سابق مرد آہن جنرل پرویز مشرف کوجنہوں نے 9 برس تک پاکستان پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ہائیکورٹس کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عد الت کے 2ججز نے سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا جبکہ تیسرے فاضل جج جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے لہٰذا انھیں بری قرار دیا جاتا ہے۔ مشرف کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت جسٹس وقار احمد سیٹھ، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تھی۔ تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کو پھانسی دینے کے لیے پاکستان لایا جائے اور اگر پھانسی سے پہلے وہ طبعی موت مر جائیں تو ان کی نعش کو گھسیٹ کر اسلام آباد کے ڈی چوک تک لایا جائے اور تین روز تک وہاں لٹکایا جائے۔ جسٹس شاہد کریم نے بھی مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سخت ترین سزا سنائے جانے کے فوری بعد جی ایچ کیو میں اعلیٰ فوجی قیادت کا اجلاس ہوا جس کے بعد ڈی جی، آئی ایس پی آر نے مختصر اعلامیے میں کہا خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواج پاکستان میں شدید غم وغصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ پرویز مشرف آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدر پاکستان رہ چکے ہیں، انہوں نے 40 سال سے زائد عرصہ پاکستان کی خدمت کی ہے اور ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں، وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے۔ ترجمان پاک فوج کی جانب سے مزیدکہا گیا مشرف کے خلاف کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے اور جنرل (ر) پرویزمشرف کو اپنے دفاع کا بنیادی حق بھی نہیں دیا گیا۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پرکی گئی اور کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے لہٰذا افواج پاکستان توقع کرتی ہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا یقینا پرویز مشرف غدار نہیں ہیں۔
پرویز مشرف کے خلاف اس فیصلے نے ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کچھ ماہرین قانون اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ واقعی مقدمے میں بڑی سرعت کا مظاہرہ کیا گیا اور خود پرویزمشرف نے بستر علالت سے اپنے بیان میں اسے ذاتی عناد کا شاخسانہ قرار دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ ذاتی عناد کس کا ہے۔ افواج پاکستان نے پرویزمشرف کے خلاف اس فیصلے کی پوری اونرشپ لے لی ہے حالانکہ سابق ڈکٹیٹر کے غیر قانونی اقدام کے تحت3 نومبر 2007ء کو تمام ججوں کو فارغ کر کے ہاؤس اریسٹ کر دیاگیا تھا، ٹیلی ویژن چینلز بند کئے گئے اور آئین کو معطل کر دیا گیا تھا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ پرویز مشرف نے پہلے تو 12 اکتوبر 1999ء کوکو، کر کے نوازشریف کی حکومت برطرف کر کے آ ئین پاکستان کو روند ڈالا اور بعد ازاں 3 نومبر 2007ء کو پھر"کو" کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ پرویزمشرف کو نظر آ رہا تھا کہ وہ تیسری بار صدر منتخب نہیں ہو پائیں گے اور اس حوالے سے ان کا یہ اقدام سیاسی تھا، اس کا مقصد خود کو تیسری بار صدر منتخب کرانا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا تھا۔ اسی بنا پر جنرل پرویز مشرف نے این آر او دے کر بے نظیر بھٹو اور بعدازاں نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار کی۔
یہ درست ہے کہ صدر مشرف نے آئین توڑا جس کی آرٹیکل 6 کے تحت سزا موت ہے۔ لیکن آج کے دور میں مغربی جمہوری معاشروں میں سزائے موت کو ویسے ہی معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن ایک جج کا یہ کہنا کہ ان کی نعش کو گھسیٹا جائے کسی ایسے معاشرے میں جو مہذب، جمہوریت اور قانون کا دم بھرتا ہے ایسی سزا کو محل نظر ہی سمجھا جائے گا۔ اسی بنا پر بعض وکلا نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ فاضل جج جنہوں نے نعش گھسیٹنے کی بات کی ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں درست کہا ہے کہ پرویزمشرف غدار نہیں ہیں لیکن انھوں نے آئین شکنی تو کی ہے اور یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ پرویز مشرف ان معنوں میں غدار یا غیر محب وطن ہیں جیسے کہ پاکستان میں عموماً غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی فیکٹریاں غداری کا الزام لگاتی ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کی حب الوطنی کو کسی نے چیلنج نہیں کیا اور یہ بھی درست ہے کہ انھوں نے اپنی دانست میں پاکستان کی بہت خدمت کی ہو گی لیکن جس کا کام اسی کو ساجھے یعنی کسی جرنیل کا یہ کام نہیں کہ وہ بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کر لے۔ دراصل آرٹیکل 6 کے ساتھ سنگین غداری کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس کا تعلق آئین شکنی سے ہے نہ کہ حب الوطنی سے۔ یہ بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ کیا آئین شکنی کسی غیر ملکی ایجنٹ ہونے سے کم نوعیت کا جرم ہے۔ جنرل مشرف یقیناً آرمی چیف رہے ہیں لیکن وہ ایک سیاستدان بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنا رکھی ہے جس کے پلیٹ فارم سے انھوں نے چترال سے انتخابات میں حصہ بھی لیا اور جیتا بھی۔ فوج کا انصاف کا اپنا نظام ہے جس کے تحت حال ہی میں ایک بریگیڈئیر کو سزائے موت دی گئی جبکہ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کی مراعات ضبط کی گئیں لیکن پرویزمشرف اپنے اقدام کے حوالے سے یقیناً آئین، قانون اور عدالتوں کا سامنا کرنے کے پابند ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت کے کورکمانڈرز، پرویزمشرف کو تحفظ فراہم کرنے والے دیگر افسران آئین شکنی کے فیصلے میں شریک ملزم کے عمل اور قدم میں برابر کے شریک ہیں۔ تفصیلی فیصلے میں اس نکتہ چینی کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پرویزمشرف کا فیصلہ عجلت میں یا انھیں صفائی کا موقع دیئے بغیر کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ مشرف کو عدالت کے سامنے پیش نہ کرنے کے سلسلے میں دانستہ طورپر تاخیر حربوں سے کا م لیا گیا۔ استغاثہ نے ستمبر 2014 ء میں ہی شواہد مکمل کر کے اپنا کام پورا کر لیا تھا لیکن سابق صدر کے تاخیری حربوں کی وجہ سے کیس پانچ سال تک لٹکا رہا۔ جس انداز میں وہ 2 جنوری 2016ء کو عدالت میں پیش ہونے جا رہے تھے تو راستے میں انھیں دل کی تکلیف کو جواز بنا کر انہیں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آ ف کارڈیالوجی منتقل کر دیا گیا اور دوماہ تک علاج کے بہانے آرام کرتے رہے جس کے بعد ملک سے باہر چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا کہ ایک مفرور کا انصاف کے شکنجے سے بچنے کے لیے دانستہ طور پر اعلیٰ ترین اداروں کی معاونت سے بیرون ملک چلے جانا کسی قدر ستم ظریفی کے زمرے میں ہی آئے گا۔
پرویزمشرف کے ٹرائل اور تفصیلی فیصلے کے حوالے سے ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ مشرف کے وکلا کی ٹیم اور نام نہاد استغاثہ ایک ہی صفحے پر ہیں، اس میں تو کوئی زیا دہ حیرانگی کی بات نہیں کیونکہ عمران خان کی کابینہ مشرف کی باقیات سے بھری پڑی ہے۔ ان کے اس وقت کے وکیل فروغ نسیم اب وزیر قانون ہیں، اس وقت کے ڈی جی آئی بی بریگیڈئیر اعجاز شاہ اب وزیر داخلہ ہیں جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور بھی ان کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں لیکن اس سے بھی حیران کن امر یہ ہے کہ اس وقت مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کے ماضی کے متعدد بیانات اور انٹرویوز وائرل ہوئے ہیں جن میں وہ پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت مقدمے چلانے اور سزا کی حمایت کر رہے ہیں نیز یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے حکومت کرنا نہیں۔ لیکن اب اپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر شاید انہوں نے اپنا نظریہ بدل لیا ہے۔
خان صاحب نے کورکمیٹی کی میٹنگ میں ویسے تو درست کہا ہے اداروں میں تصادم ملکی مفاد میں نہیں ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ ہم آہنگی بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے، یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے۔ دراصل پاکستان کی سیاسی تاریخ انتہائی تلخ ہے، ماضی میں عمومی طور پر عدالتیں اور فوجی قیادت قر یباً ایک ہی صفحے پر رہی ہیں اور ہر طالع آزما نے اعلیٰ عدالتوں کو پی سی او اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے کس کر رکھا۔ اب یہ نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ عدالتیں حکومت اور فوج کے بارے میں آزادی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اس ضمن میں عدلیہ کو بھی پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ چونکا دینے والی صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے جو اپنے بھائی کے علاج کے بہانے لندن میں فروکش ہیں اس معاملے میں معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جمعہ کو اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ کے خلاف ایک مذموم اور گھناؤنی مہم شروع کر دی گئی ہے لیکن فتح بالآخر سچ کی ہو گی۔ کاش ایسا ہی ہوتا کیونکہ وطن عزیز میں تو زیادہ عرصہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہی کارفرما رہا ہے۔