Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Kab Tak Guthiyan Suljhain Gi?

Kab Tak Guthiyan Suljhain Gi?

آرمی چیف، نیول چیف اور ائر فورس کے سربراہ کی تقرری، مدت اور توسیع ملازمت کے حوالے سے پارلیمنٹ کی سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا اور اب توسیع کا قانون عمومی اتفاق رائے سے لیکن پارلیمانی طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے منظور ہو جائے گا۔ عمومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کا جمہوریت اور جمہوری اداروں کے بارے میں رویہ عیاں ہو گیا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ مذہبی جماعتوں بالخصوص جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی جن کو لبرل حضرات فوج کی بی ٹیم ہونے کا طعنہ دیتے رہتے ہیں اس مجوزہ قانون کی حمایت نہیں کر رہیں۔ جہاں تک حکمران جماعت تحریک انصاف کا تعلق ہے وہ تو اس بل کی محرک ہے اور فوجی قیادت کے ساتھ اس کا تال میل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اسی بنا پر وزیراعظم عمران خان نے فرمایا کہ جنرل باجوہ کو توسیع سوچ سمجھ کر دی ہے اور اس معاملے میں عدلیہ نے انتظامیہ کے اختیار میں بے جا مداخلت کی ہے۔ خان صاحب اگر اپنے طرز تکلم پر قابو رکھیں تو بہت سے مسائل شاید پیدا ہی نہ ہوں، اگر نوازشریف کو بیرون ملک بھجوانے کے حوالے سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو یہ طعنہ نہ دیتے کہ عدالت عظمیٰ کا دوہرا معیار ہے یعنی طاقتور کے لیے الگ، قانون اور کمزور کے لیے الگ تو شاید یہ معاملہ اٹھتا ہی نہ۔ لہٰذا وزیراعظم نے جو مسئلہ پیدا کیا تھا اسے حل کرنا بھی انہی کا فرض تھا۔

سب سے زیادہ غور طلب طرز عمل ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ رانا ثناء اللہ جو ابھی تازہ تازہ ڈرگ سمگلنگ کیس میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں، نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ ان کی جماعت نے متذکرہ بل کی قومی مفاد کی خاطر غیر مشروط حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ پارٹی کی کس بیٹھک میں ہوا اور کس نے کیا کسی کو معلوم نہیں۔ شہبازشریف اپنے بھائی کے علاج کے بہانے قریباً ڈیڑھ ماہ سے لندن میں فروکش خود ساختہ نیم جلا وطنی کی زند گی گزار رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال ابھی بظاہر ایک کمزور الزام پر نیب کے زیر حراست ہیں گویا کہ پارٹی کے صدر اور سیکرٹری جنرل کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ (ن) شتربے مہار کی طرح ہے۔ شہبازشریف نے جو ہمیشہ سے پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتے رہے ہیں بڑے بھائی کو بھی قائل کر لیا ہے۔ اب نوازشریف کا یہ بیانیہ کہ مجھے کیوں نکالا، ووٹ کو عزت دو، اور فوج کو للکارنے کی باتیں قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی مکمل چپ سادھ رکھی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئی ہیں۔ یہ سب کچھ برادر خورد کا کمال بتایا جاتا ہے۔ ان سے یہی گلہ تھا کہ وہ تو" اچھے بچے "ہیں لیکن بھائی جان کی گارنٹی کون دے گا لیکن بالآخر شہبازشریف کا بیانیہ میاں نوازشریف کے جی ٹی روڈ والے بیانیے پر حاوی ہو گیا۔

مسلم لیگ (ن) فوج کی اعلیٰ قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس حد تک بے تاب تھی کہ انھوں نے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں بظاہر اپنی حلیف پیپلزپارٹی سے مشاورت کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس پر بلاول بھٹو انتہائی شاکی ہیں حالانکہ انھیں اپنے والدصاحب سے پوچھنا چاہیے تھا، وہ بتاتے کہ شریف برادران کا تو ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہا ہے وہ ضرورت پڑنے پر مخالفین کو جپھی ڈال لیتے ہیں لیکن جب ان کا اُلّو سیدھا ہو جائے تو رات گئی بات گئی۔ آصف زرداری کو اس حقیقت کا ادراک اس وقت ہوا جب وہ صدر نہیں رہے تھے اور ان کے جنرل راحیل شریف کے بارے میں ایک ملفوف بیان کے نتیجے میں نوازشریف نے ان کے اعزازمیں طے شدہ ظہرانہ منسوح کر دیا تھا اور قبل ازیں جب آصف زرداری صدر تھے تو نوازشریف وکیل کی وردی پہن کر میمو گیٹ کیس میں خود مدعی بن کر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے پاس پہنچ گئے تھے۔ بلاول بھٹو نے سرکاری وفد جوان کی غیر مشروط حمایت حاصل کرنے آیا تھا پر واضح کر دیا کہ پیپلزپارٹی اصولی طور پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالف نہیں لیکن پارلیمانی روایات اور طریقہ کار کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ بعدازاں میاں نوازشریف بھی بلاول بھٹو کے موقف کے حامی ہو گئے اور خواجہ آصف کو پیغام بھیجا کہ آپ بھی پارلیمانی قواعد وضوابط کے مطابق چلیں۔

