امریکہ اچانک پاکستان کا غمخوار بن گیا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہد اری پر اس کے اعتراضات نئے نہیں ہیں، سفارتی ذرائع سے پہلے بھی ان کا اظہار ہوتا رہا ہے اور اب امریکہ کی معاون خصوصی وزیرخارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے اپنے خدشات کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ چار ماہ قبل جب وہ پاکستان کے دورے پر آئی تھیں اس موقع پر بھی پاکستانی میڈیا پرسنزسے نجی اور آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں اسی قسم کے خیالات اظہار کیا گیا تھا۔ امریکہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ چین "سی پیک" کے پردے میں پاکستان کو لوٹ رہا ہے اور جن کڑی شرائط پر قرضے دے رہا ہے پاکستان واپس نہیں کر پائے گا۔ اسی طرح "سی پیک" منصوبوں سے روزگار چینی ورکروں کو مل رہا ہے پاکستانیوں کو کوئی فائد ہ نہیں پہنچ رہا۔ اسلام آباد میں متعین چینی سفیریاؤجنگ نے امر یکی عہدیدار کے اعتراضا ت کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ان کے مطابق سی پیک منصوبوں کے تحت 75 ہزار پاکستانیوں کو روزگار مل چکا ہے اور جس کرپشن کی وہ بات کررہی ہیں اس کا کوئی ثبوت بھی دینا چاہیے۔ چینی سفیر نے واضح کیا کہ چین پاکستان سے مغربی ممالک اور آئی ایم ایف کی طرح قرضوں کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ پاکستان مشکل میں ہو تو ہم مقررہ وقت میں قرض کی ادائیگی کا تقاضا نہیں کریں گے۔ امریکہ مخلص ہے تو آگے آئے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ واشنگٹن نے پاکستان کی امداد معطل کر رکھی ہے اور صدرٹرمپ نے مزید پابند یاں لگا دی ہیں۔ امریکہ اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو جی آیاں نوں اور چین نے بھی کہا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ نومبر 2016ء میں میاں نوازشریف کے دور میں اس وقت "سی پیک" منصوبوں کا جزوی آغاز ہواتھا جب چینی کارگو زمینی راستے سے گوادر پہنچا جسے یہاں سے افریقہ بھیجا گیا تھا۔ 2017ء میں سی پیک منصوبہ 62 ارب ڈالر پر مشتمل تھا جس میں گوادر پورٹ، موٹرویز، ہائی ویز، ریلویز اور بجلی کے منصوبے شامل ہیں، 33ارب ڈالر پاکستان میں انرجی نیٹ ورک بنانے پر خرچ کئے گئے۔ چین کے نجی شعبے کے تعاون سے 10400میگا واٹ سے زیادہ بجلی 2018ء تک پیدا ہو رہی تھی، جوآن لائن لانا تھی۔ بعض ماہرین اقتصادیات"سی پیک" کو یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی سرمایہ کاری کے مارشل پلان سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اس وقت کہاں تھا کہ جب پاکستان میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور ماضی کے حکمرانوں کے مسلسل تساہل سے عوام کی زندگی اجیرن اور اقتصادیات مفلو ج ہو چکی تھی۔ اس وقت چین ہی تھا جو پاکستان کی مدد کے لیے آیا۔ حالیہ برسوں میں ہنگامی بنیادوں پر ساہیوال، بھکھی، حویلی بہادر شاہ اور پورٹ قاسم جیسے منصوبے آن لائن آ ئے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کا پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم انتہائی ناقص ہے لیکن بجلی کی پیداوار مانگ پوری کرنے کے لیے کا فی ہے۔ لوڈ شیڈنگ قریباً قصہ پا رینہ بن چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان منصوبوں میں سے بعض میں امریکی فرم جنرل الیکٹرک کے ٹربائن نصب کیے گئے ہیں لیکن یہ کسی امریکی امداد کے طفیل نہیں بلکہ کاروباری شرائط پر حا صل کئے گئے ہیں۔ پاکستان کے سفیر برائے بیرونی سرمایہ کاری علی جہانگیر صد یقی نے بھی درست کہا کہ "سی پیک" سے امریکی کمپنیوں نے بھی استفادہ کیا ہے پاکستان کو تیسرے ملک کے حوالے سے دیکھنا بندکیا جا ئے، امریکہ زبردستی پاکستان کو چین کے ساتھ اپنی سٹرٹیجک اور تجارتی لڑائی میں جھونکنا چاہتا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی واقعی ہمالیہ جیسی بلند اور سمندر جتنی گہری ہے اور جب 2011ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ میں دورے پر تھا توانھوں نے اسے شہد سے میٹھی قرار دیا تھا۔ اگر ہم امریکی آسرے پر رہتے تو نہ ہم ایٹمی قوت بن سکتے تھے اور نہ ہی ایٹمی میزائلوں کی دوڑ میں بھارت سے آگے نکل سکتے تھے اورروایتی اسلحے کے حصول کے ساتھ نہ ہی جے ایف تھنڈر جہاز بنا سکتے تھے۔ چین تو پاکستان کا دامے درمے سخنے دوست ہے جس پر بھارت کو اکثر مروڑاٹھتے ہیں۔ حالانکہ چین جو تجارت کے معاملے میں سیا ست نہیں لاتا بھارت کا پاکستان سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور چینی صدر شی جن پنگ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو پیشکش کرچکے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ بھی "سی پیک" طرز پر اشتراک کر سکتے ہیں لیکن بھارت تو چین کے خلاف عملی طور پر امریکہ کا سٹرٹیجک اتحادی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی دوستی کی پینگیں کوئی نئی خبر نہیں ہے۔ امریکی صدر جارج ڈبلیوبش کے دور سے ہی امریکہ اور بھارت سٹرٹیجک حلیف بن چکے ہیں لیکن نہ جانے ہم کیوں امریکہ کو جپھی ڈال کر پھولے نہیں سماتے۔ وزیراعظم عمران خان امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ دوملاقاتوں کے بعد اس کج فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ امریکہ کشمیر کے معاملے میں بھارت سے ثالثی کرائے گا لیکن ہوا اس کے الٹ، بھا رت نے انتہائی شاطرانہ اندازمیں مقبوضہ کشمیر کی آ ئینی حیثیت ختم کرکے ہڑپ کرلیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ عین اس روز جب ایلس ویلز چین کے بارے میں پاکستان کو متنبہ کر رہی تھیں، امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کے افغانستان میں کرداراور2001ء سے تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو سراہا اور ساتھ ہی طالبان کی قید سے امریکیوں کو رہا کرانے میں کردار ادا کرنے پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ اداکیا۔ ہما ری خارجہ پالیسی کے کار پردازان کو یقیناً امریکہ کے سا تھ انتہائی خوشگوار سیاسی، سٹرٹیجک، اقتصادی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کی سعی کرنی چاہیے کیونکہ بہرحال واشنگٹن دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے علاوہ ایک جمہوری ملک ہے اور شہری آزادیوں، آزادی صحافت اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اس سے سیکھنا چاہیے۔
جہاں تک"سی پیک" کے حوالے سے موجودہ حکومت کا تعلق ہے، ان منصوبوں کے بارے میں بھی روایتی نالائقی کا ثبوت دیا گیا۔ 2018ء میں جیسے ہی پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی مشیر تجارت رزاق داؤد نے اسے گھاٹے کا سودا قرار دے کر ایک سال کے لیے موخر کرنے کا عندیہ دے دیا۔ مقام شکر ہے کہ منفی ردعمل کے بعد انھوں نے یہ کہہ کر ان کا فنانشنل ٹائمز کے سا تھ متذکرہ انٹرویو سیاق وسباق سے ہٹ شا ئع کیا گیا انھوں نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔ سابق وزیر منصوبہ بندی خسر وبختیار جنہوں نے جنوبی صوبہ محاذ کی کاٹھی پر سوار ہوکر فرمائشی طور پر یہ وزارت حاصل کی تھی لیکن "سی پیک" کے معاملات میں دلجمعی نہیں دکھائی اسی بنا پر چین بھی ناخوش تھا جس بنا پر وزیراعظم نے درست طور پر ان سے یہ وزارت واپس لے لی، یقیناً اسد عمران معاملات میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے ان کی طرف سے "سی پیک اتھارٹی" بنانے کی تجویز پیش کی گئی لیکن چونکہ میاں نوازشریف سی پیک منصوبے کی قیادت اپنے پاس ہی رکھنا چا ہتے تھے لہٰذا سی پیک کے معاملے میں فوج کے ساتھ اچھے تال میل کے باوجود انھوں نے اتھارٹی نہیں بننے دی۔ اب یہ اتھارٹی معرض وجود میں آگئی ہے اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور حال ہی میں سدرن کمانڈ کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ جوایک اچھی شہرت رکھنے والے انتہائی قابل افسر ہیں اس کے سربرا ہ ہونگے۔ یقیناً موجودہ حالات میں یہ اچھا قدم ہے۔ اس سے "سی پیک" کے بارے میں جو شکوک وشبہات پیدا ہوئے تھے اب اتھارٹی بننے کے بعد دور ہو جائیں گے۔