وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری خود کو میڈیا میں زندہ رکھنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ وزارت اطلاعات بالخصوص موجودہ حکومت جو میڈیا پر اپنا میسج بطریق احسن پہنچانے کے لئے ضرورت سے زیادہ ہی کوشاں رہتی ہے، کے وزیر اطلاعات جوحکومت کے چیف ترجمان ہوتے ہیں، کی میڈیا پر ٹاک شوز میں حاضر باشی ہمہ وقت رہتی ہے۔ خیال تھا کہ فواد چودھری سے وزارت اطلاعات کا قلمدان لے کر انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کا سونپ دیاگیا ہے لہٰذا وہ کھڈے لائن لگ کر منظر عام سے ہٹ جائیں گے لیکن انہوں نے اس وزارت کے ذریعے رویت ہلال کے معاملے پر علما سے پھڈا ڈال لیا نیز خود کو اپنی وزارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر روز شام کو ملکی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں اور اکثر کوئی نہ کوئی ایسی بات کر جاتے ہیں جو اخبارات کی شہ سرخی بن جاتی ہے۔ فواد چودھری کا تعلق جہلم کے ایک مسلم لیگی خاندان سے ہے اور اس لحاظ سے ایک گھاک وکیل ہونے کے علاوہ سیاست کے مدوجزر کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ان کے ناقدین ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی میں رہے اور ن لیگ سے بھی" فلرٹ" کرتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ فواد چودھری نے وائس آف امریکہ کو جو انٹرویو دیا ہے وہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مترادف ہے۔ انہوں نے وہ باتیں برملا کہہ دیں جو اکثر سیاسی مبصرین بالخصوص تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے لیے تو نئی نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر وزیراعظم کے سابق معتمد ساتھی جہانگیرترین کے شاہ محمود قریشی سے اختلافات کسے معلوم نہیں تھے۔ قریشی صاحب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیت ہیں، وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے مراجعت کر کے تحریک انصاف میں آئے تھے۔ 2002ء میں بینظیر بھٹو نے انہیں پیپلزپارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا لیکن صوبائی نشست پر وہ نسبتاً ایک غیر معروف امیدوار سے شکست کھا گئے، وہ نجی طور پرجہانگیر ترین کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کیونکہ" نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری" یعنی وہ رکن پنجاب اسمبلی ہی نہیں بنیں گے تو وزیراعلیٰ کیسے بن پائیں گے۔
اسی طرح فواد چودھری نے بتایا کہ پہلے جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے نکلوایا اور پھر اسد عمر نے دوبارہ وزیر بننے پر جہانگیر ترین کی چھٹی کروا دی۔ یقینا جہانگیرترین ان لوگوں میں شامل تھے جو پی ٹی آئی کی حکومت کے شروع میں ہی سمجھتے تھے کہ فوری طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا چاہیے جب کہ اسد عمر اس کے مخالف تھے، یہی مسئلہ وزارت خزانہ سے ان کی فراغت کا باعث بنا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانے والے دبئی کے متنازعہ بہت بڑے پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ کے سربراہ، ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی تھے جو آج کل لندن میں ہاؤس اِن اریسٹ ہیں، عارف نقوی وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں اور انہوں نے پی ٹی آئی کی فنڈ ریزنگ میں خاصی مدد کی، یہ رابطہ کروانے میں ترین صاحب کا کلیدی رول ہے جو عارف نقوی سے بخوبی واقف تھے۔ حفیظ شیخ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کے بعد مشیر خزانہ بن گئے۔ اس کےبعد ظاہر ہے کہ اسد عمر، جہانگیر ترین کے ویری ہوگئے اور یقینا انہوں نے جہانگیر ترین کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا ہوگا، تاہم یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ محض اسد عمر ان کے انخلا کا باعث بنے، اس کی کچھ کہی اور ان کہی وجوہات بھی ہیں۔ خود جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ ان کے انخلا میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا کردار ہے لیکن اس کے علاوہ ان کے وزیراعظم سے کچھ ذاتی اختلافات بھی پیدا ہو گئے تھے۔
منگل کو کابینہ کے اجلاس میں فواد چودھری کے انٹرویو پر جو واویلا ہوا اس سے ان کی انٹرویو میں کہی گئی باتیں درست ثابت ہوگئیں۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا تو سخت برہم تھے اور وہ یہ تک کہہ گئے کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ فواد چودھری کے انٹرویو کا معاملہ اسد عمر نے ہی کابینہ کے اجلاس میں اٹھایا لیکن اس پر فیصل واوڈا آپے سے باہر ہو گئے حتیٰ کہ وزیراعظم کو انہیں ٹھنڈا کرنا پڑا۔ فیصل واوڈا کے دیکھا دیکھی پی ٹی آئی کے دو ارکان قومی اسمبلی راجہ ریاض اور خواجہ شیراز محمود ٹی وی پروگرام میں پھٹ پڑے اور انہوں نے اپنی پارٹی کو دھو ڈالا۔ راجہ ریاض نے کہا تحریک انصاف زوال اور تباہی کا شکار ہو چکی ہے، عوام آئندہ انتخابات میں بہت برا سلوک کریں گے، تمام معاملات اور اختیارات پر بیورو کریسی حاوی ہو چکی ہے، بیوروکریسی ہمیں دفاتر میں گھاس تک نہیں ڈالتی، بیوروکریسی نے سازش کے تحت عمران خان اورجہانگیرترین کے درمیان پھوٹ ڈالی، وزیراعظم عمران خان کے ارد گرد مفاد پرستوں اور لٹیروں کا گروہ جلد بریف کیس اٹھا کر بیرون ملک فرارہو جائے گا، وفاقی وزرا ہوا میں اڑ رہے ہیں جب زمین پر آئیں گے تو عوام کی محبت کا پتا چل جائے گا، کرپشن کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرنیوالی جماعت کے حکومت میں آنے سے قبل جو کام دس ہزار روپے میں ہوتا تھا اب 30ہزار روپے میں ہوتا ہے، کرپشن تین گنا بڑھ چکی ہے۔ 