وزیراعظم عمران خان" مشن کشمیر، پر اس وقت نیویارک میں ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت مختلف عالمی شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن محض دوطرفہ ملاقاتوں سے کشمیر میں جہاں بھارتی لاک ڈاؤن اورکرفیو کو 50روز سے زائدہو چکے ہیں، بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بعض بنیادی زمینی حقائق سے غالباً دانستہ طور پر عوام کو غافل رکھا جا رہا ہے یا شترمرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے منہ ریت میں دبائے ہمارے حکمران خود حقائق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امید ہے کہ عمران خان امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے اتحادی اسلامی ممالک کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئیں گے کیونکہ عملی طور پر پاکستان عالمی سطح پر اس معاملے میں قریباً یک وتنہا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ عمران ٹرمپ ملاقات سے ایک روز پہلے ہیوسٹن میں Howdy Modiریلی تھی جس میں مختلف اندازوں کے مطابق پچاس ہزار کے قریب بھارتی نژاد امریکیوں نے شرکت کی، یقیناً امریکی پاکستانیوں نے بھی سٹیڈیم کے با ہر موثر انداز سے مظاہرہ کیا۔ ریلی سے ایک روز قبل ہیوسٹن میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ایل این جی ڈیل پر مودی کی موجو دگی میں امریکی کمپنی اور بھارتی کمپنی کے حکام نے دستخط کئے جس کے تحت بھارت امریکہ سے ایل این جی خریدے گا۔ 2.5ارب ڈالر پر مشتمل اس ڈیل کا ذکر ٹرمپ نے ریلی میں اپنے خطاب میں بھی کیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میں انڈیا کا بہترین دوست ہوں، یکم اکتوبر کو امریکی باسکٹ بال NBAکا مقابلہ شروع ہو رہا ہے جس کے دو میچ 4 اور 5 اکتوبر کو ممبئی کے ایس وی پی سٹیڈیم میں ہونگے جس میں شاید میں خود بھی، ٹرمپ نے پاکستان کانام تو نہیں لیا لیکن یہ کہا کہ آج بھارت کے ساتھ امریکہ کا پہلے سے بھی مضبوط رشتہ ہے اور وہ انڈیا کے سا تھ دفاعی معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔ دونوں ممالک اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑیں گے۔ مودی نے حسب توقع زہراگلتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارتی آئین کی شق370 کی تنسیخ پر وہ شور مچا رہے ہیں جو 9/11 اور ممبئی حملے کے ذمہ دار تھے حالانکہ ہائی جیکروں کی کثیر تعداد کا تعلق سعودی عرب سے تھا اور ان میں ایک بھی پاکستانی نہیں تھا۔ مودی نے تارکین وطن کو روکنے پر امریکی صدر کو خراج تحسین پیش کیا اور ٹرمپ کی اس پالیسی کو سراہنے کے لیے تمام حاضرین کو کھڑے ہو کر تالیاں بجانے کا کہا۔ گو یا کہ مودی کے مطابق تو سا را مسئلہ نام نہاد "گھس بیٹھیوں " کا ہے بصورت دیگر کشمیر میں کوئی شورش نہیں ہے۔
ہمارے وزیراعظم، وزیر خارجہ، دفتر خارجہ اور فدوی میڈیا لاکھ بغلیں بجائیں کہ ہم نے تو بھارت کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں لیکن محض سراب کی بنیا د پرخارجہ پالیسی نہیں چلائی جا سکتی۔ نہ جانے کیوں عوام کو مسلسل بتایا جارہا ہے کہ ہم نے سفارتی سطح پر فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں حالانکہ صورتحال یکسر مختلف ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کے کارپردازوں کی نا لائقی کا اس سے زیادہ ثبو ت کیا ہو سکتاہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کشمیر کے حوالے سے قرارداد کا مسودہ ڈیڈلا ئن سے پہلے بروقت داخل کر انے میں ناکام رہا۔ اس کے باوجود دفتر خا رجہ کے تر جمان ڈاکٹر فیصل یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسا نی حقوق کی پامالی ہیومن رائٹس کونسل میں ایک کلیدی ایشو ہو گا۔ پاکستان کو مجوزہ قرارداد کامسودہ جمع کرانے کے لیے کم از کم 15ووٹوں کی ضرورت تھی جو اسے حاصل نہ ہو پائی اور ہمارے اہلکار ممبر ارکان میں مسودہ تقسیم کرنے میں بھی ناکام رہے۔ اب پاکستان کے پا س واحد راستہ یہی ہے کہ وہ کونسل میں جس کا اجلاس 27ستمبر کو ختم ہورہاہے اس پر بحث کرائے۔ بعض ذرائع کے مطابق سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات جیسے اسلامی ملکوں نے بھی ہمیں ووٹ نہیں دیا جبکہ اس کے بر عکس ایران جس کے ساتھ امریکہ اور سعودی عرب کے ڈر سے جپھی ڈالنے سے ہماری گھگی بند ھ جاتی ہے نے ہمارے حق میں ووٹ دیا۔
