Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Bohat Se Imtehanat

Bohat Se Imtehanat

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو "نیا پاکستان" کا بانی قرار دے دیاکیونکہ وہ "پاناماکیس" میں طاقتوروں کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ انہوں نے یہ بات آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے منعقدہ تقریب میں کہی۔ لیکن یہ کہ "نیا پاکستان " ہے کیا۔ اس میں اور پرانے پاکستان میں کیا فرق ہے، ابھی تک واضح نہیں ہو پایا۔ یہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی کاوش ہے جو پانی، ڈیم سے لے کر آبادی میں اضافے جیسے ان بنیادی مسئلوں کو چھیڑ رہے ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ نجیب الطرفین عالم دین مولانا طارق جمیل جو بڑی مدلل گفتگو کر تے ہیں نے اچھی باتیں کیں انھیں دوٹوک انداز میں یہ بات بھی کہنی چاہیے تھی کہ آبا دی پر قابو پانا غیراسلامی نہیں ہے، لیکن انہوں نے مصلحت بندی سے کا م لیا۔ ناقدین کو یہ بات تھوڑی سی کھٹکی کہ نئے پاکستان میں چیف ایگزیکٹو اور چیف جسٹس ایک ہی سٹیج پر بیٹھے ہیں۔ ماضی قریب میں عمران خان نے بطور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس سے ملاقات کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی اس تقریب سے دوروز پہلے ہی وزیراعظم نے اس امر پر خفگی کا اظہار کیا تھا کہ چیف جسٹس نے ان کے فیورٹ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کیوں سرزنش کی اور ساتھ ہی وہ ان کے اب سابق وفاقی وزیر، اعظم سواتی کا کیس 62 ون ایف کے تحت سننے پرغور کر رہے ہیں اور اس ضمن میں عدالتی معاونت کے لیے2 جیورسٹس کا تقرر بھی کیا ہے۔ عمران خان نے اپنی پریس ٹاک میں عدالت کے ہاتھوں اپنے دست راست، مشیر، بر طانوی شہری زلفی بخاری کی سررنش پر خفگی کا اظہار کیا تھا، اتفاق سے یہ دونوں کیس اسی روز سنے گئے جب چیف جسٹس اور وزیراعظم ایک ہی سٹیج پر متمکن تھے۔ آبادی کا مسئلہ واقعی ایک انتہائی تشویشناک معاملہ ہے، جس تیزی کے ساتھ آبادی بڑھ رہی ہے اسی سرعت سے ملکی معیشت ترقی نہیں کر رہی۔ بنگلہ دیش جو 1971ء میں پاکستان کا حصہ تھا۔ وہاں کی آبادی کی شرح میں اضافہ 1.05 فیصد، ایران میں 1.08 جبکہ پاکستان میں سرکاری اعداد وشمارکے مطابق آبادی میں اضافہ کی شرح 1.45فیصد ہے جو افغانستان کے سوا خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ محترمہ ثانیہ نشتر نے اسی تقریب میں کہا کہ 1970ء تک پاکستان کا پاپولیشن گروتھ پروگرام بہت موثر تھا لیکن بعدمیں یہ جمود کا شکار ہو گیا۔ ایک مرحلے پر تو آبادی میں اضافے کی شرح تین فیصد سے بھی زیادہ بتائی جاتی تھی جبکہ سرکاری طورپر یہ شرح 1.45فیصد بتائی گئی۔ یہ بھی کوئی مستند اعداد وشمار نہیں لگتے کیونکہ پاکستان میں افغانستان اور دیگرممالک سے آنے والوں کی وجہ سے آبادی پر بوجھ بڑھ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں میں آبادی کا دباؤ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ محدود وسائل کی بنا پر شہر اپنے ان باسیوں کو جملہ بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ کراچی کی آبادی قریباً دوکروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ لاہور کے اردگرد بھی کئی نئے لاہور بن چکے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کی باتیں اپنی جگہ لیکن جوں جوں پاکستان میں بنیاد پرستی بڑھی ہے توں توں آبادی کا معاملہ دگرگوں ہوتا چلاگیا۔ یہی حال پولیوکا ہے پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیوکا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ بھی قنوطیت پسندی اور پسماندگی ہے۔ شروع شروع میں اس حوالے سے فتوے دیئے گئے کہ پولیوکی ویکسین سے افزائش نسل کے جرثومے ختم ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ ایران اور بنگلہ دیش نے اپنے علما حضرات کو آن بورڈ لے کر آبادی کے مسئلے پر کنٹرول کیا۔ حال ہی میں میرے پروگرام "ہو کیا رہا ہے" میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ندیم الحق بتا رہے تھے کہ پاکستان میں موجودہ شرح آبادی کے پس منظر میں اقتصادی ترقی کے لیے کم ازکم ہر سال شرح نمو میں 8 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تاکہ عوامی کی حالت زار بہتر ہوسکے۔ نیا پاکستان میں جب تک آبادی پر قابو، پینے اور زراعت کیلئے پانی کی فراہمی کے معاملات، سوشل سیکٹر میں تعلیم اور صحت کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے تواسے نیا کیسے کہاجاسکتا ہے۔ اس وقت توصورتحال یہ ہے کہ ان شعبوں میں نہ توسیاسی عزم موجود ہے اور نہ ہی وسائل، حالیہ بجٹ میں ترقیاتی فنڈز میں مزید کمی کر دی گئی۔ پاکستان کا دفاع یقینا قومی تقاضا ہے لیکن یہ بنیادی شعبے بھی وطن عزیز کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ عمران خان نے "پاناماکیس" کو اس ملک میں نیا پاکستان کے حوالے سے ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی بزعم خود ایمانداری اور راست بازی کا بہت چرچا ہے۔ یقینا ماضی میں سیاستدانوں سمیت سب نے ملک کو بہت لوٹا ہے۔ لیکن حکمرانوں کا اس سے بھی بڑا جرم نااہلی اور نالائقی ہے جس سے تحریک انصاف کی حکومت بھی مبرا نظر نہیں آتی۔ بلاشبہ وزیراعظم بجا طور پر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر ایماندار ہیں لیکن وہ پاکستان کے پہلے ایماندار حکمران نہیں ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد ایک انتہائی ایماندار شخصیت تھے، ان کا تعلق لاہور سے تھا، وہ معمولی اثاثوں کے مالک تھے لیکن انھوں نے اپنی نااہلی سے جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کر کے جو نقصان پہنچایا وہ ناقابل تلافی تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان پر کاٹھی ڈالنے کے لیے بیوروکریسی کے سرخیل چودھری محمد علی کوسیکرٹری جنرل پاکستان کو بنا دیاگیا۔ خود لیاقت علی خان بھی مسلم لیگ میں آمرانہ روش کو فروغ دینے کے باوجود ذاتی طور پر انتہائی ایماندار شخصیت تھے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیرجمشید مارکر جن کا لیاقت علی خان کے ساتھ گہرا ذاتی تعلق تھا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی دعوت پران کے گھر رات کا کھانا کھانے کے لیے موجود تھا لیکن وہ بہت تاخیر سے آئے اور سخت برہم تھے۔ میں نے سوال کیاکہ آپ اتنے اپ سیٹ کیوں ہیں؟ ۔ انھوں نے بتایا کہ میرا سیکرٹری میر ے پاس ایک فائل لے کر آیا کہ سب لوگ کلیم کے تحت متروکہ املاک اپنے نام الاٹ کروا رہے ہیں، آ پ کے لیے یہ پراپرٹی بہتر رہے گی، جس پر میں نے غصے میں آکر وہ فائل اس کے منہ پر دے ماری اور اسے فارغ کردیا کہ تمھیں جرأت کیسے ہوئی کہ تم ایسی تجویز بھی دو۔ پاکستان کے صدر سکندر مرزا جب ایک سازش کے تحت جنرل ایوب خان کو اقتدار سونپ کر رخصت ہوئے تو ان کے پاس چند ہزار روپے تھے جن میں سے کچھ انہوں نے اپنے سٹاف میں بانٹ دئیے اور باقی معمولی رقم ساتھ لے کر چلے گئے۔ سکندر مرزا لندن کے ایک ہوٹل میں ملازم تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ یقینا ان سیاستدانوں نے سازشیں بھی کیں ملک کو آئین بھی نہیں دیا لیکن ایوب خان کی گردان کے برعکس یہ شخصیات مالی طور پر ایماندار تھیں اس فہرست میں اور لوگوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو پر بھی مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ موجودہ حکومت کو خان صاحب کی ایمانداری کے باوجود اہلیت کے بہت سے امتحانات پاس کرنا ہونگے اور انھیں "نیا پاکستان" بنانے کے لیے اہلیت کی نئی تر جیحات طے کرنا ہونگی۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran