چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے اپنی حالیہ دھواں دار پریس کانفرنس میں آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ کے سامنے تاجروں کے تحفظات کو بلاجوازقرار دیا ہے، گویا کہ نیب تو اپناکام کر رہی ہے نہ جانے شو ر کیوں مچ رہا ہے۔ سپریم کو رٹ کے ریٹا ئر جج کے متذکرہ ریمارکس سے یہ واضح ہے کہ وہ اپنے پیروں پر پانی پڑنے نہیں دے رہے اور جو کچھ نیب کر رہا ہے، وہ ایک آزاد ادارے کے طور پروطن عز یز کو کرپشن سے پاک کر نے کے لیے جہاد ہے۔ سا تھ ہی چیئرمین نے تاجروں کو یقین دلایا کہ 2017ء سے پہلے کے ٹیکس ریفرنس واپس لے لئے جائیں گے، انکم ٹیکس اور سیلزٹیکس کے حوالے سے مقدمات ایف بی آر کو بھیجیں گے بینک کے قرضوں کے نادہندگان کے خلاف ازخود کارروائی نہیں کی جائے گی اور ہاؤسنگ سو سائٹیز اگر متاثرین کو مطمئن کرلیں توان کے خلاف بھی کیسز واپس لے لئے جائیں گے۔ فوج کے سربراہ کا تاجروں، صنعتکاروں کو مدعو کرکے ان کی کتھا سننا ایک انتہائی غیر معمولی اقدام ہے۔ جس کاکام اسی کو ساجھے، یہ سویلین حکومت کاکام ہے کہ ملک میں بزنس کے ماحول کو انویسٹمنٹ فرینڈلی بنائے لیکن خان صا حب چونکہ اس حوالے سے یکسر ناکام رہے ہیں لہٰذا فوجی قیادت کو طوہا ً وکرہا ً بیچ میں کودنا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ مسئلے کی جڑ تک بوجوہ کوئی فریق بھی پہنچنے کے لیے تیار نہیں اور سب نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہو ئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں میڈیا کو مطعون کئے بغیر روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ چیئرمین نیب کا بھی فرمانا ہے کہ یہ کمبخت میڈیا کا ہی ایک حصہ ہے جو دانستہ طور پر ان کے پیچھے پڑا ہواہے اور بعض اینکرز اور لکھاری یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص بے گناہ ہے اور نیب نے اس کو غلط طور پر اند ر کیا ہوا ہے حالانکہ موصوف کے مطابق میڈیا جج نہیں ہے کہ وہ کسی کے بارے میں فیصلے صادر کرے۔ اگر نیب کے فاضل چیئرمین کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو کسی معصوم اور مظلوم کے حق میں میڈیا کو آ واز نہیں اٹھانی چاہیے حا لانکہ میڈیا کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ جہاں انصاف نہ ہو رہا ہو وہ اس کی بے لاگ طریقے سے نشاندہی کرے۔ وزیراعظم کے حواری بھی مہینے میں کئی بار ہونے والے کابینہ اجلاسوں میں یہ رونا روتے ہیں کہ حضور والا!کام تو بہت اچھا ہو رہا ہے، سارا گند میڈیا میں بیٹھے نوازشریف کے ایجنٹ پھیلارہے ہیں۔
دراصل مسئلہ انتہائی سنگین ہے، بزنس کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ بددل ہو چکاہے اور یہ کہنا بھی سراسر زیادتی ہو گی جہاں آ وے کا آ وا ہی بگڑا ہو محض نیب کی پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ سب سے بڑا عنصر پکڑ دھکڑ، کوئی بچ کر جانے نہ پائے کا عمومی ما حول ہے جسے پیدا کرنے میں حکومت سمیت قر یباً تمام ادارے شامل ہیں۔ ملک میں یہ کلچر جاگزین کر گیا ہے کہ سب سیاستدان بطور طبقہ چور ہیں، نیزیہ کہ بیوروکریسی، بزنس مین اور میڈیا کا طریقہ کار بھی شک وشبہ سے بالاتر نہیں ہے۔ صنعتکاروں اور تاجروں کے لیے غلط پالیسیوں سے زیادہ بے یقینی کی کیفیت زہر قاتل ہے، یہی وجہ ہے کہ رواں سال کے دوران بڑے پیداواری یونٹس کی شرح بڑھنے کے بجائے منفی رہی ہے۔ بنیاد ی بات یہ ہے کہ جب مقامی سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کرنے سے ہاتھ کھینچ لیں تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے ہیں۔ خان صاحب اور ان کے اکنامک منیجرزبہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ تاجروں کے لیے آسانیاں پیداکرنے کا ما حول بنایاجا رہا ہے لیکن عملی طور پر الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کوئی بیوروکریٹ فائل پردستخط کرنے یا اسے پراسس کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ کل کلاں اسے دھر لیا جائے گا، اسی بنا پر کرپٹ بیوروکریٹس تو کیا ایماندارسرکاری ملازم بھی عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں۔ اس وقت ملک میں کس قسم کا ماحول ہے اس کا اندازہ حال ہی میں ایک سابق بیورو کریٹ سلیمان غنی کوجنہیں ملازمت چھوڑے ہوئے بھی قریباً ایک دہائی ہو چکی ہے ایک ایسے کیس میں دھر لیا گیا جس میں ان کا قصور محض یہ تھا کہ جب کان کنی کا ٹھیکہ ایک منظور نظر کو دیا گیاتو اس وقت وہ بطور چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، پنجاب منرل ڈیپارٹمنٹ بورڈ کے بر بنائے عہدہ ممبرتھے۔
جہاں تک کاروباری شخصیات کا تعلق ہے، آرمی چیف کی میٹنگ میں پاکستان کے بڑے صنعت کار حسین داؤد بھی شریک تھے۔ ایل این جی کا پہلا ٹرمینل جس کی پاداش میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو پابند سلاسل رکھا گیا ہے، انھوں نے ہی لگایا تھا، اسی روز ان کے خلاف بھی نیب نے ریفرنس دائر کردیا۔ چند ہفتے پہلے جب وزیراعظم عمران خان نے تاجروں اور صنعت کاروں کی میٹنگ بلائی اور انھیں یقین دلایا کہ آپ کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں ہونگی۔ اس سے اگلے روز ہی ایل این جی کا دوسرا ٹرمینل لگانے والے اقبال زیڈ احمد کو لاہور میں ان کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا یعنی کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، پھر بھی نیب چیئرمین فرماتے ہیں کہ ہم تو کچھ نہیں کررہے۔ نہ جانے شاہد خاقان عباسی کا مکو ٹھپنے کے لیے اتنے پاپڑ کیوں بیلے جا رہے ہیں۔ اچھی شہرت کے مالک سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور پی ایس او کے چیئرمین عمران الحق کو اسی لیے دھر لیا گیا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن کر شاہد خاقان عباسی کے خلاف کچھ اگلیں۔ اگرچہ شاہد خاقان عباسی نے جو خود اپنے وکیل ہیں پیشکش کی ہے کہ اگر کوئی وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی جان چھڑوالے تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود حکمران جماعت کے بعض ذمہ دار لوگ بھی اس قسم کے ہتھکنڈوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب تک نیب کے جنگل کے اس قانون میں جو جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے بنایا تھا، منا سب ترامیم نہیں کی جاتیں ملک میں خوف کا ماحول محض اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کے انعقاد سے ٹھیک نہیں ہوگا۔ ویسے بھی جیسا کہ جسٹس(ر)جاوید اقبال دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہرکام قانون کے مطابق کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم کمال مہربانی کرتے ہوئے کہ فلاں کو نہیں چھیڑیں گے، کسی بزنس مین کو تنگ نہیں کیا جائے گا گویا کہ نیب اب صرف بے چارے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کیلئے ہی رہ گئی ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون فلاں طبقے کے خلاف استعمال ہو گا اور فلاں کو استثنیٰ حاصل ہو گا کیونکہ بقول چیئرمین نیب میڈیا جج نہیں لیکن اتنا تو ہم نے بھی سنا ہوا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ جہاں تک تاجروں اور صنعت کاروں کاتعلق ہے، انھیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ ایک ایسی مچھلی بن چکی ہے جو صرف سرکاری مراعات اور رعایات میں تیرتی ہے۔ حکومت کاکام تو یہ ہونا چاہیے کہ سب سرمایہ کاروں کو مساوی مواقع فراہم کر ے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔ یقینا ملک میں کسا بازاری میں نیب ایک بہت بڑا عنصر ہے بعض اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے میں آگے اتنی چلی گئی ہے کہ جنہیں درست کئے بغیر ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول ٹھیک نہیں ہوسکتا۔