اس تناظر میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کے خصوصی طیارے پر جس کے بارے میں بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ وہاں کے عملی طور پر حکمران شہزاد ہ محمد بن سلمان کی خصوصی پیشکش پر نیویارک گئے ہیں۔ واضح رہے کہ قبل ازیں جولائی میں جب وزیراعظم واشنگٹن گئے تھے توانہوں نے قطر ائیرویز کی عام پروازکا انتخاب کیا تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق سعودی عرب والے چونکہ قطر سے نالاں ہیں لہٰذا انھوں نے اس کا بھی برا منایا تھا۔ خان صاحب بھی کیا کریں ہم تومالی طور پر سعودی عرب کے دیندار ہیں جس نے ہمیں تیل اور نقد کی صورت میں 12بلین ڈالر کی امداد دی لیکن قومی غیرت اور حمیت کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم اپنے خصوصی طیا رے پر نیویارک جاتے کیونکہ ایسی کفایت شعاری جس سے قومی وقار پر آنچ آتی ہو نہیں کرنی چاہیے۔
امریکہ اور بھارت کی سٹرٹیجک پارٹنر شپ ان کے لیے چین کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف ہے۔ سعودی عرب بھی اپنے تحفظ کے لیے امریکہ کامرہون منت ہے۔ ایران اس خطے میں واحد اسلامی ملک ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امریکہ کے دھمکی آمیز رویئے کا مردانہ وار مقابلہ کررہا ہے۔ پاکستان کو بھارت کے جا رحانہ عزائم سے جو خطرہ ہے اس ضمن میں واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ پر انحصا ر نہیں کیا جاسکتا۔ مودی اور ٹرمپ تو ایک دوسرے کوجپھیاں ڈال رہے ہیں، نظریا تی اور سٹرٹیجک طور پر ان کا کیرولہ ملتا ہے۔ نہ جانے ہماری لیڈرشپ تاریخی طور پرامریکہ پراتنی ریشہ ختمی کیوں ہوتی ہے اور اب تو جس طرح آ ئی ایم ایف، سعودی عرب اورمتحد ہ عرب امارات کی دی ہوئی بھاری رقوم اور ایف اے ٹی ایف کی نگرانی کے شکنجے میں پوری طرح جکڑے گئے ہیں کشمیر کے معاملے میں اور بھا رتی جا رحانہ عزائم کے خلاف یہ توقع عبث ہے کہ وہ پاکستان کا بھرپور سا تھ دیں گے۔ وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید جو ویسے تو اکثر درفطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں نے درست وارننگ دی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ وقت آنے پر دھوکہ دیا ہے اور ہمیں چین پر یقین رکھنا چاہیے۔ اگر چہ شیخ رشید کی جنگی جنون بڑھانے کی ایسی باتوں سے اتفاق کر نا مشکل ہے، ایک وفاقی وزیر کی طرف سے یہ کہنا کہ ماریں گے یا مریں گے خطر نا ک سوچ ہے۔
بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں کہ آزاد کشمیر بھی بھارت کے لیے ترنوالہ ہے۔ جنر ل راوت نے پیر کواپنے تازہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم پانچ سو جنگجو بھارت داخل ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ موصوف کے مطابق بالا کوٹ میں جہاں بھارتی فضائیہ نے فروری میں ناکام سرجیکل سٹرائیک کی تھی، وہاں پھر"دہشت گردوں " کو فعال کر دیا گیا ہے۔ بھا رتی آرمی چیف کے مطابق اس مر تبہ بھارتی ردعمل فروری سے بھی بڑھ کر ہو گا جب ان سے پو چھا گیا کہ بڑھ کر سے ان کی کیا مراد ہے تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا، اس بار بالاکوٹ سے آگے بھی جا سکتے ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پٹنہ میں اپنے خطاب میں گیدڑ بھبکی دی کہ پاکستان 65 اور 71 والی غلطی نہ دہرائے، پاکستان کے کچھ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پراس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ صورتحال انتہا ئی گھمبیر ہے، تاہم دفاعی طور پر ہماری تیاریاں مکمل ہیں لیکن سفارتی سطح پر معاملہ خاصا کمزور ہے۔ محض تقریروں اور غیر متعلقہ دوطرفہ ملاقاتوں سے مسا ئل حل نہیں ہونگے۔ یہ وقت قوم کو بنیان مرصوص بنانے کا ہے لیکن ایسے وقت میں مولانا فضل الرحمن لاک ڈاؤن کی تیاریاں کررہے ہیں اور کم از کم خارجہ پالیسی پر اپوزیشن کی طرف دست تعاون بڑھانے کے بجائے اسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