Bilakhir Bailout Package?
Arif Nizami92 News872
بالآخر پاکستان کو اقتصادی گرداب سے نکالنے کیلئے آئی ایم ایف کے مجوزہ تین سالہ بیل آؤٹ پیکیج پر اسلام آباد میں باقاعدہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں، عالمی مالیاتی ادارے کا سٹاف مشن پاکستانی اقتصادیات کی گھمبیر صورتحال کے حوالے سے مختلف اصلاحات پر بات چیت کرے گا۔ مذاکرات سے قبل اسی ماہ آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کی اکانومی کی تشویشناک صورتحال رکھی گئی جس کے مطابق بجٹ کا خسارہ رواں مالی سال میں تقریباً8 فیصد ہو گا اور جی ڈی پی کے حوالے سے قرضوں کا تناسب آئندہ پانچ برس میں 86 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے وزرات خزانہ کے عہدیداروں نے میڈیم ٹرم اکنامک فریم ورک (MTEF) تیار کیا ہے جس کے مطابق محصولات میں اگلے تین برس میں شرح نمو کے6.2 تک اضافہ کیا جائے گا۔ اسی دوران وفاق 1.08کھرب کے نئے ٹیکس لگائے گا۔ پہلے سال میں یہ ٹیکس 1.1 فیصد ہونگے۔ صوبائی ٹیکسوں میں بھی گوناں گوں اضافہ کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان کو تاریخی طور پر تین قسم کے خساروں کا سامنا ہے، بجٹ کا خسارہ، درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ نہ ہونے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بچت اور اخراجات میں تفاوت سے ہونے والا خسارہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سابق وزیر خزانہ اسد عمر واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے اہلکاروں سے ان معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے مذاکرات کر رہے تھے، اسلام آباد میں ان کے باس وزیر اعظم عمران خان ان کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کر چکے تھے۔ میڈیا میں اس قسم کی خبریں لگوائی گئیں جن کے مطابق اسد عمر اپنے تئیں بہت مطمئن اور شاد ہیں کہ وہ 8 سے 9 ارب ڈالر کے پیکیج پر کامیابی سے بات چیت کر رہے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کو عنقریب ان کے منصب سے برطرف کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اسد عمر نے متبادل وزارت توانائی قبول نہیں کی لیکن وہ اپنے انجام پر سخت نالاں ہیں۔ اس کا بین ثبوت میڈیا کے ایک حصے میں بلاواسطہ طور پر ان کے حق میں لگوائے جانے والے تجزیے ہیں۔ ایک موقر روزنامے کے مطابق اسد عمر کو ان کی کارکردگی کی بنا پر فارغ نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پیچھے کچھ سیاسی وجوہات ہیں۔ اس تجزیے کے مطابق شوگر لابی، بینکنگ لابی اور پراپرٹی مافیا نے انہیں فارغ کرایا ہے۔ اس ضمن میں کسی کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن باخبر لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کہ اشارہ کس جانب ہے۔ اس حد تک تو بات درست ہے کہ عمران خان وزیر اعظم ہیں اوراس لحاظ سے ان کے ہر فیصلے کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں اور اسد عمر ان کیلئے ایک بوجھ بن گئے تھے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کافی عرصے سے اسد عمر پر زور دے رہے تھے کہ وہ اپنی ٹیم بنائیں اور ٹیم ورک کے ذریعے کام کریں لیکن اسد عمر مصر تھے کہ وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ اسد عمر کی معاونت کیلئے ایک اقتصادی مشاورتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں نوید حامد، اعجاز نبی، راشد امجد اور ملک کے کئی دیگر چیدہ چیدہ اقتصادی ماہرین شامل تھے۔ غالباً اس نو رکنی کمیٹی میں بزنس، انڈسٹری اور بینکنگ سے تعلق رکھنے والے افراد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھے لیکن وزیر خزانہ ان سے مشاورت کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور یہ لوگ آپس میں ایک وٹس ایپ گروپ پر ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے تھے۔ یہ وہی کمیٹی ہے جس میں امریکہ میں مقیم معروف اور مقتدرماہر اقتصادیات عاطف میاں بھی شامل تھے جنہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا کہ ان کا تعلق احمدیوں سے ہے۔ اسی بنا پر امریکہ میں مقیم اس کمیٹی کے مزید دو ارکان عاصم اعجاز خواجہ اور عمران رسول نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ عاطف میاں نے اپنے حالیہ تجزیہ میں ایک دلچسپ بات کی ہے کہ کرپشن بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا ناسور نا اہلی ہے۔ عمران خان کو عاطف میاں جیسے لوگوں کی باتوں پر بھی کان دھرنا چاہئے کیونکہ کرپشن کے خلاف جہاد سرآنکھوں پر لیکن گزشتہ نو ماہ میں نالائقی اور نااہلی کی بھی حدیں پار ہو گئی ہیں جس کے سرخیل اسد عمر ہیں۔ اسد عمر کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ حکومت کے ابتدائی مہینوں آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے حوالے سے گومگو کا شکار رہے حالانکہ دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان گزشتہ تیس برسوں میں سے بائیس برس آئی ایم ایف کے"زیر کفالت" رہا ہے۔۔ پہلے اپنے باس کو کہتے تھے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے بہت رقم آ رہی ہے بعد ازاں انہوں نے بیان دیا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جائیں گے۔ اس کے بعد پھر کہا کہ کوئی ضرورت نہیں۔ بالآخر وزیر اعظم جو ملکی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے خاصے پریشان تھے نے کہا کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کریں تو وہ مان گئے۔ گویا کہ ہمارے وزیر خزانہ کو ادراک ہی نہیں تھا کہ اقتصادی صورتحال کتنی پتلی ہے اور آئی ایم ایف کے پاس پاکستان پہلے بھی کئی مرتبہ جا چکا ہے۔ اب بھی جانے کے سوا چارہ کار نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد ورلڈ بینک کے علاوہ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہو گی۔ دراصل سابق وزیر خزانہ کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ خان صاحب نے انہیں جو کام سونپا وہ ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ آئی ایم ایف کو وزیر خزانہ کی فراغت کا پہلے سے علم نہیں تھا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ یہ بات تو بڑی انہونی ہوتی کہ بین الاقوامی ایجنسی کے کہنے پر ایک وزیر کو فارغ کر دیا جائے لیکن خان صاحب کو چین میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکرسٹین لیگارڈکو یقین دہانی کرانا پڑی کہ آئی ایم ایف کی پالیسی کے حوالے سے پاکستان کوئی تبدیلی نہیں کرے گا اور پیکیج میں دی گئی اصلاحات پر عملدرآمد کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسی بنا پر آئی ایم ایف مشن نے رواں دورے کو ملتوی نہیں کیا۔ یقیناً اگلا بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کی غمازی کرے گا اور اسے عوام کیلئے ٹف ہی قرار دیا جائے گا۔ اکانومی ایک طرف، وزیر خزانہ اپنا محکمہ انتظامی طور پر کس انداز سے چلا رہے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تکنیکی سطح پر بات چیت کے دوران وزارت خزانہ کے اہل کاروں کی پوری تیاری ہی نہیں تھی۔ ’پاکستان ٹوڈے، کی ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات میں سٹیٹ بنک کے حکام تو مالیاتی پالیسی کے بارے میں ہی بریفنگ دے سکتے تھے لیکن دیگر معاملات میں وزارت خزانہ کے حکام اپنے اعداد و شمار کے ذریعے آئی ایم ایف کی شرائط کو نرم کرانے میں فی الحال نا کام نظر آتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ماہرین بھی حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے بجائے اپنی ریسرچ پر مبنی کوائف پر انحصار کر رہے ہیں۔ سیکرٹریخزانہ یونس ڈھاگہ اچھی شہرت رکھنے والے منجھے ہوئے بیوروکریٹ ہیں۔ انہوں نے وزارت پانی و بجلی کے سیکرٹری کے طور پر اچھا کام کیا لیکن وزارت خزانہ میں وہ نسبتاً نئے ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ وزارت خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے لیے نئی نہیں ہے لیکن انھوں نے حال ہی میں اس کا قلمدان سنبھالا ہے۔ اور وہ پورا وقت اپنی وزارت کو نہیں دے سکے۔ دریں اثناء آئی ایم ایف کی ریجنل اکنامک آئوٹ لُک کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2019ء کے دوران پاکستان کی اقتصادی ترقی 2.9 رہے گی۔ نیز یہ کہ دو برس میں 27ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واجب الادا ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ادا ہوگا؟ عین آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر یہ رپورٹ جاری ہونا معنی خیز ہے۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو پاکستانی اقتصادیات کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور یہ معاملہ کسی ایک حکومت تک محدود نہیں بلکہ تاریخی طور پر اس تلخ حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارا اقتصادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بھی نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ کالم میں جملہ معترضہ کے طور پر لکھا تھا کہ وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی وزیر اعظم سے ملاقات ان کی نامزدگی کے بعد ہوئی تھی لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ ان کی ملاقات ان کی تقرری سے دو ہفتے قبل ہو چکی تھی۔