جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، قریبا ً سات ماہ سے عملی طور پر جلا وطنی میں گزا رنے کے بعد عمران خان کے سابق معتمد خصوصی جہانگیرخان ترین وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ تحریک انصاف میں ان کے حاسدین اور مخالفین جو کھلے اور دبے لفظوں میں ان پر تنقید کرتے رہتے تھے اب منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ جہانگیر ترین کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر یک وتنہا تھے، وہ کام سے کام رکھتے ہیں اور انہوں نے شبانہ روز محنت سے پاکستان تحریک انصاف سینچی، اسے منظم کیا اوراقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔
جہانگیر ترین جوکالج کے زمانے سے ہی میرے دوست ہیں، اس نظریئے پر کام کرتے رہے کہ سیاستدانوں کی روایتی ریشہ دوانیوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے کام پر پوری توجہ دی جائے۔ تحر یک انصاف میں اچھے لوگ لانے کی ذمہ داری بھی خان صاحب نے انہیں ہی سونپ دی تھی، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے خواتین وحضرات اس پا رٹی میں جمع ہوگئے جن کا بنائے اتحاد کوئی نظر یہ نہیں صرف اقتدار تھا۔ جہانگیر ترین نے محنت، اعلیٰ سیاسی حکمت عملی سے دوسال سے کم عرصے میں تحر یک انصاف کو ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اپنے پائوں پر کھڑاکردیا۔ اس تما م تر جد وجہد کے دوران ترین صاحب ایک بنیادی اصول بھول گئے جس کے مطابق دوستوں کو تو قر یب رکھو لیکن اس سے زیادہ دشمنوں اور حاسدوں پر کڑی نظر رکھو۔ دیکھتے ہی دیکھتے ترین صاحب کے نا قدین نے لمبی زبانوں سے ان پر تنقید شروع کر دی۔ وزیر اعظم نے اپنےسابق دست راست کے خلا ف زبان نہیں کھولی لیکن صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ شوگر مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ وہ کون ساما فیا تھا جنہیں معاف کرنے کو خان صاحب تیار نہیں تھے، لگتا ہے کہ اب یہ راز، راز ہی رہے گا۔
سیاست میں ایک اصول مسلمہ ہے کہ حاسدوں کی نظر بد اور شرسے بچو۔ ترین صاحب کا طر یقہ کا ر یہ تھاکہ وہ ہر کام میں مشاورت تو کر تے لیکن وہی کرتے جسے درست اورپارٹی کے حق میں سمجھتے تھے۔ شا ید یہ بد یہی حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی کہ سیا ست میں مفاد پرستوں کی کمی نہیں ہے۔ ریاکاری اور دو غلے پن کو ہی سیاست سمجھا جاتا ہے۔ ترین صاحب نے عمران خان کی خا طر اپنے بعض قریبی ساتھیوں کو بھی ناراض کرلیا۔ شاہ محمود قر یشی، جہا نگیر ترین کے سیاست میں آنے سے پہلے کے ذاتی دوست تھے لیکن 2018کے عام انتخابات میں جب وہ پنجاب اسمبلی کی نشست ہار گئے تو یہ الزام ترین صاحب کے سر تھونپا گیا کہ وہ یہ نہیں چا ہتے تھے کہ قریشی صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب بنیں لہٰذا انہوں نے کروڑوں روپے لگا کر قر یشی صاحب کو صوبائی نشست ہر وادی۔ اصل کہانی تو قریشی صاحب خودہی بتا سکتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے معروف اور فعال سیاستدان ایک نسبتاً نوآموز امیدوار سے کیسے شکست کھا گِئے لیکن اس شکست کا سارا ملبہ جہانگیر ترین پر پڑ گیا۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے کئی دیگر رہنما بھی اپنی ریشہ دوانیوں میں لگے رہے لیکن خان صاحب کی مضبوط لیڈرشپ کی بنا پر پر ایسا ماحول نہیں بن سکا۔
آئندہ چند ماہ تحر یک انصاف کی حکومت کے لیے چیلنج ہیں، ایک طرف تو اپوزیشن حکومت گرانے کے درپے ہے، دوسری طرف گورننس کے معاملا ت دگرگوں ہیں۔ مہنگائی، اشیائے ضرورت کی قلت، سیاسی محا ذآرائی اپنے عروج پر ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک حکمران ڈیلیور نہ کرپا ئیں اور عوام کے مسائل حل نہ ہوں تو ریاست کا کاروبار چلانا ناممکن ہو تا ہے لیکن ڈلیوری کے حوالے سے خان صاحب کی ٹیم خاصی کمزور ہے۔ ہروقت اپوزیشن کو کوسنا اوربر ابھلا کہنا اچھی حکمرانی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ جہانگیر ترین نے پارٹی کی بہت خدمت کی ہے لیکن وہ چندافراد پی ٹی آئی کا کلچر نہیں بدل سکتے جو بد قسمتی سے حسن کارکردگی کے بجائے محاذآرا ئی پر زیا دہ یقین رکھتے ہیں۔ خان صاحب کو خو شامدی کلچر کے بجائے مخلص اور اہل ٹیم کی زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کے مشیربرائے احتساب شہزاد اکبر کی ہر بات کی تان جہانگیر ترین کو مطعون کرنے پر ٹو ٹتی تھی۔ اب ان سے پو چھا جانا چا ہئے کہ آپ نے جو الزاما ت لگائے تھے ان کے ثبوت پیش کریں ورنہ ایسے لوگوں کو فارغ کردینا چاہئے جن کاکام سیاسی ماحول کو مکدر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح سب کو معلوم ہے کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور ترین صاحب ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اس محاذ آرائی سے خان صاحب اور ان کی حکومت کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی رسہ کشی اور مخاصمت کو ختم کیا جائے تا کہ کم از کم پی ٹی آ ئی کے دوست عمران خان کی حکومت کی پالیسیوں کی آبیاری کرسکیں۔