یہ واقعی بڑی خبر ہے کہ کورونا وباجس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا تھا اور قریباً 6 لاکھ56 ہزار680 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں 5865 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں لیکن اب ہلاکتیں تھمنے لگی ہیں، پنجاب میں کئی ماہ بعد پیر کو کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، اس پر حکمران جماعت کے عمائدین اپنی فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں اور یہ ڈفلی بھی بجائی جا رہی ہے کہ اپوزیشن کی کورونا وائرس کے بارے میں حکمت عملی اورحکومت کے خلاف پراپیگنڈا غلط نکلا اور اب وہ اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ یقینا حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ کورونا کا بدمست ہاتھی قابو میں آ گیا ہے۔ تاہم اس بارے میں یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ایسا سائنسی فارمولہ ایجاد کر لیا ہے جس پر عمل درآمد کر کے بڑا تیر مار لیا حقائق سے روگردانی کے مترادف ہے۔ جب تک کوویڈ 19کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوتی ماسک پہننے، سماجی فاصلہ رکھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے سوا وبا سے بچنے کا کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ جن ملکوں اور ان کے عوام نے اس پر عمل کیا وہ سرخرو ہوئے اور جہاں احتیاطی اور مدافعتی تدابیر اختیار کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا ہے وہاں تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ امریکہ کی بعض ریاستوں میں جن کے گورنروں نے احتیاطی تدابیر کی مخالفت کی وہاں آ ج بھی کورونا پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔ جیسے نیویارک کے گورنر اینڈریو کومونے صدر ٹرمپ کی شدید مزاحمت کے باوجود احتیاطی اقدامات کیے وہاں ریکارڈ اموات کے بعد سخت لاک ڈاؤن کرنا پڑا جس سے نیویارک میں حالات معمول پر آرہے ہیں۔ پاکستان میں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹرظفر مرزا کے مطابق گزشتہ تین ما ہ میں کورونا سے متا ثرہ کیسز میں 80 فیصد کمی ہوئی ہے۔ یقینا اعدادوشما ر کے مطابق ایسا ہی ہے، اب روزانہ کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد چالیس سے بھی کم ہو گئی ہے، نئے کیسز بارہ سو کی حد تک سکڑ گئے ہیں اور جتنے کورونا کے تصدیق شدہ کیسزہیں قریباً اتنے شفایاب بھی ہو چکے ہیں۔
حکومت کو یقینا اس کا سیاسی طور پر کریڈٹ دینا چا ہیے لیکن ابھی آ گے امتحان اور بھی ہیں کیونکہ یہ وائرس ابھی ختم نہیں ہوا اور اس کا پہلا مرحلہ کمزور پڑنے کے بعد دوسرامرحلہ بھی آ سکتا ہے جو احتیا طی تدابیر اختیار نہ کرنے کی صورت میں ہمارے لیے تباہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر عوام کو عید منانے کی کھلی چھٹی دے دی گئی اور انھوں نے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ مری، نتھیاگلی سمیت سیاحتی مقامات پر عید کی چھٹیوں میں عوام حسب سابق ٹولیوں کی صورت میں چھٹیاں منانے پہنچ گئے۔ اس وقت تو نام نہاد سمارٹ لاک ڈاؤن کی تعریف میں دن رات ڈونگرے برسانے والے وزرا اور مشیران کے منہ میں گھنگنیاں پڑگئیں لیکن اچھی بات ہے کہ حکومت نے ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھا اور اس مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر سخت احتیاطی تدابیر اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مقام شکر ہے کہ اس پر کسی حد تک عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ مری کی ایکسپریس وے عید کی چھٹیوں سے پہلے ہی بند کر دی گئی ہے۔ اسی طرح دیگر سیاحتی مقامات بھی بند کردیئے گئے ہیں۔ مارکیٹس بھی پیر کی رات سے5 اگست تک بندکر دی گئی ہیں۔ ویسے اس موقع پر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کا منفی اثر غریبوں اور دیہاڑی داروں پر پڑے گا۔ سیاحتی مقامات کے وہ دکاندار اور وہاں کے رہائشی جن کا انحصار سیاحوں پر ہے ان کا روزگار بھی متاثر ہو گا لہٰذا ہم کوئی لاک ڈاؤن نہیں کر رہے لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ اتنی محنت سے جو گراف نیچے آیا ہے ماہرین کے مطابق دوبارہ اوپر جاسکتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے بھی سیاستدان اکٹھے نہیں ہو سکے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کاسلسلہ جاری ہے، سند ھ کی حکومت پر شدید لفظی گولہ باری جاری ہے۔ گورنر سندھ ہوں یا سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا علی حیدر زیدی اور فیصل واوڈا سب کی توپوں کے رخ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی طرف ہیں۔ حالانکہ مراد علی شاہ نے کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے۔ سند ھ حکومت کا نکتہ نگاہ یہ تھا کہ مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے بصورت دیگر خاصا نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ لاک ڈاؤن نرم کرنے سے جانیں تلف ہونگی اور اکانومی بھی بحال نہیں ہو گی لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا استدلال بھی انوکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کورونا وائرس کے اعداد وشمار ہی غلط ہیں اور محض کم ٹیسٹنگ کر کے یہ دکھایا جا رہا ہے کہ وبا کے پھیلاؤ اور تباہی میں کمی آ رہی ہے حالانکہ امپریل کالج آ ف لندن کے اعداد وشما ر کے مطابق بھی کورونا وائرس پسپائی کی طرف گامزن ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بھی اچھی خبر ہے لیکن ہمارے ہاں سیاست کی بھول بھلیوں میں حقیقت بھی گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کامیاب رہا ہے اور امپریل کالج کے مطا بق معاملات روبہ اصلاح ہیں لیکن چند ماہ پہلے یہی اسد عمر صاحب تھے جب کورونا وائرس اپنے عروج پر پہنچ رہا تھا حقیقت کو نہ مانتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہم نام نہاد بین الاقوامی اداروں کے من گھڑت اعداد وشمار کو نہیں مانتے۔
اچھے حکمرانوں کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ عملی طور پر عمران خان صاحب نے کورونا وبا کے حوالے سے شروع ہونے میں ہونے والی غلطیوں بالخصوص لاک ڈاؤن ختم کرنے کے نقصانات کا ادراک کر لیا ہے جس کے لیے تعریف کے مستحق ہیں اب پاکستان کو کورونا کے حوالے سے دو مراحل عبورکرنے ہیں ایک عیدالاضحی اور دوسرا محرم الحرام کا۔ دعا کرنی چاہیے کہ پاکستان ان سے سرخرو ہو کر نکلے۔ وائرس میں کمی کی غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام میں بھی آہستہ آہستہ یہ شعور کسی حد تک جاگزین ہواہے کہ احتیاط لازم ہے لیکن دوسری طرف انسانی فطرت کا بھی تقاضا ہے کہ لوگ مہینوں گھروں میں محبوس رہنے کی بنا پر اکتا جاتے ہیں اور جب انھیں موقع دیا جائے تو وہ احتیاطی تدابیر کو ایک طرف رکھ کر باہر نکل آتے ہیں۔ وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور کے عوام کو سرٹیفکیٹ دیا تھا کہ وہ احتیاطی تدابیر کا خیال نہیں رکھ رہے کیونکہ وہ جاہل ہیں لیکن امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں جب لاک ڈاؤن نرم کیا گیا تو وہاں کے پبوں، ریسٹورنٹس اور ساحلی علاقوں میں عوام ٹوٹ پڑے حالانکہ یہ وہ ملک ہیں جہاں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یقینا حکومت نے انسانی فطرت، اقتصادی قباحتوں اور کورونا وائرس کی تباہ کا ریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجموعی طور پر درست فیصلے کئے ہیں۔