Hakoomti Mode Main Ajain
Arif Nizami92 News1200
وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز قوم سے خطاب میں اپنے ایجنڈے کا اعلان کر دیا جسے ملک بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ عمران خان کا خطاب ان کے پیش رو وزرائے اعظم سے خاصا مختلف اور منفرد تھا، ویسے تو پاکستان میں اقتدار پر شب خون مارنے والے ہر فوجی آمر کے افتتاحی خطاب کا لب لباب یہی ہوتا تھا کہ کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کو دیوالیہ کر دیا اور ان بدعنوان سیاستدانوں سے قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی وصول کی جائیگی لیکن عملی طور پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد الٹی گنگا بہنا شروع ہو جاتی تھی اور فوجی آمر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ان سیاستدانوں کو جو ان کے سامنے سجدہ سہو کرنے کو تیار ہو جاتے تھے اپنے ساتھ ملا لیتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف جو پاکستان کے آخری فوجی آمر تھے، نے مسلم لیگ ق اور پیٹریاٹس بنا کر انہی لوٹوں کی مدد سے حکومت کی۔ تاہم عمران خان پہلے منتخب حکمران ہیں جنہوں نے اپنے خطاب میں کرپشن کے خاتمے اور سادگی کے حوالے سے کچھ عملی باتیں بھی کیں۔ یقینا گیارہ سو کنال پر پھیلے وزیراعظم ہاؤس کو ریسرچ یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا اعلان ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ اسی طرح گورنر ہاؤسز کے پر تعیش اور عالی شان محل گورنروں کے کام نہیں آئینگے۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں کچھ دلچسپ اعدادوشمار بھی پیش کئے ہیں، ان کے مطابق وزیراعظم کے پاس 524 ملازمین کی فوج ظفر موج اور88 گاڑیاں ہیں جن میں 33 بلٹ پروف ہیں، ہیلی کاپٹر اور جہاز ان کے علاوہ ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ نیلام کر دیا جائیگا۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی لمبی چوڑی رقم وصول نہ ہو، تاہم ایسے اقدامات سے ان ناقدین کا منہ تو بند ہو گا جو ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ حکمران عوام سے تو قربانیاں مانگتے ہیں لیکن خود قومی دولت پر عیاشیاں ترک نہیں کرتے۔ میاں نوازشریف نے عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کے حوالے سے دعوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے اور ان کے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں، شاید ایسا ہی ہو لیکن جن لوگوں نے ٹیلی ویژن پر نوازشریف کی بطور وزیراعظم شان وشوکت اور طنطنہ دیکھا ہے انہیں اچھی طرح علم ہے کہ جدید ترین بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز گاڑیوں کا قافلہ ان کے ہمراہ چلتا تھا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی جاتی امرا والی اقامت گاہ بھی سادگی کی تصویر نہیں پیش کرتی تھی۔ عمران خان نے یہ اعلان کر کے اچھا کیا کہ وہ بنی گالہ میں ایکڑوں پر پھیلی اپنی اقامت گاہ میں رہنے کے بجائے وزیراعظم ہاؤس میں ملٹری سیکرٹری کیلئے مختص رہائش گاہ کو استعمال کرینگے۔ وزیراعظم نے دو گاڑیاں اور دو ملازم رکھنے کا قابل ستائش فیصلہ کیا ہے لیکن یہ شاید سکیورٹی کے تقاضوں کی بنا پر قابل عمل نہ ہو۔ دراصل ہمارے ہاں انگریز بہادر کے نظام کے تحت حکمران اسے ہی مانا جاتا ہے جو شاہانہ پروٹوکول رکھتا ہو۔ ہمارے فیوڈل کلچر کا نظام بھی ایسا بن گیا ہے کہ جب تک حکمران کروفرکا مظاہرہ نہ کرے لوگ اسے حکمران ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایک دور میں جب ملک معراج خالد عبوری وزیراعظم تھے تو وہ ذاتی گاڑی میں ایسے ہی گھومتے پھرتے اور دوستوں سے ملنے کے لیے نکل جاتے تھے تو انھیں باور کرایا گیا کہ یہ وزیراعظم کے منصب کی شان وشوکت کے منافی ہے لیکن وہ سٹاف کی سنی ان سنی کر دیتے تھے لہٰذا میڈیا سمیت لوگ انھیں اصل تے وڈا وزیر اعظم مانتے ہی نہیں تھے۔ اب بھی عمران خان کے ارد گرد سٹاف انھیں نام نہاد ’بلیوبک، کا حوالہ دے کر ڈرائے گا کہ یہ پروٹوکول اور اللے تللے ان کے منصب کا تقاضا ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ایسے لوگوں کی رائے کو رد کرکے ’سادگی بک، کے لیے نئے قواعد وضوابط وضع کرتے ہیں یا ان کی فرمائشوں کے سامنے سرنڈر کر جاتے ہیں۔ اس قسم کی خبریں میڈیا میں لیک کر کے کہ دہشتگردوں نے بنی گالہ کا رخ کر لیا ہے، وزیراعظم عمران خان کو پہلے ہی ڈرانا شروع کر دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کا یہ پروٹوکول اور شاہانہ انداز انگریز بہادر نے اپنی نو آبادیوں میں حکمرانی کا رعب ودبدبہ بنانے کے لیے رائج کیا تھا لیکن برطانیہ اور یورپ میں اس قسم کا پروٹوکول نہیں پایا جاتا نہ ہی نوکروں، چاکروں کی فوج ظفر موج کورنش بجا لانے کے لیے ہوتی ہے، سکینڈے نیویا کے ممالک میں تو بعض وزرائے اعظم اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ بھارت جہاں اب بھی برطانوی راج کی باقیات ہیں سرکاری تقریبات کی شاہانہ رسومات کو اب بھی برقرار رکھا ہوا ہے لیکن وہاں بھی بھارتی وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان سالہا سال تک بھارت میں بننے والی ایمبسڈر کار استعمال کرتے رہے۔ عمران خان نے سٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین کو کفایت شعاری کا مشیر بنایا ہے۔ دیکھئے عشرت حسین کیا گل کھلاتے ہیں کیونکہ ان علامتی اقدامات کے باوصف پاکستان کی دیوالیہ اکانومی کو بحال کرنے کے لیے بہت سے بنیادی اقدامات کرنا ہونگے۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں حکومت کرنا پھولوں کی سیج نہیں، خان صاحب نے سابق حکومتوں کی ترجیحات کو بدلنے کا عندیہ دیا ہے۔ واقعی صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی پر خرچ کی جانے والی رقم شرمناک حد تک کم ہے، اسے بڑھانے کیلئے ملک کی دفاعی استعدادکم کئے بغیر دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کفایت شعاری کرنا پڑے گی۔ مشیر برائے کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین اپنا کام خوب جانتے ہیں، انہیں ایسا جامع منصوبہ بنانا چاہئے جس پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہو۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں ٹیکسوں کے نظام کا ذکر کیا۔ انھوں نے اس بات پرحیرت کا اظہا ر کیا کہ 22کروڑ آبادی میں صرف 8لاکھ ٹیکس دینے والے ہیں۔ یقینا ایک شرمناک صورتحال ہے اکثرطبقے جن میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے براہ راست ٹیکس دینا گناہ سمجھتا ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کا حصہ دس فیصد سے زیادہ نہیں ہے جو فعال معیشت کے لیے کم از کم دوگنا ہونا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم واقعتاً ایف بی آر سے لے کر ٹیکسیشن کے پورے نظام کی اوور ہالنگ کی سیاسی قوت رکھتے ہیں یا نہیں؟ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ارکان زرعی آمدن پر برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں، کیا برسراقتدار جماعت اپنی ہی ’سپورٹ بیس، پر ٹیکس لاگو کر پائے گی یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ خان صاحب نے انتہائی خوش آئند فیصلے کا اعلان کیا کہ وہ بطور وزیراعظم کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ امید ہے کہ وہ اپنے وزراء اور ٹیم پر بھی یہ پابندی عائد کر دیں گے۔ وطن عزیز کے جسد سیاست کی ایک بہت بڑی لعنت سیاست اور ذاتی کاروبار کو گڈ مڈ کرنا ہے۔ شریف برادران اور چوہدری برادران نے بڑے دھڑلے سے سیاست بھی کی اور تجارت بھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اربوں پتی بن گئے۔ اس ضمن میں بہت سی اور مثالیں بھی موجود ہیں، ہوتا یہ چلا آ رہا ہے کہ سیاستدان کہتے ہیں کہ ہم تو کاروبار نہیں کر رہے ہمارے بچے کاروبار کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مغرب کے برعکس وطن عزیز میں مفادات کے ٹکراؤ کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اس بارے میں بھی تحریک انصاف کے سربراہ کو غور کرنا ہوگا۔ عمران خان نے بڑے چونکا دینے والے اعداد وشمار پیش کیے انھوں نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے ہر سال اربوں ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر منتقل ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے ایک ایسی ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا جو چوری ہو کر باہر جانے والے پیسے کو واپس لائے گی۔ ماضی میں اس قسم کے امراض کا تریاق نہیں کیا جا سکا۔ پرویزمشرف نے بھی آتے ہی بڑی کاوشیں کی تھیں لیکن انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دیکھئے تحریک انصاف کی قیادت کے اقدامات کیا رنگ لاتے ہیں۔ انھوں نے کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کے لیے ریکور ہونے والی رقم میں 20یا 25 فیصد انعام دینے کے لیے قانون سازی کا بھی اعلان کیا۔ عمران خان کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے شب وروز محنت کرنا پڑے گی یہ بات تو بڑی خوش آئند ہے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے لیکن جہاں تجارتی خسارہ قریباً تین ارب ڈالر ماہانہ تک پہنچ گیا ہے اور بجٹ خسارہ بھی آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بقول ان کے گزشتہ برسوں میں غیر ملکی قرضے کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ 2008ء میں وطن عزیز پر6 ہزار ارب روپے کے قرضے تھے جو 2013میں 15ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے، بدقسمتی سے اب 2018ئمیں قرضوں کا یہ بوجھ 28 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا پڑے گا۔ اسی طرح اس بھاری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قانون سازی بھی کرنا ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پرانے چہرے ہی نئی کابینہ میں ہیں۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں بنیادی ایشوز کا ذکر تک نہیں کیا۔ خاص طور پر یہ نہیں بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی حکمت عملی کیا ہوگی، سی پیک اور مسئلہ کشمیر پر بھی کوئی بات نہیں کی اور اپوزیشن کے متفقہ مطالبہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن کی تشکیل کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ مشاہد حسین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ سہواً ہوا ہے یا دانستہ، وزیراعظم کو اس حوالے سے وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر قانون سازی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کار بہتر بنائے بغیر چارہ نہیں۔ اسی طرح وزیراعظم اور ان کی جماعت کو اپوزیشن موڈ سے نکل کر اب حکومتی موڈ میں آجانا چاہیے۔