پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بائیس ہزارسے تجاوز کر گئی ہے اور قریباً 505افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود واضح اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت لاک ڈائون کومزید نرم کرنے جا رہی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمرکاکہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں کورونا وائرس سے اموات میں اضافہ ہوا ہے جو اچھی خبر نہیں ہے۔ پچھلے چند روز میں روزانہ 24 اموات ہورہی ہیں اور ایک ماہ میں 720 افراد ہلاک ہوسکتے ہیں لیکن آبادی کے تناسب کے حساب سے پاکستان میں یہ شرح کم ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خطے کے مقابلے میں پاکستان میں ہلاکتیں کم ہیں اور اس سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے مطابق ٹریفک حادثات میں ماہانہ اوسطاً 4800 اموات ہوتی ہیں۔ بظاہر ان کے یہ ریما رکس بے حسی پر مبنی لگتے ہیں لیکن اگر وفاقی حکومت کے معاملات کو دیکھا جائے تو حکومت کو یقیناًیہ فکر ہے کہ نہ صرف ملکی اکانومی تباہ ہو رہی ہے بلکہ غریب آدمی کا بھی پٹڑاہو گیا ہے اور وہ فاقوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان تو کجا دنیا بھر میں کروڑوں انسان اس موذی مرض کے ہاتھوں نہ صرف اپنے ذرائع آمدن اوروزگار سے محروم ہو گئے ہیں بلکہ کورنٹین میں رہ رہ کر ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں نسبتاً کورونا وائرس نے اس طرح تباہی نہیں مچائی جیسا کہ امریکہ اور یورپ میں مچائی ہے۔ 17 مارچ کو امریکہ میں کورونا وائرس کے پانچ ہزار کیسز تھے اور نوے ہلاکتیں ہوئیں اوراب بارہ لاکھ سے زائد امریکی اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں اور قریباً 70 ہزار زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں متاثر ہونے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن اگرحکومت کے کسی کو تاہ اندیشانہ فیصلے کے نتیجے میں متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی تو اس کا کون ذمہ دار ہو گا؟ ۔
ویسے تو کورونا وائرس ایک انتہا ئی پراسرار بیماری ہے جو بعض ممالک، علاقوں اور عوام پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چین کے شہر ووہان جہاں سے اس بیماری کاآغاز ہوا کے ہمسائے تھائی لینڈ اور ویتنام اس سے بہت کم متاثر ہوئے۔ شمالی کوریا اپنے آمرانہ نظام کی بنا پر معلومات شیئر نہیں کرتا جبکہ جنوبی کوریا شروع میں بہت بری طرح اس سے متاثر ہوا لیکن انہوں نے قابو پالیا۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، سپین، جرمنی اور بیلجیم جس بری طرح متاثر ہوئے ہیں اس کی باقی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ برصغیر میں کورونا وائرس اس طرح مہلک ثابت نہیں ہوا، جیسا ان ممالک میں ہوا ہے۔ دیکھاجائے تو دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ماہرین کی عرق ریزی کے باوجود کسی کے پاس جواب نہیں ہے کہ کورونا وائرس کس طریقے سے حملہ آور ہوتا ہے اورابھی تک اس کی ویکسین تیار نہیں ہو سکی۔ کئی ڈرگ کمپنیاں انسانیت سے محبت کے بجائے منافع خوری کے لالچ میں دن رات اس تگ ودو میں ہیں کون پہلے ایسی ویکسین تیار کرتاہے جواس بیماری کا توڑ ثابت ہو۔ ظاہر ہے جو پہلے آئے گا خوب ڈالر کمائے گا۔ اگربہت جلدی بھی کی گئی تورواں برس ستمبر تک کسی ویکسین کا آجانا کرشمہ ہی ہوگا۔ اس غیریقینی صورتحال میں اس بیماری سے بچنے یا علاج کا فارمولہ نہیں نکلتا۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہی علاج ہے لیکن پاکستان میں حکومت نے کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے جو ٹامک ٹوئیاں ماری ہیں عصر حاضر میں اس کی بھی شاید ہی مثال ملتی ہو۔ وزیراعظم عمران خان نظریاتی طور پر لاک ڈائون کے خلاف ہیں، وہ اپنی اس رائے کا اکثر کھل کر اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کہہ کر کہ میں لاک ڈائون کو نہیں ما نتا، طوہاً وکر ہاً لاک ڈائون میں توسیع کرتے رہتے ہیں۔ اسی بنا پر پاکستانی قوم جو پہلے ہی کسی ڈسپلن کی پابند نہیں رہتی کنفیوژن کاشکار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عوام نے احتیاطی تدابیر اور کورونالاک ڈائون کو مذاق بنا لیا ہے، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں شٹر گرا کر کا روبار ہو رہا ہے، ایس اوپیز کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور عوام کا ٹولیوں کی صورت میں پھرنا معمول بن گیا ہے، رات کو کرکٹ، لڈو اور دیگر گیمز ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر فرقان الحق جو اتوار کو کراچی میں کورونا کے باعث جاں بحق ہو گئے، انہیں ایس آئی یو ٹی، انڈس ہسپتال میں وینٹی لیٹر تو کجا داخلہ تک نہ ملا اور وہ بے بسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی اہلیہ انہیں ایمبولینس میں ہی لیکر ہسپتالوں کے چکر لگاتی رہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق "ڈاکٹر فرقان الحق کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ میرے خاوند نے میری گود میں دم توڑا، میں ا ن کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکی، میں لوگوں کو مدد کے لیے کہتی رہی لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی، وہ بے ہوش ہو گئے تھے، میں نے خود انھیں سٹریچر پر ڈالا اور ہسپتال لے گئی لیکن انھوں نے میرے شوہر کو داخل نہیں کیا۔ ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ نے بتایا جب کسی بھی ہسپتال نے داخل کرنے سے انکار کر دیا تو میرے شوہر نے کہا کہ یہ لوگ مجھے نچا رہے ہیں تم مجھے گھر لے چلو۔ گھر پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی ڈاکٹر فرقان الحق کی موت واقع ہو گئی۔"سوشل میڈیا پر موجود ایک ٹیلی فون کال کی آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق اتوار کو اپنی موت سے کچھ دیر پہلے تک ڈاکٹر فرقان الحق مختلف ہسپتالوں میں اپنے لیے وینٹی لیٹر تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا کے شکار ایک ڈاکٹر پر ایسے حالات آئے، عام پاکستانی پر کیا بیتتی ہو گی۔
معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے روزانہ بیس ہزار ٹیسٹ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ابھی تک اس کے نصف ٹیسٹ بھی نہیں ہو پائے جبکہ این ڈی ایم اے نے پچاس ہزار ٹیسٹ کا دعویٰ کیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کا کہنا درست ہے کہ جتنے لوگ کورونا سے مرے ہیں اتنے تو ٹریفک حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ موذی وبا آگ کی طر ح پھیلی تو ہسپتالوں میں مناسب طبی سہولتیں نہ ہونے اور نسبتاً گنجائش کم ہونے کی بنا پر مسئلہ سنگین ہو جائے گا۔ حال ہی میں لاہور کے ایکسپو سنٹر میں بنائے گئے کورنٹین میں رکھے گئے مریض وہاں مناسب سہولتیں نہ ہونے کی بنا پر سراپا احتجاج بن کر باہر نکل آئے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے، اس پر سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی بھی خاموش نہ رہ سکے اورانہوں نے صوبائی حکومت کی حکمت عملی پر کڑی تنقید کی۔
امریکہ سمیت بہت سے ملکوں میں ہلاکتیں زیادہ ہونے کے باوجود نئے متاثرین کی تعداد کم ہونے پر لاک ڈائون کو نرم کرکے کاروبار اور روز مرہ کی زندگی کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے حکمران ایسے موقع پرلاک ڈائون ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جب پاکستان میں متاثرین کا گراف بڑھ رہا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ معاشی بندشیں کورونا سے زیادہ مہلک ہیں، دس لاکھ ادارے بند اور ایک کروڑ اسی لاکھ افراد بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے اور 2سے 7کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے جانے کی فکرہے۔ یہ بھی درست ہے کہ نجی اداروں کے علاوہ قومی آمدنی میں بھی کمی ہوئی ہے اور جب بھی کورونا وائرس سے نجات ملی جس کا جلد امکان نظر نہیں آرہا، اکانومی کو بحال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ اسی بنا پر حکومت کوپھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں اس موذی مرض کا فٹ پرنٹ کم ہے، کاش ایسا ہی ہو لیکن ابھی تک حتمی طور پر کچھ نہیں کہاجا سکتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شدید گرمی میں یہ وائرس کمزور ہو جاتا ہے لیکن آسٹریلیا جہاں کورونا کے شروع ہونے پر شدید گرمی کا موسم تھا ایسا نہیں ہوا۔