بدھ کو لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کالے کوٹ والوں نے جو ادھم مچایا اس پر ملک بھر میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ حکومت، اپوزیشن، میڈیا اور خود سینئر وکلا، ان وکلا کے ہاتھوں ڈاکٹروں کی پٹائی اور پنجاب کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال میں کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی آلات کی تباہی کی مذمت کر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حملہ آور درندوں نے ہسپتال میں داخل مریضوں کو بھی نہیں بخشا، ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں تین مریض دم توڑ گئے۔ بعض مبصرین نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ جنگ کے دوران بھی ہسپتال کو ٹارگٹ نہیں کیاجاتا۔ یہ بات اصولی طور پر تو درست ہے لیکن حالیہ تاریخ میں بعض ایسے واقعات کی مثال ملتی ہے جن میں طالبان اور داعش کے دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ گروپوں نے مریضوں کو بھی نہیں بخشا۔ کہا جاتاہے کہ کالے کوٹ والے تو قانون کی عملداری کے محافظ اور نقیب ہوتے ہیں انھوں نے کیونکر ایسا کیا؟۔ زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں، بدقسمتی سے معاشروں میں حالیہ دہائی میں تشدداور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان تقویت پکڑ گیا ہے۔ وطن عزیز میں بھی لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے کو عار نہیں سمجھتے۔ حالیہ افسوسناک واقعے میں اگرچہ وکلا قصور وار ہیں لیکن اس سے پہلے کئی ایسے واقعات ہوئے جہاں " ینگ ڈاکٹرز "نے بھی مثالی کردار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وکلا میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان کا ناتا جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک سے جوڑا جاتا ہے۔ اس تحریک کے سرخیل چودھری اعتزاز احسن خود حیران وششدر ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انھوں نے مختلف چینلز پر کہا کہ کالا کوٹ عزت کا نشان تھا لیکن وکلا کی طرف سے ہسپتال پر حملہ دیکھ کر ان کا سرشرم سے جھک گیا ہے۔ اعتزاز احسن کا شمار ان معدودے چند وکلا میں کیا جاتا ہے جو قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن سانحہ پی آئی سی کی مذمت کرنے پر ڈسٹرکٹ اور ہائیکورٹ بار راولپنڈی میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک عروج پر تھی، اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں وکلا نے وزیر قانون شیرافگن نیازی کا گھیراؤ کر لیا توا عتزاز احسن نے ہی مداخلت کر کے ان کی جان بخشی کرائی تھی۔ اسی طرح انھوں نے جب محسوس کیا کہ جسٹس افتخار محمد چودھری اپنی بحالی کے بعد ہتھ چھٹ ہو گئے ہیں اور جوڈیشل آمریت نافذ کر رہے ہیں تو انھوں نے چیف جسٹس صاحب سے فاصلہ اختیار کر لیا۔
حالیہ برسوں میں وکلا کے ہاتھوں ججوں کی توہین، پٹائی معمول بن چکا ہے۔ 24 جولائی 2017ء کو ملتان بار کے صدر شیر زمان نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ میں جسٹس محمد قاسم خان سے مبینہ بدتمیزی کی تو اس کیس میں 21 اگست کو پیش نہ ہونے پر عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے جس پر وکلا نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا دروازہ اکھاڑ دیا تھا، اسی طرح ماتحت عدالتوں میں جج حضرات پر دھونس جمانا اور پولیس اہلکاروں پر وکلا کے تشدد کے واقعات گاہے بگاہے سننے کو ملتے ہیں۔ ریاست نے اس معاملے میں مسلسل مصلحت پسندی اور چشم پوشی سے کام لیا ہے جس سے ان کے حوصلے بڑھتے گئے۔ پرانے وقتوں میں چیدہ چیدہ وکلا ہوتے تھے جو مخصوص لاء کالجز سے ایل ایل بی کرتے تھے لیکن جب سے تعلیم کی تجارت بنی ہے تو لاء اور میڈیکل کالجز کی بھرمار ہو گئی ہے۔ بڑی تعداد میں "قانون دان " بننے کی بنا پر اب کالا کوٹ کسی خصوصی عظمت کی نشانی نہیں رہا۔ نچلی عدالتوں میں مک مکا اور دو نمبر کام ہی بعض بزعم خود وکلا جو اصل ٹاؤٹ ہوتے ہیں، کی وجہ شہرت بن گئے ہیں۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کا رڈیالوجی وکلا کی غنڈہ گردی کا شکار میڈیا بھی بنا جو اپنے فرائض منصبی ادا کر رہا تھا اگلے روز انھیں ہائیکورٹ کے احاطے سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ میڈیا کا بھی عجیب معاملہ ہے، حکومت بھی ان سے ناراض اور وہ طبقہ جن کو آئینہ دکھایا جاتا ہے وہ بھی ناخوش۔ کالے کوٹ والوں کو یہ گلہ ہے کہ میڈیا نے ان کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ افسوسناک لیکن دلچسپ صورتحال پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پیدا ہوئی۔ وکلانے ان کی ہلکی پھلکی پٹائی کی جو سب نے ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھی۔ موصوف نے اپنی سیاسی زند گی کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا تھا اور وہاں جا کر انھوں نے جرأت رندانہ کا ثبوت دیا، تاہم بطور وزیر اپنی حفاظت کا اہتمام کر کے وہاں جانا چاہیے تھا۔ بد قسمتی سے چوہان صاحب اپنے طرز تکلم کے ذریعے خود ان رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا وہ وکلا کے ہاتھوں شکار ہوئے۔ تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے نہ صرف امراض قلب کے ہسپتال میں ہونے والے واقعہ بلکہ چوہان صاحب پر تشدد کی بھی بھرپور مذمت کی لیکن چوہان صاحب نے اس واقعے کو زبردستی مسلم لیگ (ن) کے سر تھونپ کر اسے سیاست زدہ کر دیا حالانکہ کالے کوٹوں میں ملبوس وکلا کسی پارٹی بنیاد پر احتجاج نہیں کر رہے تھے، ان کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہو سکتا ہے لیکن وہاں وہ ایک مخصوص مقصد کے لیے گئے تھے۔ موجودہ تشدد پسندانہ رویوں کو تحریک انصاف کے اس طرزعمل نے تقویت دی ہے کہ وہ مہنگائی ہو، امن عامہ ہو یا گورننس، ہر خرابی کاناتاسابق حکومتوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چوہان صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا واقعہ مسلم لیگ (ن) نے کرایا ہے؟۔ اگر بحث کی خاطر اس الزام کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا صوبائی حکومت جس کے سربراہ بزعم خود شیر شاہ سوری ہیں، منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پولیس ان وکلا کے جلوس کے ساتھ ہسپتال تک پہنچی، راستے میں وکلا اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز نعرے لگا رہے تھے اور وکلا ہسپتال میں گھس کر ہلڑبازی کرتے رہے، مریضوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید کا کہنا ہے کہ ہمیں کیا پتہ تھا کہ وکلا تشدد پر اتر آئیں گے کیونکہ ان کی تو ڈاکٹروں کے ساتھ صلح ہو چکی تھی حالانکہ نعرے بازی سے وکلا کے عزائم واضح تھے کہ وہ جارحانہ ہیں، وہ لاٹھیوں اور پتھروں سے بھی لیس تھے۔ یہاں یہ سوال بھی پیداہوتا ہے کہ کیا وکلا اتنی بڑی تعداد میں نعرے بازی کرتے ہوئے حلوہ کھانے ہسپتال جا رہے تھے۔ حکومت کے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جب قانون اور امن وامان کے حوالے سے کوتاہیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو انھیں سانحہ ماڈل ٹاؤن یاد آ جاتا ہے۔ جون 2014 ء میں شہبازشریف کے دور میں طاہر القادری کے گھر ہونے والے پولیس بلوے، جس میں 14 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، کی سب مذمت کرتے ہیں لیکن موجودہ حکومت تو سابق حکومت کے برعکس قانون کی عمل داری کی بہت بڑی دعویدار ہے لیکن سانحہ قصور سے لے کر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے ہاتھوں نہتی فیملی کا قتل اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ کارڈیالوجی کے اس سانحے کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی نااہلی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں سولہ ماہ کے دوران پنجاب میں پانچویں آئی جی پولیس شعیب دستگیر نے چارج لیا ہے۔ تین چیف سیکرٹری تبدیل کئے جا چکے ہیں اور حال ہی میں پنجاب کی تمام سینئر بیوروکریسی کے تبادلے کیے گئے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ خان صاحب کے وسیم اکرم پلس، ڈلیور نہیں کر پا رہے۔ موصوف شریف اور مرنجان مرنج شخصیت کے حامل ہیں لیکن لگتا ہے کہ پنجاب کی حکمرانی ان کے بس کا روگ نہیں ہے، نہ جانے کب وزیراعظم نوشتہ دیوار پڑھیں گے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اس سانحہ کی غیر جانبدازانہ تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی ٹیم تشکیل دیں اور ذمہ داروں کو عبرت کانشانہ بنا دیں ورنہ اس قسم کے جتھے اداروں اور عوام کے لیے خطر ہ بنے رہیں گے۔