نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا مسلم اور پاکستان دشمن ایجنڈا پہلے ہی واضح تھا لیکن اب پوری دنیا پریہ آشکار ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی کی ماں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا فاشزم بھارتی قانون اورآئین کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ 5۔ اگست کو جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیا گیا تھا تو پاکستان میں خاصی ہاہاکار مچی تھی۔ دنیا بھر میں اس اقدام کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن پھر بھی مغرب میں مودی کو اپنا یار ہی تصور کیاجاتا رہا۔ 4 ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر اب بھی لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے اور معاملات بھارتی حکمرانوں کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود معمول پر نہیں آ پارہے۔ کشمیر کی آزادی کی داعی حریت کانفرنس کے رہنما تو روز اول سے ہی بھارت کی مرکزی حکومت کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں لیکن جب سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اقدام کیا گیا فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز کشمیری بھی پابند سلاسل ہیں، اب بھارت کا تازہ اقدام جس کے ذریعے لوک سبھا میں شہریت کا قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور آسام کے مسلمانوں کو بھارتی شہریت نہیں مل سکے گی۔ اس قانون کے تحت مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ آسام سے آئے ہوئے ہندو تو بھارتی شہریت کے اہل ہوں گے لیکن مسلمان نہیں۔ یہ امتیازی سلوک نہ صرف کھلم کھلا تضاد ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔
بھارت کے معروف دانشور سدھیندرا کلکرنی جو اٹل بہاری واجپائی کے معتمد خصوصی بھی رہے ہیں، نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پیش گوئی کی ہے کہ21 صدی کی دوسری دہائی کو تاریخ میں اس حوالے سے یاد رکھا جائے گا کہ اس میں باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دانستہ طور پر نریندر مودی کی حکومت کی سرتوڑ کوششوں کے نتیجے میں "ہندو ری پبلک آف انڈیا "کا وجود عمل میں آیا۔ اس ضمن میں بھارت کی حکمران جماعت کے ہارڈ لائنروزیر داخلہ امیت شاہ پیش پیش ہیں، وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اگر پاکستان، افغانستان اسلامی ملک کہلا سکتے ہیں اور بنگلہ دیش کا ریاستی مذہب اسلام ہو سکتا ہے تو بھارت ہندوؤں کی اکثریت ہونے کے ناتے ہندو ری پبلک کیوں نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس پر تو بھارتی سیکولرازم کا ڈھکوسلہ روز اول سے ہی واضح تھا۔ مختلف کانگریسی حکومتوں کے ادوار میں بھی بھارتی مسلمان ہندوؤں کے تعصب کا شکار رہے ہیں، انہی ادوار میں کئی مرتبہ ہندو مسلم فسادات بھی ہوئے، تاہم آئینی طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو برابر کے شہری ہی تصور کیا جاتا تھا۔ بھارت میں مسلمان صدر سمیت اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔ بھارت کے ایٹم بم کے بانی عبدالکلام بھی مسلمان تھے۔ اس حوالے سے مختلف حکومتیں اپنا یہ سودا بیچتی رہی ہیں کہ بھارت پاکستان کے برعکس ایک سیکولر روشن خیال، جمہوری اور آزاد ملک ہے۔ یہ پراپیگنڈا بھی کیا گیا کہ پاکستان میں نام نہاد اسلامی دہشتگردی کا راج ہے، فوجی آمریتوں کا دور دورہ رہتا ہے، وہاں اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، میڈیا پابند ہے، اسی پراپیگنڈے کی آڑ میں عام مسلمان شہریوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا رہااور امتیازی سلوک کے باعث انہیں شاذ ہی ترقی کے مساوی مواقع میسر آئے۔
کلکرنی کے مطابق 1952ء سے لے کر 1975-77ء والی ایمرجنسی چھوڑ کر حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن بھارتی معاشرہ تبدیل نہیں ہوالیکن حالیہ دو عام انتخابات کے نتیجے میں مودی سرکار ہندو اکثریت کی بنا پر بھارت کا نقشہ ہی بدلنے کے درپے ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے اور یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہی ہو رہا ہے۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے کسی ایک مسلمان کو اپنی پارٹی کا امیدوار نہیں بنایا۔ یہ بھی اس کے مسلم دشمن متعصبانہ رویے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ گائے ذبح کرنے پر کئی مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا لیکن اس سب کے باوجود ہمارے حکمران اس بات کا ادراک کرنے میں کہ مودی واجپائی سمیت اپنے پیشرو حکمرانوں سے قدرے مختلف اور باقاعدہ پاکستان اور مسلمان دشمن ہیں، ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو مئی 2014 ء میں بغیر سوچے سمجھے مودی کی تقریب حلف برداری میں جا پہنچے۔ ان کا خیال تھا کہ جہاں کارگل کی بنا پر اعلان لاہور، کی روشنی میں بہتر تعلقات کا سرا ٹوٹا تھا اب وہ مودی کیساتھ مل کر اسے دوبارہ جوڑلیں گے لیکن بھارت کے اس انتہا پسند وزیر اعظم نے آداب مہمان نوازی کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے حلف برداری کی تقریب کے بعد میاں نواز شریف سے ملاقات میں انہیں کھری کھری سنا دیں لیکن میاں صاحب پھر بھی باز نہ آئے اور 25 دسمبر 2015ء کو اپنی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے کابل سے دہلی جاتے ہوئے نریندر مودی کولاہور بلا لیا۔
یہ عمل اس لحاظ سے محل نظر تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں ہے کہ اس کو ذاتی جپھیاں ڈال کر حل کر لیا جائے۔ میاں صاحب کے اس رویے کی بنا پر فوج میں ان کی مخالفت بڑھ گئی اور عوام میں بھی اس نعرے کو تقویت ملی کہ مودی جس کا یار ہے وہ غدار ہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی نریندر مودی سے اسی طرح کی امیدیں تھیں۔ ان کا فرمانا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران مودی اور ان کے انتہا پسند ساتھی پاکستان کے خلاف بکواس تو کر رہے ہیں انتخابات کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گالیکن خان صاحب کی امید موہوم ثابت ہوئی۔ مقام شکر ہے کہ مودی نے دوسری بار وزیر اعظم بننے پر خان صاحب کو تقریب حلف برداری میں مدعو ہی نہیں کیا ورنہ خان صاحب بھی پرسنل ڈپلومیسی کرنے کی خاطر نئی دہلی پہنچ جاتے۔ اب جو صورتحال بنتی جا رہی ہے اس میں تو کوئی حکمران سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ مودی کیساتھ جپھیاں ڈالے۔ امسال 26 فروری کو بھارتی ائیر فورس نے بالاکوٹ کے قریب پہلی بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور اس کے بعد کی صورتحال نے واضح کر دیا کہ پاکستان کے بارے میں اس کے عزائم انتہائی خطرناک ہیں۔ بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جن کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں اور انہیں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ بھارت ہندوؤں کا ہے اور وہاں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ بھارت کے بعض بظاہر روشن خیال صحافیوں جن میں برکھادت پیش پیش ہیں کا کہنا ہے کہ بھارت نے جناح کے دو قومی نظریے کو اپنا لیا ہے اور بھارت بھی ایک تھیوکریسی بن گئی ہے۔ ایسے تجزیہ کاروں کی اس قسم کی باتوں کا اصل مقصد بانی پاکستان اور پاکستان کو رگیدنا ہے۔
پاکستان پاپائیت نہیں تھی اور نہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وطن عزیز میں قائداعظمؒ کی قانون ساز اسمبلی میں 11 اگست1947ء کی تقریر کی روشنی میں پالیسیاں بنائی گئیں اور نہ ہی آئین۔ یہاں بھی اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جو اسلام کے مطابق کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی روشن خیال اسلامی جمہوری شناخت کو ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں نے خاصا نقصان پہنچایا۔ اب خان صاحب وطن عزیز کو مدینہ کی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں اقلیتوں کے ساتھ مثالی سلوک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ مزید برآں یہاں پارلیمنٹ کے سوا کسی بھی لابی کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے اگر خان صاحب یہ کر گزرے تو یہی مودی کی متعصبانہ تنگ نظری پر مبنی پالیسیوں کا بھرپورجواب ہو گا۔