Justice Saqib Nisar, Judicial Activism
Arif Nizami92 News748
جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری جمعرات کو ریٹائر ہو گئے اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے جو دوسال 18 دن چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر فائز رہے اپنے مخصوص انداز میں انصاف کیا، انھوں نے سوموٹو نوٹس کا خوب اور بھرپور استعمال کیا۔ سیاست، معیشت کے علاوہ بنیادی حقوق، صحت، تعلیم، ڈیموں، صاف پانی کی فراہمی، خاندانی منصوبہ بندی، مالی بے ضابطگیوں، منی لانڈرنگ، تھر میں بچوں کی اموات، خزانے کی لوٹ مار کے خلاف مقدمات کی سماعت کی۔ اسی بنا پر جہاں بہت سے لوگ ان کے گرویدہ تھے وہاں بہت سے زخم خوردہ ان کے طریقہ کار پر نکتہ چینی بھی کرتے تھے۔ بعض ماہرین قانون کا خیال ہے کہ وہ ایسے معاملات میں بھی دخل انداز ہو تے تھے جوان کے مطابق سپریم کورٹ کی نہیں بلکہ ایگزیکٹو کی ذمہ داری تھی۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں انتظامیہ اور بیوروکریسی اپنے فرائض ادا نہ کر رہی ہو، ان کے اقدامات کو اکثر حلقوں میں سراہا بھی جاتا رہا۔ مثال کے طور پر قصور سے تعلق رکھنے والی چھ سالہ ننھی زینب انصاری کے زیادتی کے بعد قتل کا نوٹس لیتے ہوئے اس سفاکانہ واردات کرنے والے کو موت کی سزا دی جسے نو ماہ کے اندر اندر پھانسی دے دی گئی۔ اسی طرح جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو منظور کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا، اس کی رہائی تو عمل میں آ گئی لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے خلاف تحریک لبیک کے شدید ردعمل کی بناپر آسیہ اب بھی خفیہ مقام پر ہے اور حکومت نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ وہ فیصلہ جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ بدل دی یعنی ’پاناما گیٹ، میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف کی نااہلی تھی۔ بعدازاں عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں ہی نیب عدالت سے میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی 62 ون ایف کے تحت نااہلی کو اس معاملے کو بیلنس کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جاتا ہے۔ اسحق ڈار اور اومنی گروپ کے علاوہ کئی لوگوں کے اثاثے بھی منجمد ہوئے۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی بننے کے بعدپیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو نیب کے ذریعے سپریم کورٹ کے ریڈار پر لے لیا گیا۔ کہا جاتا ہے جوڈیشل ایکٹوازم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں شروع ہوا لیکن جسٹس ثاقب نثار اسے نئی بلندیوں تک لے گئے۔ وہ ہفتہ اوراتوار کو چھٹی کے باوجود عدالت لگاتے تھے اور اپنی چھاپہ مار ’ون مین، ٹیم کے طور پر ہسپتالوں میں بھی پہنچ جاتے تھے۔ نجی ہسپتالوں، تعلیمی اداروں کی حالت زار، قبضہ مافیا، تجاوزات حتیٰ کہ سرکاری اراضی پٹرول پمپس، پلازوں اور ٹاورز کو الاٹ کرنے کے طریقہ کار کا بھی نوٹس لیا۔ ان کے جانے کے بعد "متاثرین ثاقب نثار" کھل کر نوحے پڑھ رہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے تاہم انھوں نے جن بعض بنیادی مسائل کو چھیڑا انہیں ٹھیک کرنا انتظامیہ کاکام ہے۔ تعلیم کا حصول ہر شہری کا حق ہے، چونکہ ریاست معیاری تعلیم مہیا کر نے میں ناکام رہی ہے لہٰذا نجی تعلیمی ادارے اس خلا کو کسی حدتک پُر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف والدین کو شکایت ہے کہ وہ اچھی تعلیم کے لیے بچوں کو نجی اداروں میں بھیجنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی ہوشربا فیسیں ادا کرنا ان کی طاقت سے باہر ہیں۔ یقینا ایک آزاد معیشت میں تعلیمی ادارے بھی کاروبار ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس امر کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ نجی تعلیمی اداروں کا بھی ریگولیٹری میکنزم ہونا چاہیے۔ اسی انداز سے انھوں نے منرل واٹر کا معاملہ چھیڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو سب نلکے کا پانی پیتے تھے اور اب یہ منرل واٹر والے من مانیاں کررہے ہیں۔ لیکن شاید فاضل چیف جسٹس صاحب کو پوری طرح ادراک نہیں تھا کہ اب نلکے کا پانی ہر جگہ ابال کر پینا عملی طور پر مشکل ہو گیا ہے۔ ہسپتالوں میں وہ یہ بھی چیک کرتے تھے کہ وہاں جیلوں سے میڈیکل وجوہات کی بنا پر مقیم سیاستدان کیا کیا مراعات حاصل کرتے ہیں اور ایک سیاستدان کے کمرے میں کچھ بوتلیں جن میں کچھ مشکوک مواد تھا ضبط بھی کرلیں۔ اسی طرح ثاقب نثار نے نجی ہسپتالوں پر بھی یلغار کی۔ جب وہ لاہور کے نیشنل ہسپتال گئے تو وہاں ہسپتال کے یکے ازمالکان پیرس کے فیشن ڈیزائنز محمود بھٹی جنہوں نے اپنی خاصی کمائی اس ہسپتال میں لگائی کے لباس پر اعتراض کردیا، اب بھی متذکرہ ہسپتال کا ریکارڈ سربمہر ہے۔ محمود بھٹی سے یقیناً زیادتی ہوئی۔ ان کا لاہور میں مکان ہے اور مہینے میں ایک بار وہ پاکستان ضرور آتے تھے لیکن اب وہ دلبرداشتہ ہو کر پاکستان نہیں آ رہے۔ محمود بھٹی نے پیرس اور لندن میں چیف جسٹس کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالا، جو نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ جسٹس ثاقب نثار کی تمام تر کاوشوں میں سب سے بڑی ملک میں ڈیم بنانے کے لیے ڈیم فنڈ کا اجرا تھا۔ اس حوالے سے تقریباً 9 ارب جمع ہو چکے ہیں جو یقینا دوبڑے ڈیمز کی تعمیر کیلئے درکار فنڈز کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ تاہم ان کی کمپین سے وطن عزیز میں یہ بات جاگزیں ہو گئی کہ پاکستان کو خشک سالی سے بچانے کیلئے ڈیمز بنانا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈیم کی فنڈ ریزنگ کے لیے انھوں نے ٹی وی چینلز پر بھی کمپین چلائی اور لندن کا بھی دورہ کیا اور کئی مرتبہ مقدمات کی سماعت کے دوران جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کر اد ی۔ جسٹس ثاقب نثار کا دور جس نے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو متاثر کیا، اپنے مثبت اور منفی پہلوؤں کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا لیکن انھوں نے کچھ ایسا ماحول بنا دیا کہ وکلا اور سائلین کو محتاط رہنا پڑتا تھا کہ ثاقب نثار ان سے کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار پر اس حوالے سے خاصی نکتہ چینی ہوئی کہ سپریم کورٹ میں چالیس ہزار کے لگ بھگ جبکہ ملک بھر کی عدالتوں میں لاکھوں کیسز زیر التوا ہیں، انھیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیے، عدلیہ میں انصاف کا حصول غریب آدمی کے لیے قریباً ناممکن ہے۔ اس حوالے سے سابق چیف جسٹس کاکہنا تھایہ سب یکدم ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا نئے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اپنی مدت اسی انداز سے چلاتے ہیں جیسا کہ ان کے پیشرو کے دور میں ہوتا رہا؟ حکومتی اورفوجی سربراہ کی طرح عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی بھی مخصوص چھاپ ہوتی ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا دور جسٹس افتخار چودھری سے شروع ہوتا ہے، ان کے بعد بننے والے چیف جسٹس تصدق جیلانی اور ناصر الملک تھوڑے عرصے کے لیے آئے اور اپنے انداز سے روایات پرعمل کرتے رہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی خاصے متحرک اور جارحانہ انداز سے عدالت کی سر براہی کی اور ان کے بعد جسٹس انور ظہیر جمالی بھی عدالتی روٹین کے مطابق ہی کا م کرتے رہے۔ اس معاملے میں حتمی طور پر توکچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ معاملات کو کیسے آ گے چلائیں گے مگر وہ ایک وسیع المطالعہ شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد لنکنز ان کالج لندن سے ایل ایل ایم کی ڈگری لی، وہ جلد انصاف کرنے کے عادی ہیں اور بطور جج 19سال میں 55ہز ار کیسوں کے فیصلے کر چکے ہیں۔ وہ اکثر اپنے فیصلوں میں اشعار اور لٹریچر کے حوالے دیتے ہیں۔"پاناما گیٹ" فیصلے میں انھوں نے ماریا پوزو کے ناول گاڈ فادر کے حوالے سے میاں نواز شریف کو سسیلین مافیا باس سے تشبیہ دی جس پرانھیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں میاں نواز شریف کے خلاف نیب کی ضمانت اپیل مسترد کرتے ہوئے انھوں نے ازراہ تفنن کہاکہ اگر میں نے شیکسپیئر کے مرچنٹ آف وینس کا حوالہ دیا توپھرمجھ پر ناول کا حوالہ دینے کا الزام لگ جائے گا، پہلے بھی مجھ پر نکتہ چینی کی جاتی رہی کہ میں نے گاڈ فادر کا حوالہ دیا تھا۔ جب یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کیس میں سز ادی گئی توانھوں نے خلیل جبران کی نظم Pity of the Nation کا حوالہ دیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ بلاخوف وخطر فیصلے دینے کے عادی ہیں، وہ سپریم کورٹ کے ان بینچوں کا بھی حصہ تھے جنہوں نے ممتاز قادری کو پھانسی کے فیصلے کی توثیق کی اور آسیہ بی بی کی سزائے موت کی اپیل کومنظور کرتے ہوئے اسے بری کیا تھا۔ لیکن شاید وہ جو کچھ کرینگے وہ عدالت عظمیٰ کی عمارت میں بیٹھ کر اس کی حدود میں ہی کرینگے۔ جسٹس کھوسہ سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں، اس لحاظ سے ان کے گھرانے میں عدالت عظمیٰ کی سربراہی دوسری بار آئی ہے۔