Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Dil Hai Ke Manta Nahi

Dil Hai Ke Manta Nahi

گزشتہ چند روز پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ’خون آشام، ثابت ہوئے۔ تازہ جھٹکا پیر کو اس وقت لگا جب مارکیٹس کھلنے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر کراچی سٹاک ایکسچینج 3.5 فیصد گر گئی۔ اس سے قبل جمعہ کو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں مزید ڈیڑھ فیصد اضافہ کردیا۔ اسی روز روپے کی قدر میں اتنی کمی ہوئی کہ ڈالر بلند ترین سطح 142پر پہنچ کر پھر واپس138روپے تک آ گیا گویا کہ ایک ہی دن میں روپے کی قیمت میں 3.8فیصد کمی واقع ہوئی۔ عمران خان کی حکومت کے پہلے سو دن میں روپیہ 12.4فیصد گر چکا ہے، اس موجودہ تشویشناک صورتحال کو سامنے رکھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ معیشت کی حالت پتلی ہے۔ مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ُاتار سرمایہ کاروں کا موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں تو روپیہ گرانے کی خبر ٹیلی ویژن سے ملی۔ بقول غالب: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے، بطور وزیراعظم ان کے فرئض منصبی میں شامل ہے کہ انہیں ہر اہم فیصلے کا علم ہو۔ اگر یہ بات ان کے لاڈلے وزیر خزانہ اسد عمر نے ان سے خفیہ رکھی تھی تو ان کی اس مجرمانہ غلطی کے بعد ان کا کابینہ میں رہنے کا کیا جواز ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کا اصرار ہے کہ ستوں خیراں ہیں، پاکستان میں پیپسی، کوکا کولا، شیل سمیت جوق درجوق غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اسد عمر فرماتے توہیں کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم بحران سے نکل آئے ہیں لیکن دل ہے کہ مانتاہی نہیں۔ اقتصادی محاذ پر پالیسی کنفیوژن کی بنا پر عجیب نفسانفسی کا عالم ہے، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی حکومت سے بجا طور پر گلہ تھا کہ ہر بات رازداری میں رکھی جاتی تھی لیکن اب صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔ مثال کے طور پر چین کے بارے میں عمران خان نے اپنے پہلے سرکاری دورے کے بعد نوید سنائی کہ بہت کچھ مل گیا ہے، فکر نہ کریں چین نے معاملات صیغہ راز میں رکھنے کا کہا ہے تاکہ دیگر ممالک بھی اس قسم کی فرمائش نہ کر دیں لیکن پاکستان میں چینی قونصل جنرل لانگ ڈنگ بن نے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ چین پاکستان کو کیش نہیں دے گا بلکہ مختلف سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ’سی پیک، کے تحت چین پہلے ہی پاکستان میں وسیع پیمانے پرسرمایہ کاری کر رہا ہے جس پر امریکہ کو مروڑ اٹھ رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا پیسہ چین کے قرضے اتارنے کے لیے استعمال ہوگا۔ پاکستان کو تواس وقت کیش کی ضرورت ہے جس بارے میں چین کی معذرت ہی لگتی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے بارے میں حکومت نے عجیب دوعملی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ پہلے کہا جاتا رہا کہ ہمیں آئی ایم ایف میں جانا ہی نہیں پڑے گا۔ بعدازاں موقف میں تبدیلی آئی کہ جائیں گے لیکن کوشش ہوگی کم سے کم قرضہ لینا پڑے اور باقی دوست ممالک سے کشکول بھر کر پورا ہو جائے گا۔ پھر کبھی وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ ابھی فیصلہ ہی نہیں کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے کہ نہیں جس کے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹس گر جاتی ہیں۔ حکومت سمیت سب کو معلوم ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہی پڑے گا۔ اسی بنا پر جمعہ کو سٹیٹ بینک کی طرف سے کمرشل بینکوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر روپیہ گرتا ہے تو گرنے دیں لیکن روپیہ اتنا گرا کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہوگئی اور وہی نسخہ جو اسحق ڈار استعمال کرتے تھے اور جس کی تحریک انصاف مذمت کرتی رہی آزمایا گیا یعنی ڈالر مارکیٹ میں پھینک کراس کی قیمت 142 سے 138 روپے تک لائی گئی۔ صاف ظاہر ہے کہ روپے کی قدر گرانا، شرح سود بڑھانا، بجلی اور گیس پر سبسڈی کم کرنا آئی ایم ایف کا ہی فرمائشی پروگرام ہے لیکن حکومت اس معاملے میں اس مصرع کہ ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، کے مطابق کام کر رہی ہے، عوام کو فروعی معاملات میں الجھا کر ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب ایک عام آدمی کی جیب خالی ہوجائے، مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگے، سرمایہ کار نیب، عدلیہ اور حکمرانوں کے دھمکی آمیز بیانات سے خوفزدہ ہو کر ادھر اُدھر بھاگ جائیں تو سٹنٹ بازی سے کیسے کام چل سکتا ہے۔ عمران خان کی حالیہ یہ تجویز کہ دیسی مرغی اور انڈوں سے معیشت بحال ہوسکتی ہے آج کل ہر جگہ موضوع سخن بنی ہوئی ہے۔ یقینا امریکہ کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے" نظریہ مرغی" دیا لیکن بل گیٹس مرغیاں پال کر امیر نہیں ہوا۔ مرغی پالنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا لیکن کیا اس طرح معیشت بحال ہوسکتی ہے؟ یقینا نہیں اور نہ ہی دنیا میں کہیں ایسا ہوا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ سرکاری رہائش گاہوں کومیوزیم اور یونیورسٹیاں بنانا مستحسن قدم ہے لیکن یہ بھی معیشت کو بحال کرنے یا غریب کے زخموں پر پھاہا رکھنے میں قطعاً ممد و معاون ثابت نہیں ہوسکتا۔ سابق صدر آصف زرداری کاکہنا ہے کہ کپتان سے معیشت سنبھلے گی اور نہ امیدیں پوری ہونگی، ان کے مطابق یہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ ان کا یہ بیان تو خیر ایسے ہی ہے جیسے ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی نظر آتا ہے۔ البتہ آصف زرداری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیاجا سکتاکہ حکومت جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں مخلص نہیں اور وہ ہو بھی کیسے سکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت اپنی اکثریت کھو سکتی ہے اور لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب صوبہ ایسا سٹنٹ ہے جسے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان خواہ یوسف رضا گیلانی ہوں یا خسرو بختیار اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ جنوبی پنجاب صوبہ کی ہی برکتیں ہیں کہ برادر خسرو بختیار جو پہلے مسلم لیگ (ن ) کے سرگرم رکن تھے، اب اپنی مرضی کی منصوبہ بندی کی وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کے برادر خورد مخدوم ہاشم جوان بخت پنجاب کے وزیر خزانہ ہیں، چلو کم از کم جنوبی پنجاب کے ایک خاندان کے احساس محرومی کی تلافی تو ہو چکی ہے۔ آصف زرداری کی پیشگوئی اپنی جگہ لیکن عمران خان کو جس انداز سے لایا گیا وہ کہیں جانے والے نہیں۔ قریباً تمام ادارے ان کے پیچھے کھڑے ہیں، اگر انھوں نے کوئی بڑی کھچ نہ ماری تواپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ آصف زرداری کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت ملک میں اپوزیشن اور میڈیا کا جوحشر ہو رہا ہے اس تناظر میں عمران خان کے لیے صرف حسن کارکردگی ہی چیلنج ہے۔ اپوزیشن تو اس وقت عدلیہ، نیب اور ایف آئی اے کے شکنجوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ این جی اوز کا بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تیا پانچا کیا جا رہا ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے حالیہ اجلاس میں گھٹن کے ماحول کی شکایت کرتے ہوئے میڈیا پر قدغن پر سب ہی نوحہ کناں تھے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس"مثبت ماحول" سے کچھ فائدہ اٹھائیں اوراپنے نالائق وزیروں کی چھٹی کراکے درست سمت کی پالیسیاں بنائیں اور ان پرعمل کریں اور خود بھی کرکٹ کی زبان میں ’لوز بال، نہ پھینکیں بصورت دیگر خدانخواستہ یہ نہ ہو کہ پا نچ سالہ ٹیسٹ میچ بقول آصف زرداری مدت سے پہلے ہار جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں جو انٹرویو سے زیادہ مخصوص اینکروں کے ساتھ فرمائشی پروگرام لگتا ہے۔ اگرچہ برادر حامد میر کے علاوہ کسی نے بھی وزیراعظم سے ٹف سوالات نہیں کئے لیکن بطور وزیراعظم ان کا سیاسی فلسفہ پوری طرح آشکار ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ میں بقائے باہمی تلاش کرنے کے بجائے اب وہ آرڈیننس کے ذریعے حکومت کرنے کی آمرانہ دور کی ناپسندیدہ روایت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ پر بھی اپنے یار غار زلفی بخاری سے اچھا سلوک نہ کرنے کے باعث برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں کہ آئندہ ان سے پوچھے بغیر وہ مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا۔ جہاں تک لاہور ہائیکورٹ کا گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے کے وزیراعظم کا متنازعہ حکم جس کی کوئی ُتک نظر نہیں آتی روک دیا ہے، یہ یقیناً خوش نہیں ہونگے۔ جہاں تک نیب کا تعلق ہے، اس بارے میں بھی ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے زیر اثر نہیں ہے لیکن وہ اس سرعت اور اہلیت کا مظاہرہ نہیں رہا جو بقول ان کے کرپٹ سیاستدانوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے کرنا چاہئے، وزیراعظم بیوروکریسی سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ عمران خان اپنے انٹرویو میں صرف فوجی قیادت سے خوش نظر آتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کے ہر فیصلے کو فوجی قیادت کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے حالانکہ جس کاکام اسی کو ساجھے کے مطابق سیاسی حکومت کو عوام کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے متذکرہ بالا رشحات فکر اس لحاظ سے تشویشناک ہیں کہ وہ گردان تو اداروں کو مضبوط بنانے کی کرتے ہیں لیکن وہ تمام تر جمہوری اداروں سے شاکی ہیں اور اپنے انداز میں انہیں فکس کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بارہا یہ فقرہ بھی دہرا چکے ہیں کہ ان کے مخالفین جمہوریت خطرے میں ہے کی گردان کرتے رہتے ہیں، ان کے تازہ ارشادات کی روشنی میں یہ خدشات بے بنیاد نہیں لگتے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran