مولانا فضل الرحمن نے عین اس روز جب کشمیر کے حوالے سے یوم سیاہ منایا جائے گا، 27اکتوبر کو لانگ مارچ اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے اعلان کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس دھرنے میں اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر غیر مشروط شرکت کرنے سے اجتناب برت رہی ہیں، اس کے باوجود مولانا اپنی ضد پر قائم ہیں کہ کوئی آئے نہ آئے، میں تو دھرنا دونگا۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں مذہبی کارڈ استعمال کرنے کے خلاف ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مدارس میں پڑھنے والے طلبا کو ڈھال بنا کر اپنا لانگ مارچ شروع کرنے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن وہی فارمولہ اپنانا چاہتے ہیں جو ماضی میں وطن عزیز میں اسلام کا نام لے کر بڑی کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید نے حال ہی میں 92 نیوز چینل پر میرے پروگرام "ہو کیا رہا ہے، میں برملا طور پر کہا کہ ماضی میں مذہب کارڈ استعمال کرنے کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے، غالبا ً اسی لیے بلاواسطہ طور پر مذہب کارڈ کے ذ ریعے ہی سیاست میں آنے والے میاں نوازشریف اب اس کے خلاف ہیں لیکن فضل الرحمن ختم نبوتؐ اور ناموس رسالتؐ کے نام پر قوم کے مذہبی جذبات کو ابھارنے پر مصر لگتے ہیں۔ یقیناً عشق رسول ﷺ ہر مسلمان کا ایمان ہے لیکن اس وقت ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
یہ ملک میں پہلی بار نہیں ہے کہ مذہبی لابی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اسلام کا نام لے کر میدان میں اتری ہو۔ 1977ء میں عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا لیکن اس تحریک کو بھی اتحاد میں شامل مذہبی جماعتوں نے ہائی جیک کر لیا اور یہ تحریک نظام مصطفی بن گئی۔ اس تحریک کی صف اول کی قیادت میں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود بھی شامل تھے، اس تحریک کے نتیجے میں 4 اور 5 جولائی کی شب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بظاہر وفادار آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ اس پر قومی اتحاد نے خوب ڈونگرے برسائے حتیٰ کہ عام انتخابات کے غیر معینہ التوا کے بعد قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما کابینہ میں بھی شامل ہو گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے جس طرح اسلام کی غلط تاویل کر کے اداروں کوتباہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اب 42برس بعد مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جائز طور پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر فضل الرحمن اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دے بھی دیں اور عمران خان کو چت کرنے میں ناکام رہے تو اس کے مضمرات کیا ہونگے۔
واضح رہے کہ 2014 ء میں عمران خان نے ڈی چوک پر 126روز دھرنا دیا لیکن وہ نوازشریف کو گرانے میں ناکام رہے کیونکہ ان کے مطابق تیسرے امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی۔ میاں نوازشریف کا اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بظاہر کوئی تنازعہ نہیں تھا لیکن فوج کے بعض حلقوں میں انھیں شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، شاید اسی بنا پر خان صاحب کی یہ کج فہمی تھی کہ انھوں نے دھکا دیا تو فوجی قیادت بھی ان کے ساتھ مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت ٹین کور راولپنڈی کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنہیں بعدازاں میاں نوازشریف نے چودھری نثار علی خان اور میاں شہبازشریف کی اس سفارش کو رد کرتے ہوئے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی جائے، آرمی چیف بنا دیا۔
