Dain Bazu Ke Hukumran
Arif Nizami92 News974
حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے مقبول لیڈر جو عموما ً دائیں بازو کے نظریات سے زیادہ متاثر لگتے ہیں، اختیارات کے لیے بے محابا استعمال سے نہیں چوکتے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک کے ووٹروں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ لبرل حکمران ڈلیور نہیں کر پائے اور ان کے ہوتے ہوئے ناقص گورننس اور کرپشن بڑھتی ہی گئی اور ان کا معیار زند گی بہتر نہیں ہو سکا۔ حال ہی میں برازیل میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جائر بالسونارو 55 فیصد ووٹ لے کر بھا ری اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ برازیل جو پاکستان کی طرح فوجی آمریت کا شکار رہا ہے کے نئے صدر وہاں کی فوجی حکومتوں کے دلدادہ ہیں اور انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک سابق جرنیل کو وزیر داخلہ بنا دیا۔ میڈیا کے بارے میں بھی انھوں نے یہ بات دو ٹوک انداز سے کہہ دی ہے کہ ان کے مخالف اخبارات کو سرکاری اشتہارات نہیں ملیں گے، وہ کرپشن اور بڑھتے ہوئے جرائم کے خاتمے کے نعرے پر منتخب ہوئے ہیں۔ شاید اسی بنا پر انہیں TropicalTrump بھی کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں اسی رجحان کی بنا پر ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں بطور صدارتی امیدوار ابتدائی طور پر کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا بھرپور طریقے سے امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور ان کی نسبتاً قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے اکثر ارکان خواتین، اقلیتوں اورسیاہ فاموں کے خلاف بات کرنے سے چنداں نہیں چوکتے تھے۔ وہ خطرناک اسلحہ کی کھلم کھلا فروخت کے حوالے سے امریکی گن لابی کے بھی حامی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نظریات بدلنے میں زیادہ دیر بھی نہیں لگاتے، وہ اکثر یہ دھمکی دیتے تھے کہ شمالی کوریا کے صدر کم جوآن کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے، انھوں نے شمالی کوریا کے آمر مطلق کم جوآن کا نام ایٹمی میزائلوں کو پھل جھڑیوں کی طرز پر چلانے کی بنا پر "راکٹ مین "رکھا ہوا تھا لیکن اب" راکٹ مین "ٹرمپ کے دوست بن چکے ہیں اور ان کے درمیان ایک سمٹ سنگاپور میں ہو چکی ہے جبکہ دوسری سمٹ کی تیاریاں ہیں اور بظاہر" راکٹ مین" نے شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام ترک کرنے کا بھی عندیہ دیا ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام تر بوالعجبیوں جن میں پاکستان کے خلاف سخت رویہ بھی شامل ہے کے باوجود ان کی پوزیشن اس لیے مضبوط ہے کہ امریکی اکانومی گزشتہ دو برسوں میں مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے اور ملازمتوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، ٹرمپ کے پیشرو صدور کے دور میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئی اصطلا ح Frenemyیعنی دوست بھی اور دشمن بھی متعارف ہوئی تھی۔ لیکن ٹرمپ نے پاکستان کو عملی طور پر دشمن (Enemy)قرار دے دیا۔ مزید یہ کہہ پاکستان کی فوجی اور مالی امداد بند کر دی ہے کہ ہم پاکستان کو کس لیے ڈالر دیں کہ وہ ہمارے دشمنوں کو افغانستان میں پالے اور پھر وہی امریکیوں کا خون بہائیں۔ جہاں تک پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے ان کا شمار بھی ایسے پاپولر لیڈروں میں کیا جا سکتا ہے جو بلا کم وکاست اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے سے نہیں ہچکچاتے۔ حالیہ انتخابات اگرچہ جن کے بارے میں کچھ سوالیہ نشان ہیں جو اپوزیشن کے علاوہ یورپی یونین کے غیر جانبدار مبصرین نے بھی اٹھائے ہیں، وہ ملک کے وزیراعظم ہیں اور وہ بھی کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کے قائل ہیں۔ سیاسی مصلحتوں سے بالا ہو کر وہ اس حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سب چور ہیں جن کی جگہ جیل ہے اور وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان بھی ایک آؤٹ آف باکس یعنی عمومیت سے ہٹ کر لیڈر ہیں۔ جب سے ان کی بشریٰ بی بی سے تیسری شادی ہوئی ہے ان کا شغف روحانیت کی طرف اور خاصے مذہبی ہو گئے ہیں۔ ٹیلی ویژن ناظرین اس وقت حیران ہوئے جب وہ نجی دورے پر سعودی عرب تشریف لے گئے تو وہ مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں جہاز سے اترے تھے اور وہاں ننگے پاؤں ہی گھومتے رہے۔ خان صاحب اگرچہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے ہیں لیکن ایسے لگتا ہے کہ وہ جمہوری اداروں پر کامل یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی انھیں پارلیمنٹ کی زیادہ پروا ہے۔ احکامات صادر کرنے میں وہ سرکاری قواعد وضوابط کی زیادہ پابندی نہیں کرتے، اس کی حالیہ مثال آئی جی اسلام آباد جان محمد کو تبدیل کرنا ہے۔ لیکن عمران خان کا ’کلہ، مضبوط ہے کیونکہ ان کی اپنے پیشروؤں کے برعکس فوجی قیادت سے مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس لحاظ سے ان کو یہ بات ازبر ہے کہ اگر مقتدر اداروں سے تال میل ٹھیک ہو توان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ میڈیا کے بارے میں بھی ان کا رویہ اتنا جمہوری نہیں ہے۔ اسی بنا پر پی ٹی آئی کی حکومت ایک ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کا مقصد اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر کاٹھی ڈالنا ہے۔ فلپائن میں بھی صدر Rodrigo Deuterte انتہائی دو ٹوک اور دبنگ شخصیت کے حامل ہیں وہ مجرموں بالخصوص ڈرگ مافیا کو گولی سے اڑا دینے کے قائل ہیں اور ایسا کرتے بھی ہیں اور بعض اوقات امریکہ جس کے فوجی اڈے بھی وہاں ہیں کو بھرپور انداز میں نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فلپائن میں سینکڑوں افراد کو ماورائے عدالت موت کے گھات اتارا گیا۔ جس زمانے میں وہ DAVAOصوبے کے میئر تھے، 1988ء سے 2016ء تک چودہ سوافراد کو موت کے گھات اتارا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ان ڈرگ سمگلروں کو خود گولی ماری، ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھی یہ رجحان جاری رہا۔ جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اس بات پر کھلم کھلا نکتہ چینی کی تو فلپائن کے صدر نے دھمکی دی کہ وہ اقوام متحدہ کو ہی چھوڑ دیں گے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے کے مصداق بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنی مخالف خالدہ ضیاء جو پہلے ہی ایک کرپشن کیس میں پابند سلاسل ہیں ایک نئے کیس میں انھیں مزید سات سال قید سنا دی ہے۔ میڈیا اور عدلیہ پر پابندیاں ان کے علاوہ ہیں۔ اب شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی کو جسے بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، بنگلہ دیش کو یک جماعتی ریاست بنانے اور اگلے الیکشن میں پھر منتخب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاپو لسٹ (مقبول) اور دبنگ لیڈروں کی اس کھیپ کا ایک ہی منترہ ہے کہ ہم چوروں ڈاکوؤں کو ختم کریں گے، اقتصادیات بحال کریں گے اور سابق حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی جگہ نئی مثبت پالیسیاں بنائیں گے۔ اس مقصد کیلئے اگر جمہوری اقدار کی روح کو بھی پامال کیا جائے تو وہ عوام کے وسیع مفاد میں ایسا کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ یعنی پہلے تو امریکہ کے سوا مذکورہ تمام ملکوں میں فوجی انقلاب برپا کر کے کہا جاتا تھا کہ ہم کرپٹ سیاستدانوں کو ختم کریں گے لیکن اب یہ کام جمہوریت کے نام پر ہی کیا جا رہا ہے۔