اس وقت پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کورونا وائرس کی وبا آگ کی طرح پھیل رہی ہے، اموات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے لیکن مودی سرکار اپنے ہمسایوں پر روایتی غلبہ حاصل کرنے کی بھارتی پالیسی پر انتہائی متشدد طریقے سے عمل پیرا ہے۔ 1976ء سے لے کر اب تک چین کے ساتھ ہونے والے تنازعات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر گولی نہیں چلی۔ لیکن اب اطلاعات کے مطابق بھارت اور چین کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آ چکی ہیں اور پچھلے مہینے بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین دست بدست لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف کے فوجی زخمی بھی ہوئے، پیر اور منگل کی درمیانی رات گالوان وادی میں حقیقی کنٹرول لائن پر جھڑپ کے دوران ایک بھارتی فوج کا کرنل اور 2 سپاہی مارے گئے۔ چین اور بھارت کی متنازعہ سرحد پر کسی جھڑپ میں ہلاکت کا 45 برس میں یہ پہلا واقعہ ہے۔ دوسری جانب چین نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا بھارت نے سرحد پار کر کے چینی اہلکاروں پر حملہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤلیجیان نے کہا کہ بھارتی فوجی دستوں نے دو مرتبہ سرحد پار کی، اشتعال انگیزی کی اور چینی اہلکاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں فریقین کی سرحدی افواج کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔
بھارت نے متنازعہ علاقے اکسائی چن کی وادی گالوان کے قریب سرنگوں کا جال بچھانے کی کوشش کی جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ چین کے خلاف فوجی ٹکراؤ کی صورت میں بھارت کو برتری حاصل ہو لیکن چین کیونکر بھارت کو ایسا کرنے دے گا، اس نے فوراً ایسے علاقے پر جس پر بھارت اپنا قبضہ سمجھتا ہے پیش قدمی کر دی اب بھارت کے لیے سوائے منہ کی کھانے کے کوئی چارہ نہیں کیونکہ چین کے ساتھ جنگ بھی اسے وارا نہیں کھاتی اور مذاکرات کی صورت میں بھی وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ چینی صدر ژی پنگ چین کی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاتے اور اس بار قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر اپنی فوجیں بھی واپس نہیں بلائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور روس نے بلاواسطہ طور پر بھارت کی حمایت کرتے ہوئے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق اصل مسئلہ یہی ہے کہ انتہا پسند نریندر مودی کو پاکستان دشمن عناصر نے گھیرا ہوا ہے۔ بالخصوص بھارتی تجزیہ کار بہادر کمار کا یہی کہنا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سمیت انتہا پسند مشیر امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں اور اس کے پٹھو بن کر چین سے مخاصمت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک اور سابق وزیر مملکت خارجہ، بھارتی سفارت کار، تجزیہ کار اور سیاستدان سشی تھرو کا کہنا ہے کہ بھارت کو صدر ژی پنگ کی تخلیق" چین پاکستان اقتصا دی راہداری "جو بھارت کے مطابق کشمیر کے متنازعہ علاقے سے گزرتی ہے کی سخت تکلیف ہے لیکن چین نے بھارت کے خلاف سخت موقف اختیار کرکے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیوں سے مرعوب نہیں ہو گا۔ چین کی بھرپور دفاعی اور سفارتی حمایت کی بنا پر بھارت کا یہ خواب کہ کسی طریقے سے پاکستان کو دنیا میں یک وتنہا کیا جائے کا میابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہا۔ دہشت گردی اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے دنیا بھر میں بھارتی سفارتکار پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ کی وزارت خارجہ کی حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ایلس ویلز نے سی پیک، اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کے خلاف طوفان کھڑا کر رکھا تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ راج ناتھ سنگھ نے ایک انوکھی تاویل دی ہے کہ آزاد کشمیر جسے وہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کہنے پر اصرار کرتا ہے کے عوام پاکستان سے الگ ہوکر بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں یعنی اس طرح بھارتی پارلیمنٹ کی قرارداد کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کی تکمیل ہو جائے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی وزیر خارجہ کے آزاد جموں کشمیر کے معاملے میں ریمارکس کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر کے اندر برپا تحریک آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی وزیر دفاع کے من گھڑت بیان کا دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری بھارتی سرکار سے متنفر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر دفاع مظفر آباد آ کر دیکھ لیں کتنے کشمیری ان کے ساتھ ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، بھارتی حکمران وزیراعظم عمران خان یا مجھے بھی سرینگر آنے کی دعوت دیں۔ اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے بھارتی وزیر دفاع کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاری کردہ بیان پاکستان مخالف جنون کی عکاسی کرتا ہے۔
اس کے باوجود کہ کووڈ 19کی بنا پر بھارت کی اندرونی صورتحال خاصی خراب ہے تواتر سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر کے نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھارت کی غلبہ پانے اور تسلط کی جارحانہ کوششیں صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ نیپال جو ایک ہندو ریاست ہے اور لینڈ لاک ہونے کی بنا پر اقتصادی طور پر بھارت پر انحصار کرتا ہے بھی تسلسل کے ساتھ بھارت کی غنڈہ گردی کا شکار رہتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کو نیپال کا ایوان نمائندگان طوہاً و کرہاً اپنا قومی نشان اور سیاسی نقشہ بدلنے پر مجبور ہو گیا جس کے تحت لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمیا دھورا جیسے سٹرٹیجک علاقے جن پر بھارت نے تنازعہ کھڑا کر رکھا ہے اور انہیں اپنے علاقےتصور کرتا ہے کو نئے نقشے میں شامل کر لیا۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ تنازع بھی اس وقت کھڑا ہوا جب بھارت نے اترکھنڈ صوبے میں ایک جدید اسی کلومیٹر سٹرک تعمیر کر لی جو متنازعہ لیپو لیکھ تک جاتی ہے۔ اس جارحانہ اقدام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیپال کے ایوان نمائندگان نے نقشہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ترمیم کو صدر کی منظوری کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ تین سو کلومیٹر پر محیط یہ وہ علاقہ ہے جہاں نیپال اور بھارت کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت اس معاملے پر پہلے نیپال سے مذاکرات کی حامی بھر چکا تھا لیکن وہ مذاکرات کی کوئی تاریخ طے کرنے پر تیار ہی نہیں تھا۔
بہت سال پہلے جب بھارت نے نیپال کی سرحد کا لاک ڈاؤن کر رکھا تھا، پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر جے این ڈکشٹ سے میں نے اس حوالے سے پوچھا تو انھوں نے دنیا کے اس وقت کے طویل القامت پاکستانی شخص عالم چنا کا حوالہ دیا اور کہا بھارت عالم چنا ہے اور اس کے مقابلے میں نیپال بونا ہے۔"عالم چنا" اپنا قد کاٹ کر نیپال کے برابر تو نہیں ہو سکتا لہٰذا نیپال کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے بھارتی غلبے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ تاریخی طور پر بھارت چانکیہ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام ہمسایوں کو بھوٹان اور سکم کی طرح محصور کرنا چاہتا ہے۔ یہ اس کی سپر پاور بننے کے خوابوں کی عملی تعبیر کی پیش قدمی کا حصہ ہے۔ سری لنکا کے علاوہ بنگلہ دیش بھی جس کے قیام میں بھارت نے دامے درمے سخنے مدد کی، بھا رت کی اس میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو کی پالیسی سے خائف رہتے ہیں لیکن جب سے انتہا پسند نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے اس طرزعمل میں خاصی شدت آ گئی ہے۔ گویا کہ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کا واقعہ محض ایک ٹریلر تھا اس کے شرپسندانہ عزائم عملی پالیسی کی صورت میں آشکار ہو رہے ہیں، اس لحاظ سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کہ بھارت کو آزاد کشمیر کے بجائے اپنے اندرونی معاملات کی فکر کرنی چاہیے خوش آئند ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ یقینا ہماری افواج بھارتی عزائم سے پوری طرح آگاہ ہیں لیکن ہماری سیاسی حکومت کو افواج کو اندرونی معاملات میں الجھانے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی گورننس بہتر بنائے تاکہ ہماری افواج اپنے اصل کام کی طرف مزید توجہ دے۔
قریشی صاحب کا کام بھی محض بیان دے دینا ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے دوستوں نے ہماری مالی مدد تو کی ہے لیکن ان میں سے اکثر ممالک بھارت پر ریشہ ختمی ہیں۔ ہمیں اپنی سفارتی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے بھرپور سعی کرنا ہو گی۔ یہ بات ہمیں ازبر ہو جانی چاہیے کہ امریکی صدر ٹرمپ چکنی چوپڑی باتیں کرنے کے باوجود پاکستان کے مقابلے میں ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیں گے۔ اس طرح بھارت اور روس کے تعلقات شاید پہلے کی طرح نہ ہوں لیکن اب بھی گہرے ہیں، چین کو نیچا دکھانے کے حوالے سے ان دونوں طاقتوں کے سٹرٹیجک مفادات بھارت کے ساتھ ملتے ہیں پاکستان کے ساتھ نہیں۔