آٹا چینی بحران اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں رپورٹ سے ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ کی بنا پر جس کے مطابق جے ڈبلیو گروپ کے سربراہ اور عمران خان کے دست راست جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا گیا جبکہ دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریارکو فائدہ پہنچا۔ ان کے ساتھ چودھری منیرجن کے قلابے سبھی جماعتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور مونس الٰہی کا نام بھی لیا گیا ہے۔ جہانگیر ترین کی ملکیتی ملوں کا چینی مارکیٹ میں بائیس فیصد حصہ ہے اور اس حساب سے انہیں 56 کروڑ روپے کی سبسڈی، رحیم یار خان گروپ کو 12 فیصد شیئر ہونے کی بنا پر 45 کروڑ روپے کی سبسڈی ملی اور تیسرے نمبر پر المعیز گروپ کے شمیم خان جو جہانگیر ترین کے کزن ہیں لیکن ان کا کاروبار الگ ہے انہیں 16 فیصد شیئر کی بنا پر 40 کروڑ روپے ملے ہیں۔ 2018ء میں جب عمران خان برسراقتدار آئے یہ جائزہ لینے کیلئے کہ ملک میں چینی اضافی ہے تو مشیر تجارت رزاق داؤد کی صدارت میں شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس میں ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی توثیق کر دی۔ اس وقت کے سیکرٹری خوراک کی دہائی کے باوجود کہ اگلے برس چینی کی پیداوار کم ہو گی لیکن ان کی بات پر کان نہیں دھرا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ وزیراعلیٰ پنجاب سبسڈی دینے میں پیش پیش تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو محض چینی ملز مالکان کو جنہیں میڈیا پر شوگر بیرن بھی کہا جاتا ہے کو موردالزام ٹھہرانا مبنی بر انصاف نہیں، اس حمام میں موجودہ سمیت تمام حکومتیں ننگی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متذکرہ پالیسیوں سے شوگر ملز مالکان کے علاوہ گنے کے کاشتکاروں کو بھی فائدہ پہنچایا گیا۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی درست ہے کہ چینی اور گنے کی قیمت بلند ہونے سے دیگر فصلوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ پاکستان جو ایک زمانے میں اپنے لئے وافر کپاس پیدا کرتا تھا اب اس کی مجموعی کاشت ضرورت سے بھی کم ہے۔ صنعتکاروں کا سیاستدان بننا اور پھر اقتدار میں آنا یا برسر اقتدار سیاستدانوں کا صنعت کار بننا اصولی طور پر محل نظر ہے اور شفافیت کیلئے بنائے گئے مفادات کے ٹکراؤ کے اصولوں کے خلاف ہے لیکن جب وطن عزیز میں اس ضمن میں کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں اور مفادات کے ٹکراؤ کا کوئی اصول رائج ہی نہیں ہے توان صنعتکاروں / سیاستدانوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اگرچہ اصولی طو پر سیاست اور کاروبار بالکل الگ تھلگ ہونے چاہئیں، سیاستدانوں کو کاروبار اور کاروباری افراد کو سیاست نہیں کرنی چاہئے۔
پاکستان میں حکمرانوں کی طرف سے صنعتیں لگانے کی ناپسندیدہ روایت فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈالی جب انہوں نے اپنے بیٹوں کے ذریعے گندھارا موٹرز لگائی تھی۔ اصل بیڑہ غرق تو جنرل ضیاء الحق نے کیا۔ انہوں نے اتفاق سٹیل ملزخانوادے کے چشم و چراغ نواز شریف کو اپنا سیاسی بیٹا بنا لیا۔ پہلے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف اور ضیاء الحق کی رخصتی کے بعد وزیراعظم بن گئے۔ شوگر ملیں لگانے کی ریت اسی دور میں پڑی۔ شریف فیملی، چودھری برادران، زرداری خاندان سمیت سب نے شوگر ملیں لگائیں۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے چودھری منیر ابوظہبی کے امیر شیخ زاید بن سلطان النیہان کے کاروباری مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔ وہ اماراتی شہزادوں کیلئے شکار کا انتظام کرتے تھے۔ دولت آنے کے بعد ان کو بھی سیاست کا چسکا لگا تو انہوں نے خسرو برادران کو اپنا لیا اور شوگر ملیں لگوائیں ورنہ خسرو برادران کی اتنی مالی استطاعت نہیں تھی کہ وہ شوگر ملیں لگاتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1990ء کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے بعدچودھری برادران جو نوازشریف کے دست راست تھے میرے گھر تشریف لائے۔ وہ اس بات پر شاکی تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں ان کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ میں نے چودھری شجاعت حسین کو مشورہ دے ڈالا کہ آپ سیاست کریں کاروبار نہ کریں، وہ ایک دم کھڑے ہو گئے اور کہا"بھائی کیوں نہ کرئیے ساڈا تے بے نظیر نے بیڑہ غرق کر دتا اے"۔ اب میاں شہبازشریف فرما رہے ہیں کہ رپورٹ عمران خان اور عثمان بزدار کے خلاف فرد جرم ہے، دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم کیا ایکشن لیتے ہیں۔ ان کے برخوردار سلمان شہباز نے جو لندن میں خودساختہ جلاوطنی میں ہیں سبسڈی کے اعدادوشمار کو غلط قرار دیا ہے۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر ایماندار ہیں اور انہوں نے تاجر اور صنعتکارہونے کی کبھی خواہش یا بننے کی کوشش نہیں کی لیکن ان کے اردگرد اکثر ساتھیوں سمیت تمام جماعتوں کے سیاستدانوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔
جہانگیر ترین انتہائی محنتی اور زیرک بزنس مین ہیں۔ انہوں نے دامے درمے سخنے عمران خان کا ساتھ دیا، ان کے لئے اپنے خزانے کے منہ کھول دئیے اور اپنی حکمت عملی کے ذریعے عام انتخابات سے قبل اور بعد میں ان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں خاصی مدد کی۔ اس کے باوجود کہ انہیں دسمبر2017ء میں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا وہ کئی سیاسی شخصیات کو تحریک انصاف میں شامل کرنے میں پیش پیش رہے۔ موجودہ مخلوط حکومت میں اگر عمران خان کے بعد کسی شخص کا کلیدی کردار ہے تو وہ جہانگیر ترین ہی ہیں۔ ترین صاحب مقتدر قوتوں کے بھی بڑے قریب تھے اور انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ عمران خان کی حکومت بنانے میں ان کی مدد حاصل کی، انہیں اسی بنا پر ڈپٹی پرائم منسٹر بھی کہا جاتا تھا لیکن چند ماہ پہلے ان کا زوال شروع ہو گیا، اس میں ایک بڑا فطری عنصر حسد تھا جس کی آگ میں خان صاحب کے بہت سے قریبی ساتھی جل رہے تھے۔ انہیں یہ گلہ تھا کہ ترین کو قریباً ویٹو پاور کیوں حاصل ہے۔ ان کے مخصوص انداز اور طریقہ کار کی وجہ بہت سے لوگ ان کے دشمن بن گئے۔ اسد عمر جو آٹھ ماہ تک وزیر خزانہ رہے، اس وقت جہانگیر ترین کے سخت ناقد بن گئے، جب ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بطور مشیر خزانہ ان کی جگہ لے لی۔ جہانگیر ترین اس بات کے حامی تھے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جایا جائے جبکہ اسد عمر نے اس حوالے سے غیر معمولی تاخیر کر دی جو پاکستانی معیشت کو خاصی مہنگی پڑی۔
شاہ محمود قریشی جو پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اپنی صوبائی نشست ہارنے کا الزام جہانگیر ترین کے سرمنڈتے ہیں، اسی طرح کابینہ کے بعض دیگر ارکان کا نام بھی لیا جاتا ہے لیکن جہانگیر ترین کے سب سے بڑے مخالف وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں، اس ساری کارروائی کے پیچھے بھی ان کا کلیدی رول بتایا جاتا ہے۔ ترین صاحب کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور انہوں نے پارٹی کے اندر اپنی کوئی لابی نہیں بنائی، خان صاحب جو اکثر حکمرانوں کی طرح کانوں کے کچے ہیں وہ بھی ترین صاحب سے فاصلے پر چلے گئے تھے۔ اس طرح وہ ایک اچھے مشیر اور دوست سے محروم ہو چکے ہیں، اس سارے معاملے کے پیچھے بھی پاور پالیٹکس کار فرما ہے۔ اس لحاظ سے اگرچہ خان صاحب کا یہ کہنا کہ چینی گندم بحران کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہو گا، انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ملک میں کسی لابی کو بھی عوام کے پیسوں پر عیش نہیں کرنے دیں گے۔ 25 اپریل کو کمیشن کی فرانزک رپورٹ بھی آجائے گی جس کے بعد ان شااللہ ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہو گا۔
جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں، پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے میرے 6 ماہ قبل بیوروکریسی کے معاملے پر اختلافات شروع ہوگئے تھے، تاہم عمران خان سے تعلقات جلد بہتر ہوجائیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکے گا کیونکہ ان کی" چھٹی" کے پیچھے اور بھی عوامل ہیں۔