کارروائیوں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر سراپا احتجاج رہتے تھے۔ کلدیپ نائر انتہائی پروفیشنل صحافی تھے۔ جنوری 1987ء میں جب انگریزی اخبار ’دی مسلم، کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید نے انھیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو کرنے کی دعوت دی تو وہ دوڑے دوڑے اسلام آباد پہنچے۔ انھیں کیا معلوم تھاکہ اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق اور وزیراعظم محمدخان جونیجو کی سخت ٹھنی ہوئی ہے اور اصل جنگ اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین منیر احمد خان اور ڈاکٹر قدیر کے درمیان چل رہی تھی۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر قدیر خان نے برملا انکشاف کر دیا کہ پاکستان ایٹمی اسلحہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھارت1986-87ء میں " آپریشن براس ٹیک" کے نام پر بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کر چکا تھا جس کا مثبت جواب جنرل ضیاالحق نے کلدیپ نائر کو ڈاکٹر قدیر خان کے انٹرویو کے ذریعے دلوایا متذکرہ انٹرویو پاکستانی اخبارات کے علاوہ لندن کے’ سنڈے ٹائمز، میں شائع ہوا تھا۔ اس پر وزیراعظم محمد خان جونیجو ناراض ہو گئے اور مشاہد حسین سید کو یہ انٹرویو مہنگا پڑا اور انھیں ’دی مسلم، کی ایڈیٹر شپ چھوڑنا پڑی۔ کلدیپ نائر پر بھارت میں بھی بڑی لے دے ہوئی۔ بطور صحافی انھوں نے وہی کیا جو انھیں کرناچاہیے تھا۔ یقینا کلدیپ نائر کا پروفیشنل ازم، اپنی بات کہنے کا حوصلہ اور راست بازی آج کل کے ہمارے نوجوان صحافیوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran