روزے معاف کرانے گئے نمازیں گلے پڑگئیں، عمران خان کی حکومت تو لٹھ لے کر اپوزیشن کے پیچھے پڑی ہوئی تھی خیال تھا کہ نیب کی کارروائیوں، ایف آئی اے حتیٰ کہ اے این ایف کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے بعد گلیاں سنجیاں ہو جائیں گی اور مرزا یار پھرے گا لیکن قدرت کا اپنانظام ہے مکا فات عمل سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات انتہائی حیران کن بلکہ چونکا دینے والے تھے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پارلیمنٹ کی طرف سے سروسزایکٹ بل اپوزیشن کے عمومی اتفاق رائے سے منظور ہونے سے تحریک انصاف کے کھلاڑی خاصے فکر مند تھے، کہ یہ ایسا کیا ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آرمی چیف کو توسیع کے معاملے میں ہی سہی اپنی لائن سیدھی کرلی ہے لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ خان صاحب کو اب اصل خطرہ نہ صرف اپنے اتحادیوں سے پیدا ہو گیا ہے بلکہ خود مختلف گروپوں میں بٹی ہوئی پارٹی میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ سب سے دلچسپ بات وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری کا وزیر اعظم کے نام خط اور پارٹی کورکمیٹی میں علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ ویسے تو موصوف جو قریباً ہر بڑی جماعت کا طواف کر چکے ہیں انوکھی بات کرنے میں یکتا ہیں۔ وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں فواد چودھری نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جنہیں خان صاحب اب بھی "وسیم اکرم پلس" قرار دیتے ہیں کی عدم کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں۔ یہی بات انھوں نے بدھ کو کورکمیٹی کی میٹنگ میں بھی برملا طور پر کہی۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ کابینہ کا اہم رکن جنہیں وزیر اعظم تک براہ راست رسائی حاصل ہے اپنے دل کی بھڑاس خطوط اور میڈیا کے ذریعے نکالناشروع کر دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف پارٹی ڈسپلن بلکہ حکومتی وقار کی بھی خلاف ورزی ہے لیکن ایسے ماحول میں جہاں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو، سب کچھ چلتا ہے۔
فواد چودھری کی جرأت رندانہ ہے کہ انھوں نے دونمایاں اینکروں کو شادی کی دومختلف تقریبات میں گھونسے اور تھپڑ رسید کر دیئے، ان افسوسناک واقعات کی فوٹیج میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی چلی لیکن چودھری صاحب کے خلاف ڈسپلن بلکہ مروجہ اخلاقی روایات کی بھی خلاف ورزی کی پاداش میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلا واقعہ ہو گا کہ ایک وزیر اینکرز کی ٹھکائی کرے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ غالباً اس قسم کے رویئے سے ہی فیصل واوڈا ٹائپ کے بگڑے ہوئے ہتھ چھٹ نوابوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کاشف عباسی کے پروگرام آف دی ریکارڈ، میں فوجی جوتا لے کر پہنچ گئے جوانھوں نے لاکھوں ناظرین کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے وہاں موجود پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی کی خوب کلاس لی اور یہاں تک کہہ گئے کہ آپ نے ان بوٹوں کو اپنی زبانوں سے پالش کیا ہے۔ اس موقع پر فاضل اینکراس ٹوپی ڈرامے کو ختم کرانے کے بجائے محض مسکراتے رہے اور دیگر دو سیاسی رہنما پروگرام سے واک آؤٹ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس افسوسناک واقعہ پر متعلقہ میزبان اینکر کا پروگرام پیمرا کے حکم نامے کے ذریعے دوماہ کے لیے بند کردیا گیا جو کہ انتہائی زیادتی تھی بالخصوص اس پس منظر میں جب وزیر اعظم نے فیصل واوڈا کے رویئے پر افسو س کا اظہارکرتے ہوئے انھیں دوہفتے کے لیے نیوز چینلز پر آنے سے منع کردیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فیصل واوڈا کا غصہ بھی یہی تھا کہ اب ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی فوجیوں کے بوٹ چاٹ رہی ہیں، اس بھونڈے طنز کاعسکری قیادت نے بھی بہت برامنایا ہے۔ جب اس معاملے میں صحافتی تنظیموں نے ہاہا کار مچائی تو کاشف عباسی کا پروگرام بحال کر دیا گیا اورمتعلقہ چینل نے معذرت بھی کرلی لیکن فیصل واوڈا نے اپنے رویئے پر ندامت کا اظہار کر نے یا معذرت کرنے سے صاف انکارکردیا اور تادم تحریر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ایسا کریں بھی کیونکر، سیا سی مخالفین کا ہر جائز اور ناجا ئز طریقے سے مکو ٹھپنا ہی تحریک انصاف کی پالیسی ہے۔
خان صاحب کو یقیناً حیرانگی ہوئی ہو گی کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ حکومتی اتحادی کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور ان کے کچھ نہ کچھ مطالبات چلتے ہی رہتے ہیں اور حکومتیں ان کے کچھ مطالبات مان لیتی ہیں اور کچھ کو طاق نسیان میں رکھ لیتی ہیں۔ یکدم ایسا کیا ہوا کہ ایم کیوایم، مسلم لیگ (ق)، بی این پی (مینگل) حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ کی لگائی ہوئی پنیری گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے) اور بلوچستان میں سیاسی انجنیئرنگ کے ذریعے تشکیل کردہ حکمران جماعت بی اے پی نے قر یباً بیک وقت علم بغاوت بلند کردیا۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی تو اس حد تک چلے گئے کہ انھوں نے آ ئی ٹی کی وفاقی وزارت سے ہی استعفیٰ دے دیا جبکہ مسلم لیگ (ق) کے وزیر طارق بشیر چیمہ کابینہ اجلاس میں ہی نہیں گئے۔ چیمہ صاحب اورسینیٹر کامل علی آغا مختلف چینلز پر حکومت پر اتنی کڑی تنقید کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے رہنما بھی شرما جائیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر حکومت کی ناقص کارکردگی اور ہمارے ساتھ رویہ یہی رہا تو ہم ووٹر کو کیا منہ دکھائیں گے۔ بعض تجزیہ کار موجودہ بغاوت کو محض اتفاقیہ قرار نہیں دیتے اوران کے مطابق یہ سب کچھ کسی کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ حکومت اور اس کے حواریوں میں ناچاقی کسی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے یا محض ہوائیاں ہیں۔ سب حلیفوں کو یہی شکایت ہے کہ ان سے کئے گئے وعدے ایفا نہیں کئے گئے اور قریباً سب کا یہ موقف ہے کہ انھیں وعدے وعید کے باوجود ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے گئے۔ کچھ کو بالخصوص ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کو یہ بھی شکایت ہے کہ انھیں حسب وعدہ وزارتیں نہیں دی گئیں۔ بعض ایسے معاملات ہیں جو حکومت کے بس میں ہی نہیں ہیں۔ بی این پی (مینگل)کامطالبہ ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ ایم کیو ایم اپنے سنگین جرائم میں گرفتار کارکنوں کو رہا کرانا چاہتی ہے لیکن ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بغیر ایساممکن نہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک اور جہانگیر ترین حلیفوں کومنانے کے مشن پر ہیں فی الحال تو ایم کیو ایم پاکستان کی حد تک انھیں ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا ہے۔ اگر تو یہ سب کچھ کسی وسیع ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے تومعاملات قابو میں آ جائیں گے بصورت دیگر صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ برادر اعتزاز احسن صحیح ہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر کو ئی صحیح پیش گوئی کی جا سکتی ہے تو وہ ماضی کی ہی ہے۔
نیب نے میاں نوازشریف، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نئے کیسز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے معتمد خصوصی زلفی بخاری کے خلاف انکوائریاں عدم ثبوت کی بنا پر بند کر دی گئی ہیں۔ خان صاحب کے لیے مصیبت یہ ہے کہ پہلے جی ایچ کیو کا نمبر صرف ان کے پاس تھا، آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے حق میں ووٹ کے بعد مقتدر قوتوں سے دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رابطے بحال ہو چکے ہیں۔ اب خان صاحب واحد آپشن نہیں ہیں ویسے بھی وزیر اعظم کو بجائے اپنے ایلچیوں کے ذریعے اپوزیشن کو خود انگیج کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ چڑیاں چگ جائیں کھیت!