سندھ کے آئی جی پولیس کلیم امام کے تبادلے اور ان کی جگہ نئے آئی جی کی تقرری نے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ کلیم امام کے تبادلے اور ان کی جگہ مشتاق مہرکے نام پر وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ کراچی کے موقع پر اتفاق رائے ہو گیا تھا لیکن اس سے اگلے ہی روز کابینہ کا اجلاس ہوا تو خان صاحب نے اچانک پینترا بدلا اور فیصلہ صادر کیا کیونکہ کابینہ نہیں مانتی لہٰذا کلیم امام کے تبادلے کا فیصلہ موخر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم کے دورہ ڈیووس سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان سے ملاقات کی تو انھوں نے اصولی طور پر کلیم امام کے تبادلے پر اتفاق کر لیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کلیم امام کے معاملے میں خان صاحب کا یہ دوسرا یو ٹرن تھا بلکہ بعض ناقدین کے مطابق یہ یو ٹرن مدر آف یو ٹرنز کہلائے گا۔ اس سے بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ سندھ حکومت اپنے اس موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے کہ آئی جی صوبائی حکومت کی مرضی کا ہونا چاہیے اور اس ضمن میں انھوں نے جو پانچ نام دیئے ہیں وفاقی حکومت ان میں سے کسی کا ایک کا انتخاب کر لے جبکہ وفاق مصر ہے کہ وزیراعلیٰ اور گورنر سندھ مشورہ کر کے اتفاق رائے سے نام فائنل کر لیں۔ سندھ حکومت کا اصولی اور آئینی طور پر موقف درست ہے کہ آئی جی کی تقرری سے گورنر کا کوئی سروکار نہیں اور یہ معاملہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے درمیان اب تک طے ہو جانا چاہیے تھا۔
کلیم امام نے کراچی میں الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ پھڑ مار دی تھی کہ انھیں ہٹانا آسان نہیں ہے، جب بھی جاؤں گا اپنے مقدر سے جاؤں گا، اگر وہ کہیں گئے تو ہاتھی سوا لاکھ، کا ہی رہوں گا اور اس طرح گویا کہ حکومت کے تحت وہ آئی جی ہیں عملی طور پر اس کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا ہے۔ اگلے ہی روز خان صاحب نے متنازعہ آئی جی کو ملاقا ت کے لیے اسلام آباد طلب کر لیا جس کی میڈیا پر خوب تشہیر بھی کی گئی۔ اس سارے معاملے سے کوئی مثبت تاثر نہیں ابھرا۔ اول تو وزیراعظم کے منصب کے ہی خلاف ہے کہ وہ ایک آئی جی جس کی اپنے ہی صوبے کی اعلیٰ قیادت سے کھلم کھلا مناقشت چل رہی ہو سے ملاقات کریں۔ جیسا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے سی پی این ای کی مجلس عاملہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کے خلاف تو ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پرکارروائی ہونی چاہئے۔ اس ملاقات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وفاق صوبے کے اعلیٰ ترین پولیس افسر کو قیادت کے خلاف اکسا رہا ہے۔ خان صاحب غالباً ان پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ سندھ میں تحریک انصاف کے 14 ارکان کو بھی نظراندا زنہیں کرنا چاہتے۔ تحریک انصاف روز اول سے ہی اس صوبے میں پیپلزپارٹی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے کوشا ں ہے۔ اس کے کراچی سے تعلق رکھنے والے ارکان کراچی کا میئر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں دو ملاؤں میں مرغی حرام ہو رہی ہے، اس پر مستزاد وفاق اور سندھ میں تحریک انصاف اپنے حلیفوں کو رام رکھنا چاہتی ہے۔ عمران خان جی ڈی اے کے ناراض ارکان قومی اسمبلی کو منانے کے لیے پیر پگاڑا صبغت اللہ راشد ی کے گھر کنگری ہاؤس گئے۔ اطلاعات کے مطابق جی ڈی اے کا اصرار ہے کہ کلیم امام کو نہ ہٹایا جائے اگر ہٹانا ناگریز ہے تو ان کی مرضی کا نیا آئی جی لگایا جائے۔ یہ بھی اس لحاظ سے انوکھا مطالبہ ہے کہ سندھ میں جو پارٹی اپوزیشن میں ہے وہاں آئی جی کی تقرری کے معاملے میں اسے ویٹو پاور حاصل ہو۔
نہ جانے ہمارے جسد سیاست میں اعلیٰ پولیس افسروں کے تقرر وتبادلے کارکردگی سے زیادہ سیاستدانوں کی آشیرباد سے کیوں ہوتے ہیں۔ یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے کہ ہر ایم این اے اور ایم پی اے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ ضلع میں میری مرضی کے پولیس افسر ہونے چاہئیں تاکہ ان سے من چاہے کام کرائے جا سکیں۔ سندھ حکومت کا طرز عمل بھی اس معاملے میں مختلف نہیں ہے لیکن جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں خالی سندھ کا رونا رونے کا کیا مطلب ہے۔ پنجاب میں بھی یہی روایت چلی آ رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کو ہی لیجئے صوبے میں چار آئی جی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھیتین آئی جی تبدیل کئے گئے ہیں۔
سندھ والے یہ رونا روتے ہیں کہ وفاقی حکومت کا پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بارے میں مختلف معیار ہے اور ہمارے بارے میں مختلف۔ یہ تاثر فیڈریشن کی صحت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں، ویسے بھی موجودہ حکومت 18ویں ترمیم کو جس کے تحت صوبوں کو کافی حد تک مالی وسائل ملتے ہیں اور خود مختاری حاصل ہے اچھا نہیں سمجھتی۔ کچھ حلقوں کاخیال ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے وفاق کو قلاش کر دیا گیا ہے اور صوبوں کو ان کی استعداد سے بڑھ کراختیارات بالخصوص مالی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ خان صا حب کا بس چلے تو وہ متذکرہ ترمیم کو بیک جنبش قلم ختم کر دیں لیکن ان کے پاس قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں اور سینیٹ میں تو وہ اقلیت میں ہیں لہٰذا آئینی ترمیم کٹھن کام ہے۔
عمومی طور پر ہما رے سیاستدانوں کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہونے کے باوجود چار صوبے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں کے بلا شرکت غیرے حکمران بننا چاہتے ہیں۔ یہ مضبوط وفاق کی سوچ ایوب خان کے آمرانہ دور کی سوغات ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ جاگیردارانہ ذہنیت کی غمازی کرتی ہے۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں پیپلزپارٹی نے اس روش سے رو گردانی کرتے ہو ئے 1973ء کے آئین میں اس کی وفاقی پارلیمانی شکل بحال کرنے کے لیے ترمیم کی اور میاں نوازشریف جو اس وقت وفاق میں اپوزیشن میں تھے انھوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ یقیناً 18ویں ترمیم سے پنجاب کو بھی خاصا فائد ہ پہنچا اور اس وقت شہبازشریف وزیر اعلیٰ تھے۔ اب وفاق کی روح کو نقصان پہنچائے بغیر اس تر میم کو رول بیک نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی خان صا حب کو اپنے جوشیلے اور کھلاڑی مشیروں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت حکومت کی گاڑی کو آگے چلانا چاہیے۔ اسی میں ان کا فائدہ ہے جیسا کہ حال ہی میں سروسز ایکٹ پر بڑی اپوزیشن جماعتیں اور حکومت ایک صفحے پر تھیں اسی طرح باقی معاملات کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔ جیو اور جینے دوکی پالیسی مک مکا نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت کا حسن ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں کو آئندہ انتخابات تک موخر کر دینا چاہیے۔ تاہم ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کے ذریعے تبدیلی لانا چاہے تو بسم اللہ۔