قائداعظم محمد علی جناحؒ کا 144واں یوم ولادت آج تزک و احتشام سے منایا جا رہا ہے۔ محمد علی جناحؒ کا پاکستان کے لیے جو ویژن تھا شومئی قسمت ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے دور ہی ہوتے چلے گئے۔ قائدؒ کے نزدیک وطن عزیز کواسلامی، فلاحی اور جمہوری مملکت بنانا تھا جس میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان ایک آزاد، خوددار اور خود مختار ملک ہو لیکن ہوا بالکل اس کے الٹ بلکہ یوں کہہ لیں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بدقسمتی سے قائد اپنے ویژن کی تکمیل نہیں کرپائے کیونکہ ان کے خواب پاکستان کی تکمیل توہو گئی لیکن اس میں رنگ بھرنے کی مہلت نہ ملی اور 11 ستمبر 1948ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔
پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا رہاوہ ہم سب کے سامنے ہے۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعدہی ایک طرف طالع آزماؤں نے اپنا ایجنڈا تیز کردیا تودوسری طرف سیاستدان اپنے فروعی اختلافات میں الجھ کر رہ گئے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ مذہبی عناصر جنہوں نے مذہب کے نام پر ہی علیحدہ مملکت کے قیام کی مخالفت کی تھی پاکستان کے مامے بن گئے۔ قائد اعظم کے نزدیک تو جمہوری فلاحی پاکستان مقصد تھا جہاں کسی کو ویٹو پاور نہ ہو لیکن یہ عناصر پاکستان کو پاپائیت بنانا چاہتے تھے جہاں انھیں اسلام کے نام پر ویٹو پاور حاصل ہو۔ ایک نئی بحث چھیڑدی گئی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے لہٰذا اسلامی ملک ہو گا نہ کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن۔ حالانکہ آئین میں قرار داد مقاصد شامل کرکے اس بحث کو ختم کردیا گیا تھا۔ اس قسم کے فروعی اختلافات اور فیوڈل سیاسی ایلیٹ کے سازشی ایجنڈے کی بنا پرپاکستان تقریباً نو برس سرزمین بے آئین رہا۔ اس صورتحال سے اس وقت کے سازشی جنرل ایوب خان کی قیادت میں بھرپور فائد ہ اٹھایا گیا۔ 1956ء میں ایک جمہوری، پارلیمانی وفاقی آئین پر اتفاق ہونے کے باوجود سیاستدانوں کے جھگڑے برقرار رہے اور 7 اکتوبر 1958ء کو فوج نے اقتدار پر پہلا شب خون مارا، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صدر پاکستان ایوب خان نے خود کوفیلڈ مارشل بنالیا اور قائداعظمؒ کی اساس کا بیڑہ غرق کردیا۔ 1962ء میں ایسا آئین قوم پر ٹھونسا گیا جسے اس لیے لائل پور کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی جاتی تھی کہ اس کی ہر شق ایوب خان کے اقتدار کو دوام بخشنے پر ختم ہوتی تھی۔ ایوب خان کے فلسفے کے مطابق پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل ہی نہیں تھی لہٰذا ان پر بنیادی جمہوریت کا نظام ٹھونسا گیا جس کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان سے چالیس چالیس ہزار بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے بی ڈی ممبر بظاہر ملک کی تقدیر کے مالک بن گئے، بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے صدارتی نظام نافذ کیا گیا۔ صدر اور قومی اسمبلی کا انتخاب بھی یہ الیکٹورل کالج کرتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی یہیں سے پڑگئی تھی، اس سے پہلے ون یونٹ بنا کر وفاقی نظام کوتو پہلے ہی دفن کردیا گیا۔ لیکن اس کا اصل مقصد محض یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو بے اثر کرنے کے لیے parity کی ایک نئی سکیم گھڑی گئی۔ ایوب خان تو اپنے بائیس خاندانوں کے ذریعے عشرہ اصلاحات مناکر اور کرپشن کی بنیاد رکھ کر اپنے خلاف ایک تحریک کے نتیجے میں خود اپنے بنائے آئین سے انحراف کرتے ہوئے ایک اور آمر یحییٰ خان کے حوالے کرکے چلتے بنے۔ یحییٰ خان نے ایل ایف او کے ذریعے ون یونٹ ختم کر دیالیکن 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں مجیب الرحمن کی اکثریت کو تسلیم کر نے سے انکار کردیا گیا جس سے مشرقی پاکستان خانہ جنگی اور بھارتی سازشوں کی وجہ سے ملک سے علیحدہ ہو گیا۔
یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ قائداعظم کے افکار سے یکسر روگردانی کی گئی۔ آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 1977ء میں ایک اور طالع آزما جنرل ضیاء الحق اسلام کے نام پر قوم پر سوار ہوگئے۔ ضیاء الحق نے تو قائد اعظم کے پاکستان کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ سب سے مضحکہ خیز صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب1984ء میں ایسا ریفرنڈم کرایا کہ اگر آپ اسلام کا نفا ذچاہتے ہیں تو ضیاء الحق صدر منتخب ہو جائیں گے۔ اس کے بعد جمہوریت کی بنیاد پرمسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی جد وجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والے پاکستان میں نیا نظریہ نافذ کیا گیا کہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی جمہوریت اسلام کی نفی ہیں۔ یہ جنرل ضیاء الحق ہی تھے جنہوں نے پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں دھکیل دیا اور وطن عزیز کو دہشت گردوں کی عالمی نرسری بنا دیا۔ یہ کس قدر افسوسناک صورتحال تھی کہ معدودے چند لوگوں کو چھوڑ کر قائد اور ان کے افکارکاکوئی نام لیوا ہی نہیں رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب ضیاء الحق کو 1985ء میں طوہاً وکرہاً غیر جماعتی انتخابات کرانے پڑے تو اس کی کوکھ سے ہی اس وقت کی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کی کوششوں سے آئی جے آئی اور بعدازاں اس کی کوکھ سے مسلم لیگ نے جنم لیا۔ ایک نئی سیاسی جماعت سامنے آئی جسے قائد کے افکارکا کوئی ادراک تھا اور نہ ہی اس سے کوئی دلچسپی۔ پارلیمانی سیاست قانون سازی اورجمہوری اداروں کو فروغ دینے کے بجائے ارکان اسمبلی کے لئے پلاٹوں، پرمٹوں، ملازمتوں کے کوٹے اورترقیاتی فنڈز تک ہی محدو د ہو کر رہ گئی۔ ستم ظریفی دیکھئے نئی مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف ٹھہرے۔ ان کی مسلم لیگ(ن) اور قائد اعظم کی مسلم لیگ میں صرف قدرے مشترک یہی تھی کہ قائد اعظم کا یوم پیدائش 25دسمبر 1876ء ہے اور میاں نوازشریف جو خود کو قائد ثانی کہلانا پسند کرتے ہیں اپنی سالگرہ بھی 25دسمبر کومناتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف جنہیں اقتدار پر شب خون مارنے اور بعدازاں ایمرجنسی پلس لگانے کے الزام میں خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہے وہ نوبرس تک بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔ انھوں نے نام نہاد اعتدال پسند روشن خیالی کاخودساختہ نظریہ دیا لیکن عملی طور پر وہ جنرل ضیاء الحق کی طرح امریکہ کے پٹھو اور ان کی جہادی پالیسیوں کے مقلد رہے۔
اگر ان ادوار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ جہاں سیاستدان قائداعظمؒ کے افکار کی ترویج میں ناکام رہے وہاں اس ملک میں قائد کے افکار کی نفی کی اور قریباً سبھی ناپسندیدہ روایات ان طالع آزماؤں کی ہی دین ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور اس وقت کی دیگر سیاسی جماعتیں کرپشن کی مرتکب ہوئیں اور اچھی گورننس بھی نہ دے پائیں لیکن کرپشن کی بنیاد ڈکٹیٹروں نے ہی ڈالی اس کے باوجود وہ تو پارسا کے پارسا ہی رہے اور سیاستدانوں کو آج تک مطعون کیا جا تا ہے۔
وزیراعظم عمران خان یہ سب کچھ ٹھیک کرنے کے لیے اقتدار میں آئے، انھیں اپنے اس مشن میں فوجی قیادت کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن پچھلے ڈیڑھ برس میں گورننس، جمہوریت اور جمہوری اداروں کا جو حال ہوا ہے یقیناً قائد کے مشن کی تکمیل نہیں ہے۔ نیب جس کی بنیاد جنرل پرویز مشرف نے سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے کے لیے ڈالی تھی موجودہ دور میں سلیکٹڈ احتساب کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا تو ذکر ہوتا ہے لیکن موجودہ برسراقتدار طبقے میں قائد اعظم یا ان کے افکار کا کوئی نام لیوا نظر نہیں آتا۔ کہاں ہے قائدؒ کا پاکستان؟