Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Black Monday

Black Monday

دوماہ کی لیت و لعل کے بعد بالآخر تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے مدد لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ہونے والے آئی ایم ایف کے اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر تشریف لے جا رہے ہیں۔ پیر کو پاکستانی معیشت کے حوالے سے "بلیک منڈے" قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس روز تیزی سے گرتی ہوئی سٹاک ایکسچینج بالکل کریش کر گئی اور اقتصادی ماہرین کے مطابق 238ارب کا نقصان ہوا، اسی طرح روپے کی قدر بھی ڈالر کے مقابلے میں نیچے آتے آتے129 سے تجاوز کر گئی اور اگلے روز 137 کے لگ بھگ ہو گئی۔ نہ جانے وزیر اعظم عمران خان نے یہ کلیدی فیصلے کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی۔ جیسا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013ء میں برسر اقتدار آتے ہی آئی ایم ایف سے بات چیت شروع کر دی انہیں بھی کر دینی چاہئے تھی۔ جیسا کہ گزشتہ روز عمران خان کی پریس کانفرنس سے ہی آشکار ہوا کہ وہ ابھی تک وزیر اعظم سے زیادہ اپوزیشن لیڈر کے موڈ میں ہیں لیکن محض پچھلی حکومت کو لعن طعن کرنے سے معیشت تو نہیں سنبھلے گی اور غریب آدمی جس کا پی ٹی آئی دم بھرتی ہے کیلئے گزارا کرنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی فرصت میں بلوچستان کا دورہ کر کے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ اس دورے کی خصوصی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ کہا جاتاہے کہ میاں نوازشریف کے دور وزارت عظمیٰ میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو ئی تھی جب 13نومبر2016ء کو پاکستان کے لیے اقتصادی اورسٹرٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل گوادر کی بندر گاہ کا باقاعدہ افتتاح ہونا تھا۔ غالبا ً افتتاح میاں نوازشریف نے کیا تھا لیکن تختی اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی لگی تھی۔ اب وزیراعظم اور آرمی چیف کے شانہ بشانہ وہاں ہونے سے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ فوجی اور سیاسی قیادت نہ صرف دیگر معاملات بلکہ بلوچستان کے بارے میں بھی ایک ہی صفحے پر ہے۔ خان صاحب نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کمانڈر سدرن لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی موجودگی میں اعلان کیا کہ چائنہ پا کستان اقتصادی راہداری ’سی پیک، کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے۔ گویا کہ اعلیٰ ترین سطح پر اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ سابق دور میں 62ارب ڈالر پر مشتمل ’سی پیک، منصوبوں کو جوں کا توں نہیں چلایا جائے گا۔ پاکستان کی دیوالیہ معیشت کی بنا پر غالبا ًایسا کرنا ضروری بھی ہو گیا تھا کیونکہ اگر حکومت ’سی پیک، کے تحت چلنے والے بجلی کے منصوبوں کے بقایا جات بھی ادا کر نے کے قابل نہ ہو تو وہ قرضے کیا ادا کرے گی۔ لیکن حکومتی وزراء کی ٹیم کے بعض ارکان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے خواہ مخواہ غیر یقینی کی صورتحال پیدا کی اور چین کو بھی کچھ وسوسوں میں مبتلا کر دیا۔ چین نے تو واضح طور پرکہہ دیا ہے کہ نئے منصوبوں پر نظرثانی کرنے کا پاکستان کو پورا اختیار ہے، پہلے سے جاری حساس معاملات پر بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ’ ون بیلٹ روڈ منصوبے، کے اقتصادی ترقی کے علاوہ سٹرٹیجک پہلو بھی ہیں جنہیں یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان نے درست طور پر کہا کہ گوادر کی بندر گاہ کو فعال کیے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ واضح رہے کہ2015ء میں نوازشریف نے2300ایکڑ اراضی خصوصی اقتصادی زون کیلئے چین کے حوالے کی تھی۔ گوادر پورٹ بھی43 سال کیلئے 2059ء تک ہم نے چین کو ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔ گوادر پورٹ ہم نے پہلے سنگاپور کو تھونپنے کی کوشش کی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی بالآخر چین ہماری مدد کو آیا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ’سی پیک، کے منصوبوں پر نظرثانی کا اعلان اور گوادر پورٹ کو فعال کرنا نیک ارادے ہیں لیکن عملی طور پر تھوڑا سا تضاد نظر آتا ہے۔ نہ جانے موجو دہ حکومت کو ’سی پیک، سے کیا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم سمیت ہم سب ’سی پیک، ’سی پیک، کی گردان کیے جا رہے ہیں۔ جب چین یہ کہہ چکا ہے کہ آپ جیسا چاہیں کر لیں تو پھر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کلیدی منصوبے کو کیوں مسلسل ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کے مطابق تو نوازشریف کے دور میں ملک کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ وزیراعظم نے بجا طور پر بلوچستان میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو اقتصادی ترقی کے لیے جائز حصہ دیا جائے گا اور صوبے کے جائز تحفظات دور کیے جائیں گے۔ یہ اچھی بات ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن زمینی حقائق تاریخی طور پر مختلف رہے ہیں۔ ہر حکمران بلوچستان کی ترقی میں ممد ومعاون ثابت ہونے کی دلآویز تجاویز سناتا رہا ہے لیکن ترقیاتی فنڈز وہاں کے سرداروں اور سیاستدانوں کے ہی کام آتے ہیں جبکہ وہاں کے عوام غربت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں اور دہشتگردی کا مسلسل شکار رہے ہیں۔ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ جب ایک بین الاقوامی مائننگ کمپنی ریکوڈیک کو تانبے کے وسیع ذخائر کی مائننگ کا ٹھیکہ دیا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے اسے سبوتاژ کر دیا، اب پاکستان اس کمپنی کو اربوں روپے ہرجانہ ادا کر رہا ہے اور صوبے سے تانبا نکالنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ عمران خان نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسا کوئی وعدہ نہیں کرینگے جو پورا نہ کر سکیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ بلوچستان کے عوام سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ،۔ جہاں تک غربت، پسماندگی اقتصادی، بدحالی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا تعلق ہے۔ مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ حکومتی زعما ان معاملات کے بارے میں تو ابھی تک ٹامک ٹوٹیاں ہی مار رہے ہیں۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی حکومت ملک دیوالیہ کر گئی اور یہ کہ عملی طور پر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر قریبا ًمنفی ہو چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا۔ افواج پاکستان کو ملک کے دفاع کے لیے جس جدید سامان حرب کی ضرورت ہے وہ چین کے سوا اور کوئی ملک فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ خزانہ خالی ہونے کی بنا پر ہم مغربی ممالک سے جدید سامان حرب خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ حال ہی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکہ کے دورے سے جس میں انہوں نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے ہیں کیونکہ امریکہ نے صاف کہہ دیا کہ پاکستان کی فوجی امداد بحال نہیں کی جائے گی۔ دوسری طرف روسی صدر ولادی میر پوٹن کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران 5.43 ارب ڈالر کے خطرناک ترین طیارہ شکن میزائل نظامS-400کی فراہمی کا بھی معاہدہ ہوا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے روس، بھارت کو 5 عدد ایس۔ 400 میزائل دفاعی سسٹم فروخت کرے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ نے روس سے اس نظام کو خریدنے کی صورت میں بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن اس نے کوئی پروا نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے پاس یہ سب کچھ خریدنے کے لیے وسائل بھی موجود ہیں کیونکہ اس کی معیشت پاکستان کی طرح دیوالیہ نہیں ہے۔ بھارت جو سامان خرید رہا ہے وہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال ہو گا۔ اس تناظر میں پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کے لیے چین کے سوا کہاں کا رخ کر سکتا ہے۔ اسی لیے ہمیں اپنی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کو بازیچہ اطفال نہیں بنانا چاہیے اور امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو اگلے ماہ چین کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں ’سی پیک، سمیت ان تمام معاملات پرچین سے کھل کر بات کریں گے جن سے پاکستان کی ضروریات بھی پوری ہوں اور چین کے ساتھ تاریخی دوستی بھی مزید پھلے پھولے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran