Election Iltewa Sangeen Ghalti
Arif Nizami92 News854
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کر کے رخصت ہو چکی ہے اور نگران وزیراعظم جسٹس (ر)ناصر الملک حلف اٹھا چکے ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں حال ہی میں جنم لینے والی B.A.Pکی حکومتیں بھی رخصت ہو چکی ہیں۔ خیال یہی تھا کہ حکومتوں کی مدت پوری ہونے تک وزرائے اعلیٰ کا بھی انتخاب ہو جائے گا لیکن سندھ کے سوا دیگر تینوں صوبوں میں تادم تحریر نگران وزرائے اعلیٰ پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ نادیدہ قوتیں اور سیاسی جماعتیں عام انتخابات ملتوی کرانے کے درپے ہیں لیکن ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مصر ہیں کہ عام انتخابات میں کسی قسم کا التوا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جس کی صدارت چیئرپرسن بلاول بھٹو اورشریک چیئرمین آصف علی زرداری کر رہے تھے انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ عام انتخابات ہر صورت میں 25 جولائی کو ہونے چاہئیں اور ساتھ ہی اسی ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کہا لگتا ہے کہ کوئی سسٹم انتخابات کو التوا میں ڈال رہا ہے لیکن انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ" سسٹم "سے ان کی کیا مراد ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہنی مون چل رہا ہے۔ ان کی صدارت میں اجلاس میں "سسٹم "کے ذریعے عام انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوششوں کے حوالے سے تنقید کی گئی ہے۔ میاں نوازشریف نے بھی کہا ہے کہ کچھ حلقے انتخابات ملتوی کرانے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ واقعی دال میں کچھ کالاضرور ہے، جس انداز سے یکدم بلوچستان اسمبلی کو یاد آ گیا کہ جولائی میں گرمی بڑی سخت ہوتی ہے اور ووٹرز حج کے لیے گئے ہونگے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما، سینیٹ میں سابق اپوزیشن لیڈر اعتزازاحسن نے درست کہا ہے کہ حج تو اگست میں ہو گا نیز یہ کہ جولائی میں گرمی ہو گی تو اگست میں شدید بارشیں بھی ہو سکتی ہیں۔ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ الیکشن اکتوبر تک ملتوی کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ الیکشن کے التوا کے سوال پر تحریک انصاف کا استدلال حسب سابق کنفیوژ، نیز ایک قدم آ گے دو قدم پیچھے کے مترادف ہے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک ایک خط کے ذریعے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اصرار کرتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ گویا کہ جناب شیخ کا قدم یوں بھی اور یوں بھی۔ اگر الیکشن ملتوی ہو جائیں تو تحریک انصاف کو خاص اعتراض نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا الیکشن وقت پر کرانے کا موقف زیادہ بھرپور ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے کا غذات نامزدگی میں آرٹیکل 62اور 63کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو نئے تفصیلی فارم تیار کرنے کو کہا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کوکالعدم قرار دے دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یقینی طور پر انتخابات ملتوی کرنا پڑتے۔ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ نے 4 اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ قواعد کے مطابق ان اضلاع کی ازسرنو حلقہ بندیاں کرے۔ جسٹس (ر) ناصر الملک نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد دو ٹوک انداز میں انتخابات وقت پر کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی ارشاد کیا ہے کہ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے انتخابات 25جولائی کو ہی ہونگے، تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔ بال اب اعلیٰ عدالتوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کوٹ میں ہی ہے کہ انتخابات ملتوی نہ ہونے پائیں۔ انتخابات کے التوا سے غیر یقینی صورتحال پید اہو سکتی ہے کیونکہ وطن عزیز میں اب کوئی منتخب حکومت نہیں ہے اور مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ جلدازجلد ایک نئے مینڈیٹ کے ساتھ منتخب حکومت کو عنان اقتدار سنبھالنی ہو گی۔ اگر ایک بار انتخابات ملتوی ہوئے تو پھر دوبارہ کسی اور معاملے کو جواز بناکر ملتوی ہو سکتے ہیں جو جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔ سیاسی اداروں اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے نہ صرف انتخابات ہونے چاہئیں بلکہ وقت پر ہونے چاہئیں تاکہ انتقال اقتدار کا معاملہ بخوبی طے پا جائے۔ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کر کے، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلزپارٹی اپنی مدت پوری کر کے گھر جا چکی ہے۔ جبکہ بلوچستان میں تو B.A.Pکی حکومت رواں برس کے آغاز میں جنوری میں اقتدار میں آئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی کارکردگی کی بنا پر انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔ میاں شہبازشریف کا کہنا ہے کہ انھوں نے صوبے میں جتنا کام کیا ہے اور جس صاف وشفاف انداز سے پیسے بچائے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اپنے اقتدار کے آخری روز بیدیاں روڈ پر جدید ترین کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر کا افتتاح کیا۔ یہاں پر گردوں کی پیوند کاری کے مفت آپریشن شروع ہو گئے ہیں۔ کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ کا منصوبہ 20ارب روپے کا ہے۔ شہبازشریف نے بتایا کہ پراجیکٹ کے انچارج ڈاکٹر سعید اختر کوامریکہ سے ان کی اس شرط پر بلایا تھا کہ پراجیکٹ میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہو گی اور انھیں سرمایہ بھی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن اس ضمن میں بھی چیف جسٹس آف پاکستان نوٹس لے چکے ہیں۔ ہفتہ کو چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کس قانون کے تحت 20ارب روپے ہسپتال پرخرچ کیے گئے۔ تمام معاملات کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے گا، احتساب کے لیے تیار ہو جائیں۔ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور میاں شہبازشریف دونوں کا یہ کہنا تھا کہ نیب نے حکومت کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے اور کوئی بیوروکریٹ کام کرنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ہسپتال کے لیے جس ساخت کی جدید ترین مشین چاہیے تھی وہ سب سے مہنگی تھی۔ اسی بنا پر بیوروکریٹک رکاوٹوں سے بچنے کے لیے انھوں نے چندہ جمع کر کے یہ مشین منگوائی ہے۔ اس موقع پر خادم اعلیٰ پنجاب نے میڈیا سے بھی گپ شپ کی اور کہا ان کی پنجاب حکومت نے کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر بنانے کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے وہ صرف پنجاب کو نہیں پورے پاکستان کو بجلی فراہم کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ازراہ تفنن یہ بھی کہہ گئے کہ کل سے میں لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ چند روز قبل وزارت خزانہ کی طرف سے اخبارات میں اشتہار شائع ہوا ہے جس میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی 2013ء سے 2018ء کی معاشی ترقی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اشتہار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے اب پاکستان کا شمار ڈوبتی ہوئی نہیں بلکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہو رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ بات تو ٹھیک ہے کہ خالی بجلی کی پیداوار میں اضافہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے زیر اہتمام گردشی قرضے دگنا سے بڑھ گئے ہیں جو ایک ہزار ارب کے قریب ہیں۔ مزید بجلی کی ترسیل اور ڈسٹری بیوشن کا نظام فرسودہ کا فرسودہ ہی رہا۔ جس کی بنا پر لوڈشیڈنگ یا پاور بریک ڈاؤن اب بھی ایک بڑ امسئلہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اپنے آخری خطاب میں یہ کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ ان کے دور میں افراط زر کم رہا حالانکہ جب پیپلزپارٹی نے جب اقتدار چھوڑا تو تیل کی عالمی منڈی میں قیمت 150ڈالر فی بیرل تھی جو کم ہو کر 30ڈالر تک گر گئی اور اب پھر بڑ ھ کر 80ڈالر فی بیرل تک ہو چکی ہے۔ یقینا مسلم لیگ (ن) کی سبکدوش ہونے والی حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جی ڈی پی میں اضافہ ہوا۔ لیکن کیا واقعی بندہ مزدور کے اوقات کی تلخی میں کمی آئی؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔ دوسری طرف کارکردگی کے علاوہ میاں نوازشریف کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ یہ ہے کہ میاں صاحب کو غلط طور پر فارغ کیا گیا اور دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو توقع ہے کہ ان کی حکومت کی کارکردگی اور میاں نوازشریف کی شعلہ نوائی کی بنا پر وہ میلہ پھر لوٹ لیں لیکن شاید ان کی خوشگوار توقعات نقش برآب ہی ثابت ہوں۔