چین سے شروع ہونے والے کرونا وائرس نے قریباً پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگرچہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس مہلک وبا سے پاکستان میں 16 افراد متاثر ہوئے ہیں ان میں سے ایک صحت یاب بھی ہو گیا ہے۔ اس کے اثرات بالخصوص پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ، کویت، قطر، آسٹریلیا سمیت دنیا کی بڑی بڑی سٹاک مارکیٹس تیزی سے مندے کا شکار ہیں، عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکاہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج جس کی پہلے ہی حالت پتلی تھی پیرکو 2300 پوائنٹس گر گئی اور اس تنزلی کو روکنے کے لیے 45 منٹ تک کاروبار بند کرنا پڑا۔ پیر کو صبح ہی حصص کی قیمتوں میں 5.83 فیصد کمی نے تو پاکستان کی تاریخ میں ایک دن میں گرنے والی مارکیٹ کے ریکارڈ کو مات کردیا۔ اس سے پہلے سٹاک مارکیٹ فروری2009ء میں 5.1 فیصد گری تھی۔ تاہم مارکیٹ دوبارہ کھلنے کے بعد حصص کی قیمتیں کچھ بہتر ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈالر نے اڑان بھرلی ہے اور آغاز ہفتہ کو ہی 2 روپے 70 پیسے اور اس سے اگلے روز 75 پیسے مزید مہنگا ہو گیا۔ دنیا بھر میں اس مندے کی بنیادی وجہ تیل کی قیمتوں کا دھڑام سے گرجانا ہے۔ اب تک یہ تیس فیصد سے زائد گر چکی ہیں جو 1991ء کے بعد سب سے زیادہ گری ہیں۔ اوپیک پلس کے رکن کے طور پر سعودی عرب کا کہنا ہے کہ تیل کی پیداوار کم کر دی جائے لیکن روس اس سے انکاری ہے جس کے بعد خدشہ ہے کہ23ممالک پر مشتمل کارٹل کا معاہد ہ جورواں ماہ کے آخر میں اختتام پذیر ہونے والا ہے تو سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی پیداوار زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے مقابلے سے بین الاقوامی قیمتیں مزید گریں گی۔ سعودی عرب پہلے ہی قیمتوں کی اس جنگ میں اپنے تیل کی قیمت 6 سے 8 ڈالر فی بیرل کم کر چکا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں گراوٹ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے، اس گراوٹ کو اگر گھریلو، صنعتی اور فرنس آئل سے بجلی پیداہونے والی بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو منتقل کیا جائے تو اس سے اکانومی کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے پیپلز پارٹی کو 2008ء سے 2013ء تک اپنے دورحکومت میں عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پیداہونے والے بحران کا سامنا رہا لیکن میاں نوازشریف کے دور میں تیل کی قیمتیں اتنی گریں کہ صرف اسی مد میں ہونے والی بچت سے ملک میں اشیا کی قیمتوں میں استحکام پیداہو گیا۔ اس کے باوجود کہ نواز شریف کی حکومت بھی آئی ایم ایف کا ایک پروگرام پورا کر رہی تھی اور حکومت نے اس پروگرام کا کامیابی سے مکمل بھی کیا اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں افراط زر کی شرح تقریباً7.75 فیصدتک اور شرح سود 6.25فیصد تک آگئی تھی جس سے اقتصادیات کو مزید فائدہ پہنچا۔ نوازشریف اور اسحق ڈار کی حکمت عملی کے تحت روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدرکو مارکیٹ میں ڈالر پھینکنے کے مصنوعی طریقے سے کم رکھا گیا۔ ان تمام اقداما ت کا عوام کو فائد ہ پہنچا اور شرح نمو 5.8فیصد تک بڑھ گئی۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ نواز حکومت اپنے بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے مسئلے پیدا کر گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے مہمند میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ درست اعلان کیا ہے کہ گیس اور بجلی کی قیمتیں مزید نہیں بڑھائی جائیں گی بلکہ ان کو کم کرنا ہوگا کیونکہ ہم اپنے عوام اور انڈسٹری پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے، جب ہماری حکومت آئی تو پتہ چلا کہ گزشتہ حکومت نے بجلی بنانے والی کمپنیوں سے 20 سے 30 برسوں کے معاہدے کئے ہوئے ہیں، یہ معاہدے ایسے ہیں کہ جس قیمت پر بجلی بن رہی اس قیمت پر ہم لوگوں کو فروخت نہیں کرسکتے کیونکہ وہ بہت مہنگی بن رہی ہے، جو ہم وصول کر رہے ہیں وہ کم ہے اور اس کے درمیان کا فرق گردشی قرض بن جاتا ہے، جب ہماری حکومت آئی تو تاریخی گردشی قرضے تھے اور قرضوں کے بڑھنے کی وجہ سے ہمیں قیمتیں بڑھانی پڑیں کیونکہ ہمارے پاس قرض ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ انہوں نے کہا اب اگر ہم صنعتوں کو سبسڈی دیں تو خسارے میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مزید خسارہ بڑھا نہیں سکتے کیوں کہ ہم قرضوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ اب پچھلی حکومتوں کو رگید نے کے بجائے تبد یل شد ہ حالات میں دلیرانہ فیصلے کریں۔ تیل کی قیمت تو کم ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کوروناوائرس کی وجہ سے جنوری سے ووہان سمیت چین کے بڑے بڑے شہر قریباً شٹ ڈاؤن کی حالت میں تھے جس سے شدید اقتصادی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ چین کے شہروں میں اس وائرس کی بناپر قر یباً 3136 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 80754 متاثر ہوئے ہیں۔ چین میں صنعتیں متاثر ہونے سے پاکستان کے پاس مواقع ہیں کہ وہ اپنے لیے برآمدی ما رکیٹ تک رسائی کر سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ان نو ممالک میں شامل ہے جس کی اقتصادیات چین میں ہونے والی تنزلی سے براہ راست متاثر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر لاہور اورنج لائن ٹرین ہی لے لیں، اس کا افتتاح اپریل میں ہونا تھا لیکن چین سے ضروری سامان کی ترسیل میں تعطل کی بناپر اب افتتاح کو جون تک موخر کردیا گیا ہے۔ یقیناً پاکستان میں سی پیک، منصوبے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ویسے تو سی پیک، کا سلوڈاؤن کافی عرصے سے جاری ہے اور 62ارب ڈالر کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کے تناسب کی صرف ایک چوتھائی سے بھی کم انویسٹمنٹ آسکی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ توعمران خان حکومت کا ابتدائی طور پر اس منصوبے کے بارے میں گومگو کا شکارہونا تھا۔ وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کی وزارت کی سست روی، بے توجہی اور نالائقی کی بنا پر معاملات درست سمت کی طرف نہیں چل رہے تھے۔ اسی بنا پر سی پیک اتھا رٹی، جس کاجب میاں نوازشریف کے دور میں ایک جرنیل کو سربراہ بنانا مقصود تھا بعداز خرابی بسیار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی سربراہی میں اتھارٹی وجود میں آ چکی ہے اور خسر وبختیار کی جگہ اسد عمر کو یہ وزارت تفویض کر دی گئی ہے۔ لیکن کرونا وائرس رنگ میں مزید بھنگ ڈال رہا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ صورتحال سے نبٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر موثر حکمت عملی اختیار کی جائے لیکن مصیبت یہ ہے کہ حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں اس بری طرح پھنسی ہوئی ہے کہ نہ جائے ماند ن نہ پائے رفتن۔ بعض کلید ی فیصلے اب آئی ایم ایف کے معاہد ے میں لکھی شرائط کو پورا کئے بغیر نہیں کئے جا سکتے۔ شاید اسی بنا پر بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ فقرہ کساکہ آئی ایم ایف کی ٹیم آئی ایم ایف سے بات چیت کر رہی ہے۔ یقیناً ان کا اشارہ وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم کی طرف تھا کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر دونوں ہی اس بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے آئے ہیں لیکن یہ کہنا اس لحاظ سے درست نہیں ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کے پس منظر کے باوجود ہماری اقتصادی ٹیم حکومت پاکستان کی ہی ملازم ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے فوراً بعدآئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے حامی نہیں تھے اور اس معاملے میں لیت ولعل کرتے رہے اور حتیٰ کہ ان کی جگہ حفیظ شیخ، رضا باقراور شبر زیدی کی شکل میں نئی اقتصادی ٹیم آ گئی۔ اسد عمر دوبارہ سیاسی طور پر اِن ہو چکے ہیں، اگر ان کی ہچکچاہٹ درست تھی تو چھ ارب ڈالر کا پیکیج لینے کی خاطر نئی اقتصادی ٹیم کا آئی ایم ایف کے آگے سجدہ ریز ہو جانا دوسری اطاعت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت تبدیل شدہ صورتحال میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بدلنے کے لیے تجدید مذاکرات کرے، عوام کو کچھ ریلیف دینے کے علاوہ صنعتی اور تجارتی شعبے کے جائز مطالبات پر غور کرے۔ سٹیٹ بینک ایک ہفتے بعد نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرنے والا ہے، مناسب ہو گا اس میں شرح سود کو کم کر دیا جائے۔
عالمی کساد بازاری کے اس نئے دور میں غیر ملک پاکستان سٹاک ایکسچینج سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تغیر پذیر اقتصادی صورتحال میں موجودہ اقتصادی پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے۔ ماہرین کے مطابق خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کو پانچ ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ تیل کی قیمتیں گرنے کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی نیچے آئینگی، اس طرح سرکلر ڈیٹ جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے کنپٹی پر پستول تان رکھی ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کریں، اس میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ افراط زر میں کمی کے ساتھ شرح سودبھی نیچے گرنی چاہئے۔ پاکستان کیلئے یہ Bonanza ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی معاملات درست کئے جائیں۔