Hamare Pas Bhi Waqt Nahi
Arif Nizami92 News994
افغانستان میں امریکہ کے سفیر جان بس نے بھارتی اخبار، اکنامک ٹائمز، جو ٹائمزآف انڈیا گروپ کا حصہ ہے، کو انٹرویو دیتے ہوئے چونکا دینے والی بات کہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ رواں سال پاکستان نے افغانستان سے رابطہ کیا اور بھارت اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے ذریعے زمینی روٹ سے تجارت کی اجازت دینے پر آمادگی کا اظہارکیا۔ گویا کہ پاکستان جو بھارت اور افغانستان کو زمینی راہداری کی سہولتیں دینے سے ہمیشہ گریزاں رہا ہے، نے امریکی سفیر کے مطابق بالآخر اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ اس بارے میں مزید وضاحت تو ہماری خارجہ پالیسی کے کارپردازان ہی کر سکتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت اور بعدازاں گزشتہ ایک ماہ میں تحریک انصاف کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ جس یقین سے امریکی سفیر نے یہ بات کہی ہے، ان کے مطابق تو یہ اطلاع پاکستان کے ذرائع نے انھیں خود دی ہے۔ تاحال امریکی سفیر کے دعوے کی سرکاری سطح پر تردید نہیں کی گئی، اس سے ان کے اس انکشاف کو سچ ہی ماننا پڑے گا۔ سفیر کے مطابق گزشتہ برس دہلی میں افغان ٹریڈ شو کے دوران بھارتی کمپنیوں کی طرف سے 27ملین ڈالر کی افغانستان میں سرمایہ کا ری کا عندیہ دیا گیا۔ اس کے علاوہ 200ملین ڈالر کی مزید سرمایہ کاری بھی ہو سکتی ہے۔ یہ خبر اس لحاظ سے بھی عجیب لگتی ہے کہ جب بھارتی سٹیل میگنٹ سجن جندال 27 اپریل 2017 کو کابل کے دورے کے بعد اچانک پاکستان آ دھمکے۔ وہ بھارت کے بہت بڑے بزنس گروپ جے ایس ڈبلیو کمپنیز کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ بھارت میں قائم سٹیل ملیں چلانے کے لیے انھوں نے افغانستان سے خام لوہا درآمد کرنے کا معاہدہ کیا بشرطیکہ وہ پاکستان کے راستے بھارت پہنچے کیونکہ دوسری صورت میں نقل وحمل پر زیادہ اخراجات اٹھنے کے باعث انھیں وارا نہیں کھاتا تھا۔ جندال کے اس دورے سے ہمارے ملک میں بڑی ہاہا کار مچی اور طرح طرح کے مفروضے اور کہانیاں نوازشریف اور سجن سے منسوب کی گئیں۔ قبل ازیں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سجن جندال ہی کے ہمراہ میاں نوازشریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر25دسمبر 2015ء کو جاتی امراء اچانک وارد ہو گئے تو مقتدر اداروں اور میڈیا کا بھی ماتھا ٹھنکا۔ یہ وہی دور ہے جب یہ نعرہ لگا ’مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے،۔ سوشل میڈیا پر بھی نوازشریف کی مخالفت شروع ہو گئی، یہ واضح رہے کہ نوازشریف پاکستان کے پہلے وزیراعظم نہیں تھے جن پر غداری کا لیبل چسپاں کیا جا رہا تھا۔ اس سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو پر بھی اس قسم کے الزامات تھونپے گئے تھے۔ مزید برآں جب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بلوچستان میں آئی ایس آئی کے ہاتھوں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو اس کی پھانسی کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور اچھے بھلے پڑھے لکھے اور روشن خیال لوگوں نے بھی کہا کہ وزیراعظم نواز شریف بھارت کو ناراض نہ کرنے کی خاطر ’را، کے اس ایجنٹ کو پھانسی دینے میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت جانے کے بعد نگران حکومت اور موجودہ حکومت نے بھی کلبھوشن یادیو کو فوری پھانسی دینے کا حکم نہیں دیا کیونکہ بھارت اس کو بچانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعدازخرابی بسیار ہم اس نتیجے پر پہنچتے جا رہے ہیں کہ خطے میں بہتر سیاسی و اقتصادی تعلقات اور تجارتی روابط کو فروغ دیئے بغیر پاکستان اپنے موجودہ معاشی گرداب سے نہیں نکل سکتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ دورہ کابل اس لحاظ سے انتہائی کامیاب رہا ہے کہ اسلام آباد نے افغانستان سے درآمدات پر ڈیوٹی ختم کرنے اور مشترکہ اقتصادی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ حال ہی میں جلال آباد میں بند کیے گئے پاکستانی قونصل خانے کی سکیورٹی کی یقین دہانی کے بعد اسے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب لڑائی کے بغیر چینلجز سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ بڑی مفید بات ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورے کے بعد لیکن اس سے بھی زیادہ اپنی سیاسی اور اقتصادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کر رہا ہے۔ آج کل وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے ساتھ بہت وقت گزار رہے ہیں۔ اگرچہ ناقدین انھیں طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ فوج کی انگلی پکڑ کر حکومت چلا رہے ہیں لیکن خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے فوج اور سیاسی حکومت کا تال میل اور ایک صفحے پر ہونا نیک شگون ہے کیونکہ بھارت، افغانستان، امریکہ اور چین کے حوالے سے پالیسیوں میں فوج کی کلیدی ’ان پٹ، ہونی چاہیے۔ میاں نوازشریف اور فوجی قیادت کے درمیان تاریخی طور پر اعتماد کے فقدان کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک انتہائی حقیقت پسند اور پروفیشنل جرنیل ہیں۔ وہ اپنے اکثر پیشروؤں کے برعکس لکیر کے فقیر نہیں ہیں۔ خان صاحب بھی ایک pragmatic سیاستدان ہیں۔ فوجی قیادت میں غالباً یہ احساس جاگزین ہو چکا ہے کہ دفاعی لحاظ سے پاکستان مضبوط ہے، ایٹمی طاقت بھی ہے۔ نیز یہ کہنا تو درست نہیں ہو گا کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا کریڈٹ پاک فوج اور سابق حکومت کو بھی جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا پاکستان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اور اکا دکا سنگین واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر صورتحال کافی بہتر ہے۔ جنرل باجوہ کو یہ احساس بھی ہے کہ پاکستان کے لیے اصل چیلنج اقتصادی ہے اور خطے میں امن اور اس کے نتیجے میں خطے کے ممالک کے درمیان باہمی اقتصادی اور تجارتی تعاون کے بغیر معاملات آگے نہیں چل سکتے۔ موجودہ اقتصادی بحران میں سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کے علاوہ خود فوج کو بھی پہنچ سکتا ہے جسے اپنی دفاعی استعداد کو بڑھانے کے لیے جدید سامان حرب کی شدید ضرورت ہے۔ حال ہی میں اس ضمن میں ہمارے دوست چین کا موقف خاصا دلچسپ ہے۔ چینی زعما کافی عرصے سے پاکستان کو یہ مشورہ دیتے چلے آ رہے ہیں کہ خدارا بھارت سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات ٹھیک کریں۔ حال ہی میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی جن کی آرمی چیف سے بھی ملاقات ہوئی نے واضح طور پر کہا کہ بھارت سے تعلقات بہتر کریں اور اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے مکاؤ اور ہانگ کانگ واپس لینے کے لیے قریبا ً ایک صدی انتظار کیا۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر جہاں کشمیری عوام بھارتی سنگینوں کے سائے تلے پس رہے ہیں، کے لیے بھی پاکستان کو ایٹمی کے علاوہ اقتصادی قوت بھی بننا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس میں کچھ عرصہ لگے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کشمیر کے حصول کے لیے بھارت سے تین جنگیں لڑ چکے ہیں، باقی پاپڑ بھی بیلے جا چکے اور جاری بھی ہیں لیکن بھارتی حکمران ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ان پر کوئی بین الاقوامی دباؤ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا کشمیری عوام کو یک وتنہا چھوڑے بغیر ان کی قانونی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں انتظار کرنے کی پالیسی بھی اپنانا پڑے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ہم افغانستان، بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کتنی جلدی کلیدی فیصلے کرتے ہیں کیونکہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہمیں کوئی بھی مزید وقت دینے کو تیار نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس وقت ہے۔