Kuch Ahtiat To Lazim Hai
Arif Nizami92 News792
عمران خان وزیراعظم ہیں اب انھیں اپنے افکار عالیہ بیان کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے، جو باتیں کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہی جا سکتی تھیں وہ اسی انداز میں عنان مملکت سنبھالنے کے بعد کہنی مناسب نہیں۔ آصف زرداری کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعدخان صاحب کے ان ریمارکس کہ سندھ سے چیخوں کی آوازیں آنے لگی ہیں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، اگر وزیراعظم کے ریمارکس کا پس منظر یہ ہے کہ آصف زرداری اور بلاول کی چیخیں نکل رہی ہیں تو یہ غلط ہے۔ کیا چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور منی لانڈرنگ سندھ تک ہی محدود ہے؟ ۔ اس قسم کے ریمارکس پنجاب سے منتخب ہونے والے حکمران کو تو بالکل زیب نہیں دیتے۔ اس وقت جس ہتھ چھٹ انداز سے معاملات چلائے جا رہے ہیں وہ ملک میں جمہوریت کی بقا اور فیڈریشن کی مضبوطی کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان جو شریف برادران سے اپنا کئی دہائیوں پرانا ناتا توڑ چکے ہیں نے بالآخر خاموشی توڑ دی ہے، ان کا فرمانا ہے کہ ملک شدید ترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اس وقت احتساب شفاف نہیں ہے، جو اپوزیشن پر طریقہ کار لاگو ہے وہ حکومت پر نہیں ہے، احتساب اس ملک کی ضرورت ہے مگر متنازعہ احتساب اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے۔ اپوزیشن صرف آصف زرداری، نوازشریف، شہباز شریف نہیں بلکہ پوری جماعتیں ہیں اور جب اپوزیشن کے تحفظات دور ہوں گے تو پوری قوم کو نظر آئے گا، حکومت احتساب پر اپوزیشن کے تحفظات دور کر سکتی ہے لیکن اگر تحفظات دور نہ ہوئے تو احتساب کو انتقام تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ احتساب حکومت نہیں ادارے کرتے ہیں، منی لانڈرنگ کا کیس 2015ء کا ہے، موجودہ حکومت سب سے بڑی غلطی یہ کر رہی کہ وہ ہر فیصلے پر کہتی کہ ہم نے کیا ہے، جبھی تو احتساب سیاست کی نذر ہوتا ہے، حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی ملک اپوزیشن کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن اور حکومت میں نیب کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے ہو جائے تو یہ احتساب اور ملک کے لیے اچھا ہے۔ یقینا اس وقت صورتحال انتہائی گھمبیر ہے اور بعض حساس معاملات پر حکومت اور اس کے طاقتور پشت پناہوں نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے انتہائی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو گئی ہے، کیا ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹو ملک چھوڑ کر بھاگ جائے گا؟ ۔ اس اقدام سے سراسر انتقام کی بو آتی ہے لیکن نہ جانے ایف آئی اے کے بابو کہاں سے ہدایات لیتے ہیں یا یہ بھی بقول عمران خان نیب کی طرح ما درپدر آزاد ہیں اور انھوں نے جوکچھ کیا وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو سے پوچھے بغیر ہی کر دیا۔ وطن عزیز میں وتیرہ رہا ہے کہ آج تک سیاستدانوں کو تختہ مشق بنانے کے سوا کسی کا احتساب نہیں ہوا۔ عمران خان اور ان کے حواری بڑے واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں یا تو ہمارے حکمرانوں اور ان کے پشت پناہوں کو معاملات کا صحیح ادراک نہیں ہے یا حکومت تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے عوام کو اُلّو بنا رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد کہا تھا کہ وہ صنعت کاروں اور تاجروں کو الٹا لٹکا کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کریں گے جس سے پاکستان کی عدم ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ یہی صنعت کار اور تاجر پرویز مشرف کے دوست اور حواری بن گئے۔ آج بھی یہ تماشا جاری ہے کہ پکڑ لو، دبوچ لو، جانے نہ پائے۔ موجودہ حالات میں بزنس مین اور اپوزیشن کے سیاستدان خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ ملک میں ماحول بالکل ایسا ہی ہے جیسا سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی 1972ء کے آغاز میں وسیع پیمانے پر صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری بالکل رک گئی تھی۔ آج بھی قریبا ً اس سے ملتی جلتی صورتحال ہے۔ حکمران ایک طرف تو سرمایہ کاروں کو سرما یہ کاری کی دعوت دیتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ون ونڈو خصوصی دفتر قائم کیا گیا ہے اورساتھ ہی مقامی صنعت کاروں کو نیب سے ڈرا کر علامتی طور پر جوتے مارے جاتے ہیں۔ اقتصادیات کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری تب ہی آتی ہے جب مقامی سرمایہ کار مطمئن اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک متعین سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اکنامک ڈپلومیسی کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ بھی ہدایت کی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں معاون ثابت ہوں۔ انھوں نے ایک عجیب بات کہی ہے کہ اشرافیہ نے مغرب سے پیسے لینے کے لیے لبرل اور بنیاد پرستی کی تفریق پیدا کی حالانکہ یہ تقسیم ایک بدیہی حقیقت ہے وہ لوگ جنہوں نے سالہاسال سے اپنی قنوطیت پسندی کی بنا پر ملک کو یرغمال بنا رکھا تھا ان کے نزدیک تو ہر وہ شخص جو ان سے اتفاق نہیں کرتا ملحد اور کافر ہے بلکہ ان کے نزدیک تو لبرل ہونا بھی ایک گالی ہے۔ یہ لوگ تو ملالہ یوسفزئی کو بھی سی آئی اے کی ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ عناصر ہیں جنہوں نے مذہب کی من مانی تاویل کرتے ہوئے وطن عزیز میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا، جس کا فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور بیش بہا قربانیاں دیں۔ ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کیا لبرل ہی ہیں؟ ۔ یہ تفریق اشرافیہ نے پیدا نہیں کی بلکہ اس ملک میں پے درپے آنے والے طالع آزماؤں جن میں جنرل ضیاء الحق پیش پیش تھے۔ وہ اور بعدازاں جنرل پرویز مشرف بھی روشن خیالی کا دعویٰ کرنے کے باوجود ان عناصر کو پالتے رہے، میاں نوازشریف بھی ان عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کوجو خود بھی طالبان کے بڑے حامی ہونے کے ناتے طالبان خان کہلانے لگے تھے پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک ملکی اقتصادیات کا تعلق ہے ہر چیز جمود کا شکار ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر روبہ زوال اور نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن واحد دوست ملک چین جو ’سی پیک، کے حوالے سے ہماری مدد کر رہا ہے اسے بھی دھتکارا جا رہا ہے۔ پہلے تو مشیر تجارت رزاق داؤد نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم ’سی پیک، کو ایک سال کے لیے موخر کر رہے ہیں۔ بعدازاں وزیراعظم اور آرمی چیف کو چین کو یقین دہانی کرانا پڑی کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اب حال ہی میں مشیر تجارت نے پھر چین کے ساتھ تجارتی روابط پر نظرثانی کی دھمکی دی ہے۔ ہمارا استدلال یہ ہے کہ چین ہم سے اپنی درآمدات بڑھائے لیکن پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل(گرے کلاتھ)، کینو اورچاول درآمد کرنے کے سوا اور کیا ہے؟ ۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ انھیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی کوئی جلدی نہیں بالآخر ہمیں آئی ایم ایف سے اچھا پیکیج ملے گا۔ چند ماہ دوستوں سے مانگ کر معیشت چلتی رہے گی لیکن آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ اب شرائط نرم سے نرم کرانے کے علاوہ ہمیں عوام کو ذہنی طور پر تیارکرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بعد موجودہ حکومت کی بھی خوش قسمتی ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت گرنا شروع ہو گئی ہے جس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا۔ آصف زرداری اپنے خلا ف منی لانڈرنگ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کہتے ہیں کہ گھبرانے کی کو ئی بات نہیں ہم ڈریں گے نہ جھکیں گے۔ دوسری طرف بلاول بھٹو نظریاتی تحریک چلانے کی باتیں کر رہے ہیں زرداری صاحب کو گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے لیے کام کرنے والوں سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ تاریخ کے حوالے سے ان کی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی انھیں وسیع تر منی لانڈرنگ کے الزاما ت کا عدالتی فورم پر بھرپور جواب دینا ہو گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا ٹرائل کرنے کے بجائے زرداری، بلاول اور فریال تالپور کے ساتھ نہ صرف انصاف ہونا چاہیے بلکہ نظر بھی آنا چاہیے جو اس وقت ہوتا نظر نہیں آ رہا۔