Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Army Chief Mazar Quaid Par

Army Chief Mazar Quaid Par

یوم قائد اعظم کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست کہا کہ دو قومی نظریہ آج پہلے سے بڑھ کر حقیقت بن چکا ہے، اس کے لیے قائداعظم کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ انھوں نے نوجوانوں کو تلقین کی کہ وہ قائداعظم کو اپنا رول ماڈ ل بنائیں۔ آرمی چیف نے مزار قائد پر حاضری دے کر پاکستان کے اساسی نظریے کے حوالے سے باتیں کر کے بہت اچھا کیا۔ کاش ہمارے وزیراعظم اور اپوزیشن کے لیڈر بھی اکٹھے جا کر یہی علم اٹھاتے کہ ہم نظریہ پاکستان کی روح پر عمل کر کے ملک کو قائد کے افکار کے مطابق آ گے لے کر جائیں گے۔ لیکن صدر پاکستان عارف علوی، آرمی چیف، گورنر، وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر تعلیم شفقت محمود کے سوا کسی صف اول کی لیڈر شپ کو مزار قائد پر حاضری دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم یوم پاکستان، یوم آزادی اورقائداعظم کی سالگرہ پر اچھی اچھی باتیں تو کرتے ہیں لیکن یہ بیان بازی تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ غالباً آرمی چیف کے متذکرہ ریمارکس بھارت میں مسلمانوں پر جس انداز سے زمین تنگ کی جا رہی ہے اور کشمیر میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں کے حوالے سے تھے۔ بھارت میں بیس کروڑ مسلمان اس وقت سخت ابتلا میں ہیں اور لوک سبھا سے حال ہی میں منظور ہونے والے شہریت کے قانون جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان اورآسام سے آنے والے مسلمانوں کو بھارتی شہریت نہیں مل سکتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آسام سے آنے والے ہندو تو بھارتی شہری بن سکتے ہیں لیکن مسلمانوں کو مخصوص کیمپوں میں رہنا پڑے گا۔ یہی حال روہنگیا مسلمانوں کا ہے انھیں برما میں انتہائی قابل رحم حالت میں دیکھا جائے تو پاکستان کا قیام واقعی بہت بڑی نعمت ہے جس کی بدقسمتی سے پوری قدر نہیں کی جاتی۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یا یہ کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو مسلمانوں کی بھارت میں زیادہ طاقت ہوتی، یہ عذر لنگ ہے کیونکہ بھارت میں بیس کروڑ مسلمان کوئی کم تعداد نہیں ہے۔ بیس کروڑ یورپ کے کسی ملک کی بھی آبادی نہیں۔ یہ بھی ستم ظریفی دیکھیں کہ بی جے پی نے حالیہ عام انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو امیدوار نہیں بنایا۔ بھارت کے بعض دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے بانی پاکستان کو بلاواسطہ طور پر منفی انداز میں یہ خراج تحسین پیش کیا کہ بھارت اب پاکستان بننے جا رہا ہے کیونکہ ان کے مطابق دوقومی نظریہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاست کا قیام تھا۔ ایک خاتون صحافی جو کئی بار پاکستان آ چکی ہیں اور پاکستان کے معاملات سے بخوبی باخبر ہیں نے اپنے ایک آرٹیکل میں انوکھی منطق پیش کی کہ بھارت پاکستان کی طرح ایک پاپائیت بنتا جا رہا ہے حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جیسا بھی ہے پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت، حکومت کے دھمکی آمیز رویے کے باوجود کسی قدر آزادی صحافت، سیاسی سرگرمیاں سب کچھ موجود ہیں اور پاپائیت کی طرح کسی ایک مذہبی طبقے کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہے۔

بھارت کا سیکولرازم تو ہمیشہ سے ہی ایک ڈھونگ اور منافقت پر مبنی رہا ہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حالت زار ہمیشہ پتلی رہی ہے۔ بہت عرصہ پہلے جب بھارت میں اندرا گاندھی کی زیر قیادت کانگریس کی حکومت تھی مجھے بھارت کے صوبے اترپردیش کے شہر الہ آباد کے مسلمان رکن صوبائی اسمبلی نے ایک ڈنر پر الگ لے جا کر کہا کہ حضور والا! ہماری حالت تو شودروں سے بھی بدتر ہے۔ یہ بات میں نے بھارت سے واپسی پر پی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں کہہ دی جس پر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے متذکرہ رکن اسمبلی کی خاصی گوشمالی کی۔ یقینا مودی سرکار نے سیکولر ہونے یا سیکولرازم کے دعوؤں کے تکلفات کے باوجود ایک کھلم کھلا مسلم کش ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کر رکھا ہے۔ بعض انتہا پسندوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ان کی طاقت بہت بڑھ جائے گی لہٰذا ان کے خلاف مسلم کش پالیسیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے خواہ وہ گائے کے حوالے سے ہو، بابری مسجد ہو یا اس قسم کے دیگر ایشوز۔

اس حد تک تو بات درست ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے بصورت دیگر ہم بھی برصغیر کے دیگر مسلمانوں کی طرح متعصبانہ اور نفرت انگیز پالیسیوں کا شکار ہوتے۔ مثبت انداز میں دیکھاجائے تو پاکستان مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ ثابت ہوا ہے۔ پاکستان بننے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہم ہندو کے اقتصادی غلبے سے آزاد ہو کر مسلمانوں کو اقتصادی خوشحالی سے ہمکنار کریں لیکن گزشتہ 71 برس میں تو ایسا نہیں ہو سکا۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا گیا بلکہ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ اکثر اقتصادی اور سوشل اشاریوں میں ہم جنوبی ایشیا کے قریباً تمام ممالک سے پیچھے ہیں یہ بانیان پاکستان کا مطمع نظر نہیں تھا۔ قائد اعظم اقلیتوں کے حوالے سے بہتر سلوک روا رکھنے کا فرما کر گئے تھے بالخصوص ان کی 11 اگست 1947ء کی قانون ساز اسمبلی والی تقریر میں جس میں کہا تھاکہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں برابر کی شہری ہو نگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان کو سال 2019ء کی امریکی انتظامیہ کی اس فہرست میں شامل رکھا ہے جہاں مذہبی آزادیوں کا فقدان ہے جبکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس فہرست سے بھارت کو نکال دیا گیا۔ دفتر خا رجہ کے تر جمان نے احتجاج کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو غلط ٹارگٹ کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان میں مذہبی کے علاوہ یہاں سب شہریوں بشمول اقلیتوں کو آئین کے تحت دیگر آزادیاں حاصل ہیں۔ اس فہرست سے بھارت کو نکال دینا بھی امریکہ کے دوغلے پن اور منافقت کی انتہا ہے لیکن امریکہ کو برا بھلا کہنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ایسی صورتحال کیوں ہے؟ ۔ بدقسمتی سے ماضی میں بھی پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ ہر معاملے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم تو سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ہمیں بھارت، امریکہ اسرائیل اور مغرب مل کر نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

آرمی چیف نے جہاں قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دو قومی نظریے کی افادیت اجاگر کی وہاں قائد کی اس تقریر پر بھی غور کرنا چاہیے جو انھوں نے 14 جون 1948ء کو سٹاف کالج کوئٹہ میں کی۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ یہ بات مت بھولیں کہ افواج پاکستان عوام کے خادم ہیں۔ انہوں نے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قومی پالیسیاں نہیں بناتے یہ ہم سویلین ہیں جو ایسے معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں آپ کا فرض ہے کہ ایسے معاملات جو آپ کے سپرد کئے جائیں ان کی بجا آور ی لائیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran