کرونا جیسی موذی وبا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کی سنگینی کا ادراک ہمارے ہاں بھی ہو گیا ہے۔ یہ کہنا شاید مناسب نہیں ہو گا کہ بعداز خرابی بسیار ہمارے حکمران بھی ہوش میں آ گئے ہیں تاہم متاثرین کے اعدادوشمار چونکا دینے والے ہیں۔ کرونا سے متاثر ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد پورے جنوبی ایشیا کے مقابلے میں زیادہ ہے، خیبر پختونخوا میں دو اورسندھ میں بھی ایک ہلاکت ہو چکی ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے قوم سے خطاب بھی کیا۔ توقع تو یہ تھی کہ اپنے خطاب میں وہ قوم کا مورال بلند کریں گے، بحران سے نبٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کا اعلان کریں گے بالخصوص مہلک وبا سے متاثرہ صنعتوں کے لیے کسی پیکیج کا اعلان کریں گے نیز اس سے متاثر ہونے والوں اور بے روز گاروں کے لیے کسی امدادی پروگرام کا اعلان کیا جائے گا لیکن یہ توقعات نقش برآب ثابت ہوئیں۔ انہوں نے مختصر خطاب میں یہ خبر دی کہ کرونا وائرس نے پھیلنا ہے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے ہم اسے پھیلنے سے روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔
چیف ایگزیکٹو کے اس ارشاد کے نتیجے میں لوگ گھبرائیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے۔ خان صاحب نے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے مصیبت میں پھنسے ہوئے پاکستان کے قرضے معاف کرنے کی اپیل کی لیکن ابھی تک ایک ایسی عالمی افتاد جس کی جدید دور میں کوئی مثال نہ ملتی ہو کے باوجود ملک اب بھی پہلے کی طرح بٹا ہوا ہے۔ اپوزیشن کو آن بورڈ لینے اور مشترکہ حکمت عملی بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں کی گئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے تو ایسے لگتا تھا کہ شاید یہ پنجاب کے لئے مسئلہ ہی نہ بنے اور یہ افتاد سندھ پر ہی گری ہے، اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے دو ہفتہ قبل اپنی تمام ٹیم کے ساتھ کرونا وائرس کے بارے میں میڈیا کو بریف کیا۔ اس وقت سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔
جمعرات کو مجھے کرونا وائرس پر8 کلب روڈ پر وزیراعلیٰ کی صدارت میں بلائے گئے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں مدعو کیا گیا۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان، آئی جی پولیس شعیب دستگیر، وزیر صحت یاسمین راشد، وزیراطلاعات فیاض چوہان، وزیر خزانہ ہاشم بخت اور وزیر صنعت میاں اسلم اقبال کے علاوہ تمام متعلقہ بیورو کریسی بھی شریک تھی۔ وزیراعلیٰ نے فیس ماسک، ٹیسٹ ایکوئپمنٹ، ہسپتالوں میں انتظامات، قرنطینہ کی صورتحال اور میڈیا پر ان اقدامات کی تشہیر پر تفصیلی بریفنگ دی۔ وہیں کسی نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔ دو ہفتے میں آنے والی تبدیلی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قبل ازیں تمام شرکا ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے بلکہ بعض وزرا بغل گیر بھی ہوئے لیکن تیزی سے بدلے ماحول میں استقبالیہ پر پڑے سینی ٹائزر سے ہاتھ صاف اور ایک اہلکار کی جانب سے ٹمپریچر چیک کئے بغیر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس میٹنگ میں بھی تفتان میں زائرین کے حوالے سے باز گشت سنی گئی۔ مجھ سے جب رائے دینے کا کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ ایران سے آنے والے زائرین کو تفتان میں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ بعد میں سکھر اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بہت سے زائرین دوبارہ قرنطینہ میں رکھ کر ریلیز کر دیا گیا۔ اصل مسئلہ بیرون ملک سے دیگر ذرائع سے آنے والے پاکستانیوں کی چھان پھٹک کا مناسب انتظام نہیں ہے جس وجہ سے پنجاب میں متاثرین کی تعداد 78 ہو گئی ہے۔ ان لوگوں نے مرض کو چھپائے رکھا اور مناسب ٹیسٹ نہیں کرائے۔
