امریکہ کے سیماب پا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے" ارشادات اور حرکتوں "کی وجہ سے خود کو اتنا متنازعہ بنا لیا ہے کہ ماضی کے بعض قریبی ساتھی ان کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ تازہ مثال ان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر، انتہائی ہارڈ لائنر جان بولٹن ہیں جن کی کتاب جو گزشتہ روز منظر عام پر آئی ہے اس کے اقتباسات ہر جگہ شائع ہوچکے ہیں۔ جان بولٹن خود دائیں بازو کے انتہا پسند متعصب نظریات رکھتے ہیں وہ بطور مشیر قومی سلامتی ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل ختم کرنے اور اس پراقتصادی پابندیاں لگانے کے موید تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ اسرائیل کی ملی بھگت سے ایران پر حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دی جائیں اور وہاں ملاؤں کی حکومت کو بھی ختم کر دیا جائے۔ شمالی کوریا کے صدرکم جونگ ان جن کے ساتھ ٹرمپ مذاکرات کر رہے تھے کے بارے میں بھی کچھ اسی قسم کے خیالات رکھتے تھے اور اس پر بھی حملہ آور ہونے کے زبردست حامی تھے۔ گویا ٹرمپ اور ان کے مشیر قومی سلامتی میں کوئی نظریاتی اختلاف نہیں تھا صرف طریقہ کار پر عدم اتفاق تھا۔ جان بولٹن نے اپنی کتاب میں جسے ٹرمپ انتظامیہ نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر کے رکوانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ تمام پالیسیاں صرف اسی جنونی کیفیت میں بناتے ہیں کہ وہ ہر حال میں امریکہ کے دوبارہ صدر بن جائیں۔ ٹرمپ اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے اپنے مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور سابق نائب صدر جوبائیڈن کے بیٹے کے یوکرائن میں کاروبار کے حوالے سے مبینہ بے قاعدگیوں کا الزام عائد کر دیا اور اس کی پاداش میں یوکرائن کی اقتصادی امداد روک لی۔ صدر ٹرمپ پر سب سے بڑا الزام یہ تھا انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور کانگریس کے کام میں رکاوٹ ڈالی، گزشتہ سال جولائی میں یوکرائن کے صدر کو ایک ٹیلیفون کیا گیا جس میں ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ جوبائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کریں۔ ٹرمپ پر یہ بھی الزام تھا انہوں نے یوکرائن کے صدر کے دورہ امریکہ کو بائیڈن کے خلاف تحقیقات سے مشروط کر دیا تھا یعنی ٹرمپ کا دبائو تھا کہ اگر یوکرائن کے صدر امریکہ کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹرمپ کو سیاسی فائدے پہنچانے ہوں گے۔ ان الزامات پر امریکہ کے ایوان نمائندگان میں جہاں ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریت ہے ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع ہوئی جو سینیٹ میں ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت نے ناکام بنا دی۔ مواخذے سے بری ہونے کے بعد بجائے کوئی سبق سیکھتے ٹرمپ زیادہ ہتھ چھٹ ہو گئے۔ جان بولٹن اس حوالے سے رابطوں اور ٹیلی فون کالز کے چشم دید گواہ تھے لیکن انہوں نے مواخذے کی کارروائی میں گواہی دینے سے صاف انکار کر دیا۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ اگر انہوں نے سارا بھانڈا یہاں پھوڑ دیا تو اپنی کتاب میں وہ کیا بیچیں گے۔
کتاب میں جان بولٹن کا کہنا ہے کہ یوکرائن سے بھی زیادہ سنگین الزامات ہیں جن پر امریکی صدر کا مواخذہ ہونا چاہیے تھا۔ بولٹن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی کابینہ کے اکثر ارکان نجی محفلوں میں ان کا مذاق اڑاتے تھے اور وائٹ ہاؤس میں یہ بات مسلمہ تھی کہ ٹرمپ کو اکیلے نہ چھوڑا جائے ورنہ وہ کوئی نہ کوئی بونگی مار دیں گے۔ کتاب کے مطابق ٹرمپ نے چین کے صدر شی جن پنگ سے بھی ایک مرحلے پر کہا کہ آپ میری حمایت کریں میں چین میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بولٹن نے اتوار کو ایک انٹرویو میں برملا طور پر کہا کہ ٹرمپ امریکی مفادات کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں اور اگر یہ دوبارہ صدر منتخب ہو گئے تو پھر یہ اور بھی بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ ٹرمپ دوبارہ انتخاب لڑنے کے اہل نہیں ہونگے۔