جمعرات کو پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے درست سوال اٹھایا کہ جب سپریم کورٹ نے قانون سازی کے لیے چھ ما ہ کی مدت دی ہے تو اتنی عجلت چہ معنی دارد؟ ۔ پیپلزپارٹی اور اس کے شریک چیئرمین آ صف زرداری کو شیخ رشید احمد اور ان کی طرح کے لیڈروں کی طرف سے بڑی گالیاں دی جاتی ہیں لیکن ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ جمہوری رویہ اپنایا اورقومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے اپوزیشن کے ارکان کو اسمبلی سے باہر پھینکوا دیا تھا لیکن حکمت عملی سے کام لے کر1973ء کا آئین اتفاق رائے سے منظور کرایا تھا۔ اگرچہ بعد میں آنے والے آمروں نے اس کا حلیہ بگاڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ آصف زرداری ہی تھے جنہوں نے 18ویں ترمیم منظور کروا کے اس کے وفاقی پارلیمانی تشخص کو عمومی اتفاق رائے سے بحال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1973ء کے آئین کو جمہوریت کی قرطاس قرار دیا جاتا ہے، اس تمام صورتحال سے خان صاحب کو بھی سبق سیکھنا چاہیے کہ ہتھ چھٹ انداز سے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے سے ملک میں جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے علاوہ کئی اور معاملات بھی پارلیمنٹ میں عمومی اتفاق رائے کے متقاضی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی ایسے معاملات ہیں جن کو اب حل کر لینا چاہیے۔ اس ضمن میں حکومت کی یہ سوچ کہ قواعد وضوابط ہی بدل دیئے جائیں درست نہیں ہے۔ اس طرح نیب آرڈیننس کو عمومی اتفاق رائے سے قانونی شکل دی جانی چاہیے تاکہ شفاف اور بلاامتیاز احتساب کا ادارہ معرض وجود میں آ سکے۔ یہ درست ہے کہ میاں نوازشریف نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں بے نظیر بھٹو کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے لیے اپنے منظور نظر سیف الرحمن کونام نہاد احتساب بیورو کا چیئرمین بنایا جس پر اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین نے مجھے کہا کہ آپ دیکھئے گا ایسی انتقامی کارروائیوں کا ایک دن میاں نواز شریف بھی نشانہ بن سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کا بنایا ہوا نیب جس کا مقصد مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے الیکٹ ایبلز کو توڑ کر مسلم لیگ (ق) اور پیٹریاٹس بنانا تھا، میاں نوازشریف نے 2013ء میں وزیراعظم بننے کے بعد محض اس لیے ختم نہیں کیا تاکہ بوقت ضرورت اسے مخالف سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے لیکن اسے مکافات عمل ہی کہا جا سکتا ہے کہ آج میاں صاحب سمیت قریباً پوری پارٹی لیڈر شپ نیب کے کیس بھگت رہی ہے۔

ایک سوال جو سیاسی تجزیہ کاروں کے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے عوض مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو کیا ملے گا؟ ۔ ویسے تو تجزیہ کار میاں نوازشریف کی بیرون ملک روانگی اور آصف زرداری کی رہائی کے قلابے اسی کے ساتھ ملاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جنرل باجوہ دوئم جنرل باجوہ ون، سے مختلف ہونگے؟ ۔ کیونکہ جنرل باجوہ ون تو تحریک انصاف کی حکومت کو ہر محاذ پر سہارا دیتے رہے ہیں اصولی اور آئینی طور پر افواج پاکستان کو سیاسی حکومت کا تابع ہی ہونا چاہیے لیکن وطن عزیز کی تاریخ میں تو الٹی گنگا ہی بہتی رہی ہے۔ بلاول بھٹو اور کسی حد تک باقی ماندہ اپوزیشن بھی وزیراعظم کو الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ کا طعنہ دیتے ہیں۔ غالباً اپوزیشن کو امید ہے کہ گورننس اور اقتصادی بحالی کے محاذوں پر خان صاحب ناکام ہو گئے ہیں لہٰذا جلد یا بدیر شہباشریف کے مائنس ون فارمولے یا نئے انتخابات کی نوبت آ سکتی ہے یقینا جنرل باجوہ کی قیادت میں مقتدر قوتوں کو بھی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کب تک خان صا حب کی پید ا کردہ گتھیاں سلجھاتے رہیں گے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran