Kai Mahazon Per Jung
Arif Nizami92 News674
جمعہ کا دن دہشت گردی کے حوالے سے بھاری ثابت ہوا، قوم جو اس خواب خرگوش میں محو تھی کہ ہم نے دہشت گردوں کی بیخ کنی کر دی ہے اور وہ دوڑ لگا چکے ہیں، دو انتہائی افسوسناک واقعات نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ کراچی میں ایک بہادر خاتون پولیس افسر سوہائے عزیز تالپور کی نگرانی میں ہونے والے آپریشن میں چین کے قونصل خانے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ اس واقعہ میں دو پولیس اہلکار اور ویزے کے لیے وہاں آنے والے باپ بیٹا شہید ہو گئے۔ اس افسوسناک واقعہ کا نشانہ جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے چین کا قونصل خانہ اور سی پیک تھا، یہ حملہ سوچی سمجھی سازش ہے کیونکہ چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد کچھ طاقتوں کو فکر لاحق تھی، پاک چین تعلقات کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی اور ہم دہشت گردی کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ابتدائی طور پر تو یہی تصور کیا گیا تھا کہ یہ مذموم کارروائی بھی مذہب کے نام پر دہشت گردی کا نتیجہ ہے لیکن ابتدائی طور پر ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا کہ نام نہاد بلوچستان لبریشن آرمی نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ گویا کہ بی ایل اے کو بلوچستان میں چین کے ترقیاتی منصوبوں کی بہت تکلیف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بی ایل اے کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس کا سرغنہ کمانڈر اسلم اچھو دہلی کے میکس ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ نام نہاد پروگریسو بلوچ سردار بھی اس کی پشت پر ہیں۔ ظاہر ہے کہ بھارت ہو یا اس قسم کے سردار وہ بلوچستان کو جہالت، غربت اور پسماندگی کی گہرائیوں سے نکالنے کے ہر اقدام کے خلاف ہیں۔ اس لحاظ سے مقام شکر ہے کہ دہشت گردوں کے اس حملے میں تمام چینی سفارتکار اور شہری محفوظ رہے۔ چین نے کراچی میں اپنے سفارتی مشن پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فورسز نے موثر کارروائی کر کے سفارتی عملے اور عمارت کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ چینی ترجمان نے واضح کیا کہ سی پیک پر تعاون جاری رہے گا۔ حکومت، اپوزیشن، افواج پاکستان اور چینی حکومت کا یہ متفقہ موقف ہے کہ یہ حملہ حالیہ معاہد وں کا رد عمل ہے۔ دوسری طرف یہ انتہائی تلخ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ اب ہمیں دہشت گردی کے خلاف کئی محاذوں پر جنگ لڑنا پڑے گی۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کا ہم نے مردانہ وار مقابلہ کیا ہی ہے لیکن بلوچستان میں نام نہاد قومیت پرستوں کا خود کش حملے کا سہارا لینا ایک نئی منفی جہت ہے۔ دراصل بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے بلکہ ماضی کے حکمرانوں نے اس معاملے کو خود مس ہینڈل کیا۔ اکبر بگٹی کا ہی معاملہ لے لیں، بگٹی ان بلوچ لیڈروں میں شامل تھے جو حکومت پاکستان کے ساتھ چلتے رہے تھے۔ جب 1972ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کیا تو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کا گورنر اکبربگٹی کو ہی مقررکیا گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہی اکبربگٹی غدار ٹھہرے، وہ بلوچستان کے لیے زیادہ خود مختاری کی جدوجہد کر رہے تھے لیکن ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ذاتی ملیشیا بنا رکھی ہے جس کے ذریعے گوریلا جنگ کر رہے تھے۔ پرویز مشرف نے بگٹی کے معاملے پر غور کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کا خفیہ اجلاس طلب کیا، اس میں اس دور کے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل ندیم اعجاز کی مبینہ طور پر رائے تھی کہ بگٹی صاحب درد سرد بن چکے ہیں لہٰذا انھیں ختم کر دیا جا ئے لیکن صدر پرویزمشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز اور میٹنگ کے کچھ دیگر شرکاء اس خیال کے حامی تھے کہ ایسا کرنے سے بہت سنگین نتائج مرتب ہو نگے لہٰذا نواب اکبر بگٹی سے بات چیت کی جائے یا نظرانداز کر دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اجلاس کے چند روز بعد ندیم اعجاز نے پرویز مشرف کو فون کیا اور کہا کہ اب تو انتہا ہو گئی ہے لہٰذا بگٹی کے خلاف راست اقدام کیا جائے۔ پرویز مشرف نے کسی اور سے مشورہ کیے بغیر اجازت دے دی اور 26اگست 2006ء کو کوہلو میں ایک غار میں پناہ لیے ہوئے اکبر بگٹی کو پاک فوج کے ایک کمانڈو ایکشن میں دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔ جنرل پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ جب بگٹی نے محسوس کیا کہ پاک فوج ان کے گردگھیرا تنگ کر رہی ہے تو انھوں نے دھماکہ کر کے خود کو اڑا دیا۔ جنرل پرویز مشرف آج بھی اکبربگٹی کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری ہیں۔ اکبر بگٹی کا پڑ پوتا براہمداغ اس واقعہ کے بعد افغانستان چلا گیا اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کروانے لگا، جب پاکستان نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا تو وہاں سے سوئٹزر لینڈ میں جا بسا۔ وہ اب بھارت کی پشت پناہی سے بلوچستان میں کارروائیاں کر رہا ہے اور نوبت خود کش حملوں تک پہنچ گئی ہے۔ جولائی 2012ء میں سبی کی ایک عدالت نے اکبر بگٹی قتل کیس میں پرویزمشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، اس میں شریک ملزم شوکت عزیز کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔ مجھے بلوچستان جانے کا کئی بار موقع ملا، وہاں کے حکمران طبقے نے اپنی آبیاری تو خوب کی ہے لیکن بلوچ عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اگر وہاں کوئی ترقیاتی کام ہوا ہے تو اس کا سہرا سدرن کمان کے کمانڈر کو جاتا ہے۔ سابق کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے جوآج کل کور کمانڈر لاہور ہیں اور فرنٹیر کانسٹیبلری نے وہاں جدید یونیورسٹیاں، سکول اور دیگر ادارے قائم کرنے کے حوالے سے بہت کام کیا۔ حتیٰ کہ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی قومیت پرستوں نے پاکستانی جھنڈا لہرانا ممنوع قرار دے رکھا تھا لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے اپنی نگرانی میں قومی پرچم سربلند کر دیا۔ اب موجودہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرم اور بالکل انہی خطوط پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں جن پر پچھلے کور کمانڈر عمل پیرا تھے۔ فوج کو تو یہ احساس ہے کہ دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا مثبت جواب بلوچستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے اقدامات کرنا ہے لیکن بلوچ سرداروں پر مشتمل سیاستدان اب بھی اس سوچ سے عاری ہیں۔ جمعہ کو ہی دہشت گردی کا ایک اور بڑا واقعہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے اورکزئی کے بازار میں پیش آیا جس میں کم از کم 33افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس علاقے میں اہل تشیع کی آبادی اکثریت میں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ مذہبی دہشت گردی کے زمرے میں آئے گا۔ دراصل ہمارے حکمران جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے تو یہ سو فیصد حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ یقینا ہم نے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے لیکن اورکزئی کے سانحہ اور کسی حد تک کراچی میں چینی قونصل خانے پر بزدلانہ حملے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ابھی اس محاذ پر بہت کچھ کر نا باقی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بالکل درست کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور ریاست میں مذہب اور لسانیت کے نام پرانتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس ضمن میں پاک فوج، پولیس اور دیگرسکیورٹی ادارے تو دفاع وطن کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں لیکن اس ناسور سے نبٹنے کے لیے جو دور رس اقدامات سویلین حکومت کے کرنے کے ہیں نہیں کیے جا رہے۔ 16دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور پر حملے کے بعد بڑے اہتمام سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا لیکن اس کی اکثر شقیں بالخصوص وہ نکات جن کا تعلق قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار کے مطابق پاکستان کا بیانیہ بدلنے سے تھا وہ جوں کے توں ہی رہے۔ سابق حکومت نے نیم دلانہ انداز سے اس میں تھوڑی بہت دلچسپی لی لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو توکرپشن کرپشن کی گردان سے وقت ملے تو وہ ان معاملات کی طرف بھی توجہ دے۔ بھارت اور افغانستان پر دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کا الزام تھونپ کر جو اکثر غلط بھی نہیں ہوتا ہم اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے خود کو سرخرو سمجھنے لگتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اس الزام کی سیاہی بھی دھونی چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کے رویوں کی بنا پر طالبان خان کہلاتے رہے ہیں۔ جب تک ہماری سیاسی وفوجی قیادت اس سنگین معاملے میں بنیان مرصوص نہیں بنے گی ملک کے کونے کھدروں میں گھات لگائے دہشت گردوں کے سہولت کار اپنے بیرونی آقاؤں کی ملی بھگت سے کھیل کھیلتے رہیں گے۔