بولٹن کے مطابق ٹرمپ متلون مزاج، لاابالی شخصیت کے مالک ہیں جن کو صرف اپنی ضرورتوں سے غرض ہے، انہیں آئین اور جمہوریت کے تقاضوں کا پوری طرح ادراک نہیں ہے، روس انہیں انگلیوں پر نچاتا ہے لہٰذا وہ صدارت کے منصب کے اہل نہیں ہیں۔ بولٹن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ریپبلیکن ہونے کے باوجود ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیں گے اور باقی ریپبلیکنز کو بھی یہی کرنا چاہیے کیونکہ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب امریکہ اور دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے افریقی امریکی جان فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں مظاہروں جن میں سفید فام امریکیوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی کے بارے میں امریکی صدر کا جو انتہائی متعصبانہ ردعمل رہا ہے اس سے بہت سے ریپبلیکنز بھی متنفر ہو گئے ہیں حتیٰ کہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والی بعض فوجی قیادتوں نے بھی ٹرمپ کے رویے کی مذمت کی ہے جن میں مائیک مولن اور سابق سیکرٹری دفاع جم میٹس بھی شامل ہیں۔ لیکن موصوف کا اصرار ہے کہ مظاہرین کی کثیر تعداد انارکسٹوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور تشدد کا جواب ریاستی تشدد سے دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق ٹرمپ دانستہ طور پر زیادہ تر جھوٹ پر مبنی اپنے ٹویٹس اور بیانات میں ایسے دعوے کرتے رہتے ہیں جن کا مقصد نہ صرف اپنے مخالفین اور پیشواؤں کو آئینہ دکھانا ہوتا ہے بلکہ دائیں بازو کے ووٹروں کی آشیرباد حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ 2016ء میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن سے پاپولر ووٹ میں ہار گئے تھے لیکن الیکٹرول ووٹ میں برتری کی بنا پر صدر منتخب ہو گئے۔ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے روایتی صدارتی امیدواروں سے ہٹ کر تھے اور انہوں نے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں رہنے والے گورے امریکی جو امریکہ میں بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہونے کے بعد اقتصادی طور پر بدحال ہو گئے تھے، نیز امریکیوں کی کثیر تعداد جو دائیں بازو کے نظریات رکھتی ہے کے ووٹوں سے اکثریت حاصل کی تھی۔ اسی بنا پر ٹرمپ نے کورونا وبا کے باوجود اپنی انتخابی مہم کا جلسہ کرنے کے لیے تلسہ اوکلوہاما کا انتخاب کیا جہاں خصوصی طور پر نسلی تعصب کا دور دورہ ہے۔ بڑے اہتمام سے کہا گیا تھا کہ وہاں سب سے بڑے سٹیڈیم اور اس سے متصل ایک اور جلسہ گاہ میں امریکیوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر انہیں سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہوگا لیکن ریلی میں ایک اندازے کے مطابق ایک تہائی نشستیں خالی پڑی تھیں اور تلسہ کے فائر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کل چھ ہزار افراد نے اس جلسے میں شرکت کی۔ اوکلوہاما وہ ریاست ہے جہاں 2016ء کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
ٹرمپ کیلئے ایک اور انتہائی گھمبیر مسئلہ ان کی انتظامیہ کی کورونا وبا کے بارے میں مفروضوں پر مبنی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیاں ہیں۔ اب تک امریکہ میں قریباً24 لاکھ افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ 22 ہزار600 سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، صرف نیو یارک میں 31 ہزار270اموات ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اس وبا میں تیزی کی رفتار مارچ کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی بہت سے امریکی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ یقینا یہ صورتحال اور اس حوالے سے اقتصادی بدحالی بھی ٹرمپ کے گلے پڑے گی۔ اگرچہ ابھی صدارتی انتخابات میں چار ماہ پڑے ہیں لیکن ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