بدھ کا روز مقبوضہ کشمیر سے متعلق سرگرمیوں کے حوالے سے بہت اہم تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث، متفقہ خصوصی قرارداد اور پھر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے۔ مشترکہ اجلاس اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ اکادکا ارکان کے علاوہ عمومی طور پر اپوزیشن اور حکومت کے ارکان پارلیمنٹ کشمیر کے حوالے سے ایک ہی صفحے پر نظر آئے۔ اگرچہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری حکومتی بینچوں میں بیٹھنے کے باوجود سینیٹر مشاہد اللہ کی تقریر میں رخنہ اندازی کرتے رہے جس کا مشاہد اللہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ایسے الفاظ استعمال کئے جنہیں چیئرمین سینٹ کو کارروائی سے حذف کرنا پڑا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے مدلل تقریریں کیں۔ وزیراعظم عمران خان جو اس اجلاس کے دوران مختصر مدت کیلئے ایوان میں بیٹھے انہوں نے اپنی تقریر کی اور شہبازشریف کی سنی۔ خان صاحب نے شہبازشریف کی تقریر پر جھلا کر کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ میں بھارت پر حملہ کر دوں؟۔ نہ جانے خان صاحب پارلیمانی نظام کے ایک لازمی جزو قوت برداشت اپنے اندر کیوں نہیں پیدا کر سکے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم اپنے اقتدار کی منبع پارلیمنٹ میں حاضر رہ کر ارکان کی تجاویز کو غور سے سنتے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگلے روز انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ کمیٹی نے اہم فیصلے کئے جن میں بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت کی معطلی، سفارتی تعلقات محدود کرنا، پاک بھارت تعلقات پر نظرثانی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے منسوخ کرنے کے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا، یوم آزادی کو کشمیری عوام کے ساتھ یوم یکجہتی اور بھارت کے یوم آزادی 15 اگست کو یوم سیاہ منانا شامل ہیں۔
پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کر کے ان کے ہائی کمشنر اجے بساریہ کو واپس جانے کا کہہ دیا ہے اور پاکستان کے ہائی کمشنرجو ابھی نئی دہلی نہیں گئے تھے کو فی الحال روک لیا گیا ہے۔ بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس سے بھارت کی صحت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گاکیونکہ پلوامہ واقعہ کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بہت کم ہے لیکن شاید اس کا زیادہ نقصان آزاد کشمیر کے تاجروں کو ہو جو بارٹر ٹریڈ کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ سفارتی تعلقات منقطع نہیں ڈاؤن گریڈ کئے گئے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے اقدامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ عذر لنگ پیش کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ تو کشمیر کی ترقی کیلئے کیا گیا ہے تاکہ وہاں سرمایہ کاری ہو سکے حالانکہ اس کا اصل مقصد مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ ہندو فلسفے کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں اس وقت مکمل شٹ ڈاؤن ہے، انٹرنیٹ، موبائل فون، وائی فائی سب بند ہیں، مقبوضہ کشمیر وارزون کا منظر پیش کر رہا ہے۔ نہ صرف حریت کے لیڈر بلکہ اب تو ماضی کے دلی نواز فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی بھی پابند سلاسل ہیں۔ کانگریس نے بھی مودی کے اقدام کو رد کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ کانگریس کے رہنما اور راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد جو وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں، جب سرینگر پہنچے تو انہیں ائیرپورٹ سے آگے نہیں جانے دیا گیا۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد بھارت یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ کشمیر اب آئینی طور پر اس کا حصہ ہے لہٰذا پاکستان جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ گویا کہ وہ رائے شماری کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بہت پہلے ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک چکا ہے لیکن اب اس اقدام کے بعد شملہ معاہدہ اوراعلان لاہور کے تحت اس معاملے پر دوطرفہ مذاکرات کی بھی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کیلئے تنسیخ شدہ آرٹیکل 370 کو ماننا بھی محال تھا کیونکہ ہمارے نزدیک تو کشمیر کی بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت بھی قابل قبول نہیں اور پاکستان کا نقطہ نگاہ توہمیشہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد رہا ہے۔ جہاں تک زمینی حقائق کا تعلق ہے مقبوضہ کشمیر میںپہلے بھی چھ لاکھ بھارتی فوجی تعینات تھے اور اب اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کشمیری عوام سراپا احتجاج اور شدید مزاحمت کر رہے ہیں اور بھارتی مظالم کا مردانہ وارمقابلہ کر رہے ہیں حتیٰ کہ وادی کشمیر میں شاید ہی کوئی گھر ہو جو بھارتی مظالم سے متاثر نہ ہوا ہو۔ کشمیریوں کوسنگینوں، گولیوں، چھروں اور پیلٹ گنوں کے ذریعے شہید، زخمی اور بینائی سے محروم کیا گیا، کلسٹربموں کا استعمال تک کیا گیا۔ اس صورتحال میں اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے سے مسئلہ ختم ہو گیا ہے یا پاکستان اس کے استدلال کو تسلیم کر لے گا تو یہ اس کی کج فہمی ہے کیونکہ حالات کشمیریوں کیلئے بدترین ہو گئے ہیں۔ اب پاکستان کیلئے کیا راستے کھلے ہیں اس ضمن میں جب میں نے 92 نیوز پر اپنے پروگرام "ہو کیا رہا ہے، میں بیرسٹر اعتزاز احسن سے سوال کیا تو انہوں نے 1999ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ واجپائی پیدل چل کر (یعنی بس کے ذریعے)لاہور آیا اور بی جے پی جو یہ کہتی رہتی تھی کہ قیام پاکستان گاؤ ماتا کے دوٹکڑے کرنے کے مترادف ہے کا وزیر اعظم ہونے کے باوجود انہوں نے مینار پاکستان جا کر اس کے استدلال کی نفی کر دی۔ اعتزاز احسن نے درست کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے اس لاہور پراسیس کو سبوتاژ کر دیا وہ تو کارگل پر چڑھائی کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے۔ کارگل کی مہم جوئی نے سارے معاملے کو ہی چوپٹ کر دیاحتیٰ کہ ہمیں امریکی صدر بل کلنٹن کی ثالثی کے ذریعے اپنی جان چھڑانا پڑی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تجدید تعلقات سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوتا یا نہ ہوتا لیکن یقیناً پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایک نئی جہت پرویز مشرف کے ایڈونچرازم کی نذر ہو گئی۔
مقام شکر ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فریضہ حج کی ادائیگی موخر کر کے ہنگامی طورپر وطن واپس پہنچ گئے ہیںاور اب وہ چین کی لیڈر شپ سے صلاح مشورے کیلئے بیجنگ پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ چین نے لداخ اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے دوٹوک بیان دیا ہے لیکن یہ درست سمت کی طرف ایک قدم ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم وزیر خارجہ کو بھیجنے کے بجائے خود چین جاتے۔ متحدہ عرب امارات کے بھارت میں سفیر کا یہ بیان کہ آرٹیکل 370کی تنسیخ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، نرم سے نرم الفاظ میں بھی افسوسناک قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اس ضمن میں اپنے اسلامی عرب بھائی سے وضاحت مانگنی چاہئے۔ وزیر اعظم نے ترک صدر طیب اردوان، ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے بھی اس معاملے میں فون پر بات چیت کی۔ اگرچہ ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان کی حمایت کی لیکن سعودی عرب کی وزارت خارجہ اور برطانیہ نے یہی مشورہ دیا کہ پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کریں۔ یقیناپاکستان میں کوئی جنگی جنون پیدا نہیں کیا جارہا لیکن سفارتی سطح پر ہمارے پاس کوئی زیادہ آپشنز نظر نہیں آ رہے۔ جہاں تک ہمارے مربی امریکہ کا تعلق ہے اس نے یہ تو دوٹوک تردید کر دی ہے کہ مودی نے صدر ٹرمپ کو آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے حوالے سے اپنے مذموم ارادے سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ تاہم امریکہ نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ بات چیت کریں لیکن بات چیت کس سے؟مودی کا بھارت تو آرٹیکل 370 کی تنسیخ سے پہلے بھی بات کیلئے تیار نہیں تھااب کیونکر کرے گا؟۔
پاکستان کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ اس وقت ایف اے ٹی ایف کے تحت امریکہ کا ایک وفد نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کی سربراہی میں نگرانی کیلئے یہاں بیٹھا ہوا ہے اور ہم اقتصادی طور پر اتنے کمزور ہیں کہ جہادی تنظیموں پر پابندیاں نہ لگانے کا آپشن بھی ختم کر چکے ہیں۔
اس وقت چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تال میل کی جو سپرٹ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران دیکھنے میں آئی تھی اسے قائم رکھا جاتا لیکن قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے روز مسلم لیگ ن کی نائب صدر شعلہ نوا مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل سے اس وقت گرفتار کر لیا گیاجب وہ اپنے والد سے ملاقات کیلئے وہاں آئی تھیں۔ نہ جانے حکومت مریم نواز سے اتنی گھبرائی کیوں ہوئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جسے سقوط ڈھاکہ کے بعد سب سے بڑا بحران قرار دیا جا رہا ہے کے موقع پر بھی اسے احتساب کے نام پر انتقام کی پڑی ہوئی ہے۔ گویا قوم کو یہ پیغام جائے گا کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس کا اصل مطمع نظر اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہے۔