آج صورتحال قدرے مختلف ہے نہ تو جنرل ضیاء الحق جیسا سازشی آرمی چیف ہے اور نہ ہی فوجی قیادت اقتدار پر براہ راست قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہے بلکہ اس وقت تو وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ میں مثالی ہم آہنگی ہے۔ میاں نوازشریف جنرل باجوہ کو جو ان کے اپنے ہی مقررکردہ تھے ناراض کر بیٹھے تھے لیکن خان صاحب تو ان کی رضا کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ حال ہی میں انھیں اکنامک ڈویلپمنٹ کونسل میں بھی شامل کیا گیا ہے اور انھوں نے بدھ کو بڑی بڑی کاروباری شخصیات کو عشائیہ پر مدعو کر کے ان کی شکایات سنیں گویا کہ سکیورٹی پالیسی ہو یا خارجہ پالیسی، گورننس یا اکانومی کے مسائل ہوں اس حوالے سے سویلین اور فوجی قیادت میں ایسا تال میل ہے جو شاید ہی ملکی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں آیا ہو، اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مولانا کے سیاسی اہداف سے کامل اتفاق کرنے کے باوجود آزادی مارچ میں شرکت کرنے سے گریزاں ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن اپنی ضد پر قائم ہیں غالباً انھیں لگتا ہے کہ اتنی انارکی پیدا کریں گے کہ تیسرا امپائر انگلی اٹھانے پر مجبور ہو جائے۔ شاید اپوزیشن جماعتوں کو بھی یہی خدشہ ہے کہ ملک میں بے روز گاری، کساد بازاری اور ڈبل ڈیجٹ مہنگائی کی جو صورتحال ہے اس سے تنگ آئے عوام سڑکوں پر نکل آئے تو انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو گا ایسی نفسا نفسی پھیلے گی جس کے نتیجے میں خان صاحب کی چھٹی توشاید ہو جائے لیکن اس کے ساتھ ہی سارا سیاسی نظام بھی تہہ وبالا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جو کام حکومت کو کرنا چاہیے وہ دیوار سے لگی اپوزیشن کر رہی ہے کیونکہ اپوزیشن کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ خان صاحب سے اختلاف کے باوجود اگر ایسا ہوا تو جمہوری نظام کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ مقتدر حلقوں کی تمام امیدیں عمران خان کے ساتھ ہی وابستہ ہیں اور انھیں کامیاب بنانے کے لیے تمام پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔ غالبا ً وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ یہ لانگ مارچ نہیں ہونے دیا جائے گا، اسی لیے خان صاحب اور ان کے ساتھی مطمئن بیٹھے ہیں۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کی تیاریاں ہیں جس کے نتیجے میں جے یو آئی (ف) کی لیڈر شپ اور کارکنوں کے علاوہ خود فضل الرحمن بھی گرفتار کئے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ سسٹم کو مضبوط کریں اور اپوزیشن سے کٹی کے موجودہ رویئے کو ترک کر کے اکانومی اور خارجہ پالیسیوں کے علاوہ سیاسی معاملات پر ان کی طرف دست تعاون بڑھائیں۔
نیب قانون میں تبدیلی کے لیے بھی اپوزیشن سے مشاورت ضروری ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال جو سپریم کورٹ کے سابق جج بھی ہیں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جیسے اختیارات مانگ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جیسے اختیارات مل جائیں تو وہ تین ہفتے میں لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں گے۔ اب انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں مانگ رہے اور محض ایک سوال کا جواب دے رہے تھے کہ پاکستان جیسے جمہوری ملک میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ واقعی سپریم کورٹ کے سابق جج کی طرف سے ایسی بات کہنا عجیب لگتی تھی۔ واضح رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2017 ء میں تمام بڑے بڑے سعودی بزنس مینزکو ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بند کر دیا تھا اور ان سے وصولیوں کے بعد ہی جان چھوڑی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ نہ صرف کاروباری شخصیات بلکہ مجموعی طور پر سب کے لیے نیب قوانین میں ایسی ترامیم کی جائیں جن سے حقیقی بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب ہو سکے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ سیاسی مخالفین کے ساتھ انتقامی کارروائیاں روا رکھی جا رہی ہیں۔ ہر شخص کو محض نیب قانون کے تحت جیل میں ڈال دینے اور بعد میں ثبوت طلب کرنے سے معاملات حل نہیں ہونگے اور ملک میں بے چینی اور نفسانفسی کی کیفیت برقرار رہے گی لیکن خان صاحب چونکہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کلّہ مضبوط ہے انھیں کسی کی پروا نہیں۔