کورو ناوائرس کی موذی وبا نے ایک بار پھر اس احساس کو جاگزین کر دیا ہے کہ دنیا بھر میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ترہوتی جارہی ہے۔ امریکہ سمیت امیر ترین ممالک میں کورونا وائرس سے براہ راست یا بلاواسطہ متاثر ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، کاروباری افراد اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، لاکھوں ملازمتوں سے محروم ہوئے اور دیہاڑی دار مزدور بے روز گار ہو گئے۔ گویا کہ امیر اور غریب ممالک میں اس وبا سے نبٹنے کے لیے وسائل کا تفاوت پوری طر ح واضح ہو گیا ہے اور انہی ممالک میں امیر اور غریب کے معیار زند گی میں بڑھتا ہوا فرق بھی آشکار ہو گیا ہے۔ اس وقت بندہ مزدور کے اوقات کس قدر تلخ ہو چکے ہیں اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملتان میں ایک سکول میں قا ئم احساس پروگرام کے تحت رقم تقسیم کر نے کے مرکز میں پہلے دن ہی ضرورت مند وں کا ہجوم لگ گیا اور یکدم بھگدڑمچنے سے ایک ستر سالہ خاتون نذ یراں بی بی جاں بحق ہو گئی۔ دیگر بیس خو اتین اور بچے اس دھکم پیل میں زخمی ہو گئے جن کو ریسکیو 1122نے فوری طور پر وہاں سے نکالا۔ ایک عینی شاہد کے مطابق رقم تقسیم کرنے والے سنٹر کے سامنے علی الصبح ہی پانچ ہزار افراد جمع ہو گئے جیسے ہی گیٹ کھولا گیا تو کاؤنٹرز پرپہلے پہنچنے کی دوڑ میں دھکم پیل ہونے لگی۔ حسب توقع انتظامیہ اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ نذیراں بی بی دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئی ہے، اور یہی عذ ر لنگ صوبائی وزیر زبیر دریشک نے بھی مو قع پر پہنچ کرپیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم سنٹر پر انتظار گاہوں، سائے اور پینے کے پانی کا وافر انتظام تھا لہٰذا خاتون دھکم پیل کی وجہ سے نہیں بلکہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہاں پر موجود مستحقین کے لیے پینے کا پانی تھانہ کرسیاں، زیادہ تر مستحقین جن میں بزرگ خواتین بھی شامل تھیں کو گھنٹوں زمین پربیٹھناپڑا۔ پولیس میگا فون پر مسلسل اعلان کر رہی تھی قطار بنائیں اور جن چند خواتین نے قطار توڑنے کی کوشش کی خاتون پولیس اہلکاروں نے انھیں دھکے دیئے اور سخت رویہ اختیار کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ احساس پروگرام جس کے تحت بارہ ہزار روپے فی خاندان ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو دیئے جائیں گے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی ثابت ہو گا۔ یقینا کورونا وائرس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن ایک انتہا ئی گھمبیر مسئلہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس بحران سے نبٹنے کے لیے مقدور بھر کو شش کر رہے ہیں اسی بنا پر انھوں نے پاکستان اور بیرون ملک رہنے والے مخیرحضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کے لیے چندہ دیں۔ 92نیوز چینل نے جمعہ کی شام فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے خصوصی لائیو ٹیلی تھون کا اہتمام کیا جس میں وزیراعظم مہمان خصوصی تھے۔ اڑھائی گھنٹے میں دنیا بھر سے مخیر حضرات نے 22 کروڑ روپے سے زائد عطیات دینے کا اعلان کیا۔ شاید یہ میڈیا کی طرف سے ایک بڑی کامیاب کو شش تھی۔ وزیراعظم تو لاک ڈاؤن جلد از جلد ختم یا نرم کرنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ شدید کساد بازاری سے نبٹنا کسی حکومت کے بس کا روگ نہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ڈر ہے کہ کورونا وائرس کا گراف کم ہونے سے پہلے لاک ڈاؤن ختم کیا گیا تو بڑی تعداد میں جانیں جانے کا خطرہ ہے۔ یہ صورتحال محض پاکستان تک محدود نہیں ہے برطانیہ جس کے وزیراعظم بورس جانسن خود اس موذی مرض کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہیں۔ اٹلی میں دوسرے نمبر پر زیادہ اموات ہوئی ہیں، سپین، فرانس اور جرمنی سب اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں لیکن سب سے سبق آموز کیس امریکہ کا ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملک میں Covid 19 کا حملہ سنگین ترین ہے۔ اب تک قریباً 530000 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور اموات کی شرح بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہزارہزار افراد یومیہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد20500 کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ انھیں اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص نیویارک کی صورتحال بہت ابتر ہے جہاں 170600 سے زائدافراد وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور قریباً8700 اموات ہو چکی ہیں۔
"نیویارک ٹائمز" کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک طویل مضمون میں کہا ہے کہCovid19 وبا نے امریکیوں کو شاید یہ احساس دلا دیا ہو کہ وہ من حیث القوم سبھی وبا سے نبردآزما ہونے کی کو شش کر رہے ہیں لیکنساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی واضح ہوتی جا رہی ہے کہ امریکی قوم خطرناک حد تک بٹی ہوئی ہے۔ موقر جریدے کے مطابق ابھی شاید اس کا احساس نہ ہو لیکن جب بھی کورونا بحران سے نکلا ایک نئی طرز کے امریکہ کی تشکیل کی بنیا د پڑے گی۔ ایڈیٹوریل بورڈ کاکہنا ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں امریکی جمہوریت کا ڈھانچہ کمزور پڑ گیا اور1920ء کے بعد یعنی سو سال بعد ایسی صورتحال سامنے آ رہی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ قومی ادارے مسلسل انحطاط کا شکار رہے ہیں اور اقتصادی طاقت چند امریکیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اکثر امریکی مالی تحفظ اور مواقع سے محروم ہیں اور نسبتاً امریکہ کی دولت مٹھی بھر خاندانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق صرف گزشتہ دہائی میں امریکہ کے ایک فیصد گھرانوں کی دولت باقی امریکیوں کی 80 فیصد دولت سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایڈیٹوریل بورڈ نے اس ستم ظریفی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک طرف مقامی حکام عوام کو نصیحت کر رہے ہیں کہ آپ گھروں میں ہی رہیں لیکن لاکھوں امریکیوں کے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے، اسی بنا پر یہ لوگ کھلے آسمان تلے جہاں جگہ ملے سو جاتے ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت سیاہ فام اور گورے امریکیوں کے مابین رہن سہن اور آمدنی میں تفاوت ہے۔ مثال کے طور پر ریاست مشی گن جہاں کوروناوبا بہت پہلے حملہ آور ہوئی وہاں افریقی امریکیوں کی تعداد محض 14فیصد ہے لیکن ان میں ہلاکتوں کی شرح چالیس فیصد ہے۔ غریب اور امیر امریکیوں میں فرق کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک نجی مالیاتی ادارے کے ارب پتی سربراہ Kenneth Jaffe نے نیویارک کے مہنگے ترین علاقے سینٹرل پارک کے سامنے 23کروڑ 80 لاکھ ڈالر میں ایک اپارٹمنٹ خریدا جسے وہ سال میں اپنی نیویارک آمد کے موقع پر چند دنوں کے لیے استعمال کرے گا اس کے برعکس قریباً گیارہ کروڑ امریکی خاندان سر چھپانے کے لیے چھت خریدنے کے بھی متحمل نہیں۔ اداریہ نویسوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ یکدم نہیں ہوا یہ سب کچھ سالہا سال کے انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اس طویل اداریئے کے محض اقتباس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ کورونا وائرس دنیا کے لیےویک اپ کال، ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں غریبوں کی جس طرح بے توقیری ہوئی ہے، امیر اور غریب ممالک کو مل بیٹھ کر اس کا مداوا کرنا پڑے گا بصورت دیگر یہ طبقاتی عدم مساوات ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