وزیراعظم کی اس بات میں کسی حد تک وزن ضرور ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے لہٰذا مکمل شٹ ڈاؤن کرنا مناسب نہیں ہو گا لیکن عوام کی قیمتی جانیں بچانے کے لیے شاید ایسا کرنا ہی پڑ جائے۔ سند ھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے مناسب اور بروقت عملی اقدامات کئے ہیں جن میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے علاوہ ریستوران، کلبوں میں سرگرمیاں محدود کرنے، انٹر سٹی سفر کرنے پر پابندی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ مشتاق احمد مہر نے سندھ میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر ایک ساتھ چار یا چار سے زائد سفر کرنے والوں کے خلاف پولیس کو قانونی کارروائی کی ہدایت کر دی۔ حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے لئے کرونا وائرس ٹیسٹ کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا ہے یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ ائر پورٹس جو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے زیر انتظام ہیں پر پہلے وہ سختی نہیں تھی جو کی جانی چاہیے تھی لیکن کرونا وائرس سے تاخیر سے سہی فیصلہ کن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 22 مارچ سے مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے کہا مزید ضرورت محسوس ہوئی تو یکم اپریل سے مزید 20 ٹرینیں بند کی جائیں گی۔
Covid19 سے معیشت اور غریب آدمی کے روزگار پر جو منفی اثرات مرتب ہو نگے اس کا پوری طرح ادراک نہیں کیا گیا۔ مختلف شعبوں میں شٹ ڈاؤن سے لاکھوں لوگ بالخصوص ڈیلی ویجر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس میں 267 ارب روپے مختص کیے گئے اسے موجودہ حکومت احساس پروگرام میں تبدیل کر رہی ہے میں سے اب تک صرف 27 ارب خرچ کئے گئے ہیں۔ پروگرام کی چیئر پرسن محترمہ ثانیہ نشتر کو اس بات کی زیادہ فکر ہے کہ اس کا تعین ہو جائے کہ کن کن لوگوں نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ یقینا ایسے لوگوں کی تطہیر ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ چھوٹے بچے کو نہانے والے پانی سمیت پھینک دیا جائے۔ یہ سیفٹی نیٹ موجودہ نازک اقتصادی دور میں خاصا کام آ سکتا ہے بشرطیکہ یہ روایتی نالائقو ں اور نااہلوں کی بے حسی اور بے تدبیری کامسلسل شکار نہ ہوتا جائے۔ صد ق دلی سے کوشش کی جائے تو اس پروگرام کے تحت ورلڈ بینک اور دیگر اداروں سے خاصی رقم مل سکتی ہے۔ حال ہی میں گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے جن کا تعلق آئی ایم ایف سے ہے شرح سود میں محض 0.75 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس شرح میں معمولی کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔
بلاول بھٹو نے درست کہا ہے یہ وقت محاذ آرائی کرنے کا نہیں ہے بلکہ دو محاذوں پر کرونا وائرس کے خاتمے اور معیشت کو مستحکم کرنے کی جنگ ہے، انہوں نے کراچی میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا وفاق اور صوبوں کے درمیان تعاون بہت زیادہ ضرورت ہے، ہم سیاست بعد میں کر لیں گے، یہ وقت الزامات لگانے کا نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا وفاقی حکومت کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہو گی، ہم بحیثیت قوم اس مشکل وقت سے نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کراچی سمیت پورے ملک کو لاک ڈاؤن کرنے کی بھی تجویز دی اور کہا کہ عوام خود کو 15 روز کے لیے گھروں میں محدود رکھیں، ہمیں اپنے آپ کو لاک ڈاؤن کرنا ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا اگر 15 دن تک ہمیں گھروں میں رہنا ہے تو یومیہ اجرت کمانے والوں کو سنبھالنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان تک راشن پہنچائیں گے، ملازمین اگر دفتر نہ آئیں تو انہیں پوری تنخواہ ادا کی جائے۔
وزیراعظم کو اپنے اقتصادی مشیروں کی سب اچھا ہے کی گردان سننے کے بجائے لیڈر شپ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہیں سندھ حکومت کے کرونا کے خلاف موثر اقدامات پر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو سراہتے ہوئے فراخ دلی سے کام لینا چاہئے تھا۔ پٹرول کی قیمت کم، شرح سود میں خاطر خواہ کمی کرنی چا ہیے تاکہ برآمدات جو بالکل ٹھس ہو چکی ہیں انہیں بڑھانے کیلئے مقامی صنعت کے منجمد پہیے کو دوبارہ چلایا جائے۔ مہنگائی کے منفی اثرات سے غریب آدمی کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف سے ہزار اختلاف لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ جب 2005ء میں خوفناک زلزلہ آیا جس میں قریباً ستر ہزار افراد جاں بحق ہو گئے تھے اور 2010ء میں سیلاب آیا تو اس وقت کی حکومتوں نے اس سے نبٹنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کئے، اس قسم کی مستعدی کی موجودہ حکومت سے توقع کی جا سکتی ہے۔