Ganga Gae To?
Arif Nizami92 News826
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے جن چارممالک سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کا دورہ کرنا تھا وہ کرآئے ہیں۔ گنگا گئے تو گنگا رام، جمنا گئے تو جمناداس، وہ چین گئے تو وہاں کے نظام سے متاثر ہوئے اور اب ملائیشیا کے دورے کے بعد وہ وہاں کے نظام کو پاکستان میں لانے کے خواہشمند ہیں۔ یقینا چین اور ملائیشیا دونوں ہی ہمارے قریبی دوست ہیں اور ان ممالک میں رائج سسٹمز میں بہت سی ایسی صفات ہیں جن پر عمل درآمد کی خواہش کی جا سکتی ہے تاہم یہاں یہ مد نظر رکھناضروری ہے کہ ان ممالک کے سیاسی نظام پاکستان سے مختلف ہیں اور کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن پر پاکستان عمل کرنا چاہے بھی تو نہیں کر پائے گا۔ مشرق بعید کے برعکس برصغیر کااپنا کلچر ہے۔ یہاں کی تاریخ میں جلسے، جلوس، دھرنے، بھوک ہڑتال اور راست اقدام ہمارے نظام میں رچا بساہے۔ اس قسم کی آزادی نہ چینی عوام کو میسرہے اور نہ ہی ملائیشیا کے کنٹرولڈ جمہوری نظام میں اس کی گنجائش ہے۔ مجھے1987ء میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ہمراہ ملائیشیا جانے کا موقع ملا۔ اچھی طرح یاد ہے جس روز ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے محمد خان جونیجو کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا وہ عید میلادالنبی کا دن تھا۔ عشائیے میں میز پرمیرے ساتھ ملائیشیا کے وزیر اطلاعات موجود تھے، اس بینکویٹ میں ایک خاتون مو سیقی کے آلے Chalo پر ساز بجا رہی تھیں۔ میرے سوال پر کہ آج عید میلادالنبی ہے لیکن مجھے اس حوالے سے کوالالمپور میں کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آئی تووزیر موصوف نے فرمایا کہ یہاں کے لوگ بہت مذہبی ہیں لیکن یہاں جلوس نکالنے کی اجازت نہیں ہے۔ ویسے بھی چینیوں کی کثیر تعداد یہاں بستی ہے یعنیSon of Soil اگر زیادہ نہیں تو قریباً برابر ہیں ہمیں ان کے بھی جذبات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ محمد خان جونیجو کے بعد مجھے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ہمراہ غیر جانبدار تحریک کے اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ ملائیشیا جانے کا اتفاق ہو ا۔ اس موقع پر برادر مشاہد حسین جواس دورے میں ساتھ تھے نے مجھ سے کہا کہ چلیں نائب وزیراعظم اور مہاتیر کے جانشین انور ابراہیم سے ملنے چلتے ہیں، ہم ان کی پارٹی PASکے سربراہ سے ملنے ان کے دفتر گئے۔ وہ انتہائی روشن خیال اور اسلامی ذہن رکھنے والی شخصیت تھے لیکن بعدازاں مہاتیر اپنے ہی جانشین انور ابراہیم کے خلاف ہو گئے اور نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ انھیں ہم جنس پرستی کے الزام میں کا ل کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا۔ اب حال ہی مہاتیر محمد اپنی پارٹی UMNO کو چھوڑ کر ایک نئے الائنسPHC کی طرف سے وزیراعظم بنے ہیں توانھوں نے پابند سلاسل انور ابراہیم سے صلح کر کے انھیں معاف کردیا اوروہ دوبارہ ان کے دست راست بن گئے ہیں لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا جتنی بار بھی ملائیشیا گیا اس ملک میں ترقی کی نئی منزلیں طے ہوتے دیکھیں۔ یقینا عمران خان کو اینٹی کرپشن سمیت دیگر معاملات جن سے ملک ترقی کرے ان کی تقلیدکرنی چاہیے لیکن اس بات کومدنظر رکھنا چاہیے کہ ملائیشیا میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے جہاں کامیڈیا بھی پوری طرح آزاد نہیں ہے لہٰذا ان کے سیاسی نظام کی یہاں پیوند کاری نہیں ہو سکتی اور شاید یہ عمران خان کا مدعا بھی نہیں ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے اس سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میں 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ چین گیا تو وہاں کمیونزم کا مکمل راج تھا، چوئن لائی انتقال کر چکے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو ان خوش قسمت سر براہان مملکت و حکومت میں شامل تھے جن سے چیئرمین ماؤزے تنگ نے اپنے آخری ایام میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت کے چین میں مردوزن ایک ہی طرح کے ماؤسوٹ میں نظر آتے تھے۔ سڑکوں پر کیمونسٹ پارٹی کے چند عہدیداروں کو چھوڑ کر کسی کی کوئی گاڑی نہیں تھی لیکن آج کے چین میں بیجنگ، شنگھائی اور دیگر شہروں میں ریل پیل، رونق کسی مغربی ملک سے کم نہیں۔ پر شکوہ، بلند وبالا عمارتوں اور ٹریفک کی ریل پیل ہر بڑے چینی شہر کا امتیاز بن چکی ہے۔ ٹیکنالوجی، دفاعی اوراقتصادی طاقت میں چین بہت آگے نکل گیا ہے حتیٰ کہ جاپان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کو یہ مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ ہم سے بھی آگے نہ نکل جائے۔ چینی لیڈر ڈینگ ژیاؤ پنگ کے ویژن کے مطابق کیمونزم اب بھی چین کا نظریہ ہے لیکن اقتصادیات سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے۔ گویا کہ اپنی نظریاتی اساس کو برقرار رکھتے ہوئے چین نے اقتصادیات کے نئے سرمایہ دارانہ نظام کواپنا کر بہت ترقی کی ہے اور مالی فوائد کے لیے وہ ہر ملک کے ساتھ تجارت کرنے کو تیار ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کا سرحدی تنازع ہے لیکن اس کے باوجود اس کی بھارت کے ساتھ تجارت پاکستان سے زیادہ ہے۔ یہی حال تائیوان کا ہے جسے چین اپنا حصہ قرار دیتا ہے لیکن دوسری طرف چینی نظام میں جسے ہم جمہوریت گردانتے ہیں اس کی کوئی گنجائش نہیں یقینا ہم بھی اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اقتصادی، تجارتی اور سٹرٹیجک معاملات میں چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ملائیشیا میں بھی وزیر اعظم عمران خان پاکستانی اپوزیشن پر بھرپور برسے اور کہا کہ وہ انھیں جیل میں ڈال کر دم لیں گے کیونکہ ان کے مطابق اپوزیشن کے یہ رہنما جمہوریت کے نام پر اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو لیکن خان صاحب کو قوم کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ ان کے ویژن میں جمہوریت، جمہوری نظام، شہری آزاد یاں اور اپوزیشن کے لیے جیو اور جینے دوکی پالیسی شامل ہے اوراگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو یہ فسطائیت کی طرف مراجعت کہلائے گی۔ حال ہی میں لاہور کے الحمرا ہال میں فیض فیملی نے حسب روایت فیض فیسٹیول کابڑے تزک واحتشام سے اہتمام کیا۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ فیض فیسٹیول میں لبرل خیالات رکھنے والے عام اورغریب لوگوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور شاید اسی لیے روشن خیال نظریات رکھنے والے فیض احمد فیض کی یاد منانے والوں میں اشرافیہ پیش پیش نظر آتی ہے۔ اس مرتبہ میلے کے سٹار بھارتی شاعر، لکھاری جاوید اختر اور ان کی اہلیہ شبانہ اعظمی تھیں محترمہ نہ صرف خود ایک ایکٹر ہیں بلکہ ان کا تعلق بھی بھارت کے ایک پروگریسوخاندان سے ہے۔ یہ وہی جاوید اختر ہیں جو پچھلی مرتبہ پاکستان آئے تھے توانھوں نے غالباً رائل پام میں تقریب میں پاکستان کو برا بھلا کہا تھا۔ لگتا ہے کہ نام کے مسلمان جاوید اختر ہوں خواہ ایم جے اکبر جب تک وہ پاکستان کو گالی نہ دے لیں، بھارت میں ان کی حب الوطنی کوشک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ تو ان کی مجبوری ہے لیکن ہماری کیا مجبوری ہے کہ ہم ایسی شخصیات کو’جی آیاں نوں، کہیں۔ میلے کے دوران جب جاوید اختر سے کہا گیا کہ وہ فیض صاحب کاکلام سنائیں تو حاضرین کی کثیر تعداد نے کہا کہ نہیں، نہیں۔ آپ اپنا کلام سنائیں پھرانھوں نے جاوید اختر کے کلام پر انھیں خوب داد دی۔ گویا کہ فیض سے زیادہ انھیں جاوید اختر میں دلچسپی تھی۔ فیض احمد فیض جنہیں شرافیہ نے فیشن کے طور پر اپنایا ہوا ہے کا گہرا تعلق دیکھنے کامجھے اس وقت موقع ملا جب برادرم اعتزاز احسن نے مجھے میلینم سال 2000ء کے موقع پر پرل کانٹی نینٹل بھوربن میں مدعو کیا۔ ہوٹل کے مالک صدرالدین ہاشوانی اس وقت صحت مند تھے، انھوں نے رمضان المبارک کے مہینے کے دوران بند ہوٹل کو اس تقریب کے لیے کھولا جس میں چیدہ چیدہ قومی و سفارتی شخصیات موجود تھیں۔ اس موقع پر وزیر خزانہ شوکت عزیز بھی موجود تھے۔ میلینم کے ڈنر اور آتش بازی کے بعد چند محدود شخصیات کے لیے ہوٹل کے ایک سویٹ میں اقبال بانو کے گانے کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال بانو نے محفل کو خوب گرمایا، محفل میں انھوں نے فیض کا مشہور زمانہ کلام سنایا:ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گےلازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گےوہ دن کہ جس کا وعدہ ہےجو لوح ازل میں لکھا ہےجب ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گےاس موقع پر حاضرین بھی اقبال بانو کے ساتھ گنگناتے رہے، جب رات بہت گزر گئی تو تقریب کی مدارالمہام اس وقت کی پی ٹی وی کی ایم ڈی رعنا شیخ نے کہا کہ ہم اقبال بانو کو خدا حافظ کہتے ہیں۔ حاضرین نے بھرپور مطالبہ کیا کہ وہ یہ کلام دوبارہ سنائیں اس پر اعتزاز احسن برجستہ یہ کہنے سے نہ رہ سکے کہ ہم تو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں اور اقتدار کوئی اور لوٹ کر لے جاتا ہے، چلیں اب گھر چلیں۔ ظاہر ہے اس برجستہ ریمارک پر شوکت عزیز لاجواب سے ہو گئے۔ فیض کے کلام پر سر دھن کر یہ اشرافیہ اپنی بڑی بڑی موٹروں میں سوار ہو کر گھر چلی جاتی ہے اور اگلے برس کے نئے فیض میلے اور اس میں مدعو بھارتی فنکاروں کا بے تابی سے انتظار کرتی رہتی ہے۔