92 نیوز کے پروگرام "ہوکیا رہا ہے" میں گفتگو کرتے ہوئے راجہ ریاض نے کہا وزیراعظم عمران خان سیاستدانوں کو مافیا سمجھتے ہیں، تحریک انصاف میں 20 سے 22 لوگوں کا فارورڈ بلاک ہے، ہم جیسوں کو بھی عمران خان اچھے سے ڈیل نہیں کرتے، دو ہی آپشنز ہیں یا عمران خان کو ووٹ دوں یا پارٹی چھوڑ دوں، استعفیٰ دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔ خواجہ شیراز محمود نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا پی ٹی آئی کو موقع ملا ہے تو ڈلیور کرنا چاہئے، ہمیں لگتا ہے ہم بالکل الگ تھلگ ہیں، ہمارے وزیراعظم ایوان میں نہیں آتے شکوہ کریں تو کس سے کریں، آج بھی لوگ تھانوں میں مارے جاتے ہیں، اسی طرح تشدد ہوتا ہے، انکے حلقے میں ضلع کونسل کا ایک رکن بھی غریبوں کے لیے رکھے احساس پروگرام سے 12 ہزار روپے لے اڑا، انکی شکایت کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا قومی اسمبلی کی کارروائی وزیر پارلیمانی امور کے بجائے غیر منتخب مشیر بابر اعوان چلا رہے ہیں جو کہ منتخب لوگوں کی توہین ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے خوب سرپٹول کی۔ راجن پور سے تعلق رکھنے والے سردار ریاض مزاری نے اور باتوں کے علاوہ برملا طور پر کہا کہ ہم بہت پرامید تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی لے کر آئے گی لیکن اب صرف مایوسی پھیلی ہوئی ہے، جنوبی پنجاب کیلئے وعدوں کو ایفا نہیں کیا گیا اور بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، نوجوانوں کو نوکریاں مل رہی ہیں اور نہ ہی ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، تحریک انصاف کا مشن کرپشن ختم کرنا ہے لیکن یہاں تو نوکریاں فروخت ہو رہی ہیں، ہمارے علاقے میں امن وامان کی صورت حال سنگین ہو چکی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو امن وامان کی صورت حال سے آگاہ کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں، پنجاب کے 5 آئی جی تبدیل ہوگئے لیکن امن نہیں آیا۔ وہ یہاں تک کہہ گئے کہ پولیس کی من مانیوں اور چوروں ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کی بنا پر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم مقبوضہ کشمیر پر آواز اٹھا رہے ہیں جبکہ علاقے کی صورتحال کشمیر سے بھی بدتر ہے، لوگوں کی عزت، جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی کے مالاکنڈ سے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فواد چودھری کا انٹرویو اپنی ہی حکومت کیلئے وارننگ ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ آپس کی لڑائی کی بنا پر نااہل لوگوں نے سیاسی خلا کو پر کر لیا ہے۔ چودھری صاحب بجا طور پر اس بات پر شاکی ہیں کہ غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کی کابینہمیں کثیر تعداد پارلیمانی نظام کی روح کے خلاف ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے کیونکہ غیر منتخب افراد پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں بلکہ صرف اپنے باس کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث ہو رہی ہے اور وزیر خزانہ پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح پٹرول کی قلت کا بحران ابھی حل نہیں ہوا لیکن جب اس معاملے میں پارلیمنٹ میں سوال اٹھتا ہے تو معاون خصوصی ندیم بابر اور عمر ایوب جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں اکثر عنقا رہتے ہیں۔
فواد چودھری کے انٹرویو پر وزیراعظم کے بعض قریبی ساتھیوں اور ترجمانوں کا دلچسپ ردعمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب عمران خان کے طفیل منتخب ہو کر آئے ہیں لہٰذا جنہیں ان کی حکومت پسند نہیں انہیں استعفیٰ دیکر گھر چلے جانا چاہئے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کی کوششوں سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کی ملاقات ہوئی جس میں دونوں وزرا نے گلے شکوے ختم کئے اور صلح کر لی ہے۔ وزیراعظم نے بجا طور پر پارٹی کے سینئر ارکان کو ہدایت کی ہے کہ پارٹی میں اختلافات کا بھانڈا بیچ چوراہے نہ پھوڑیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے طرز حکمرانی میں کچھ تبدیلیاں لانی چاہئیں، کابینہ اور کور کمیٹی میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا چاہئے اور خوشامد، مبارک سلامت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ وزیراعظم جمعرات کو قومی اسمبلی میں 75 منٹ کے طویل خطاب کیلئے اچانک ایوان میں پہنچ گئے، انہیں اپنی بات کرنے کے علاوہ اپنی پارٹی اور اپوزیشن کے ارکان کی باتیں بھی سننی چاہئے تھیں۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات نئی بات نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹوکے دور حکومت میں مولانا کوثر نیازی اور شیخ رشید اینڈ کمپنی کے اختلافات سامنے آئے تھے، اسی طرح نوازشریف کی پارٹی میں خواجہ آصف اور چودھری نثار کی کٹی رہنے کا حال کسے معلوم نہیں لیکن یہ اختلافات حد سے بڑھ جائیں تو پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