Leadership Ka Kara Imtehan (1)
Arif Nizami92 News1097
تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دونوں حکومت سازی کیلئے سرپٹ دوڑ رہی ہیں۔ جہانگیر ترین کی کاوشوں اور کچھ اس تاثر کی بنا پر کہ عمران خان لاڈلے ہیں آزاد ارکان ان کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کی تو ویسے ہی چاندی ہو گئی ہے، نہ جانے کیا سوچ کر مشاہد حسین نے چودھری برادران سے رابطہ کیا اور ان سے مسلم لیگ ن کیلئے ارکان کی حمایت مانگ لی۔ چودھری برادران گزشتہ دہائی میں مسلم لیگ (ن) کے زیر عتاب رہے ہیں، وہ مشاہد حسین سے خاص طور پر ناراض ہیں کیونکہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سیٹ دے کر مشاہد حسین کو سینیٹر بنایا اور بعدازاں مسلم لیگ (ق) کا سیکرٹری جنرل۔ لیکن جب ان کی چھ سالہ مدت پوری ہوئی تو وہ مسلم لیگ (ن) کو پیارے ہو گئے اور اب شریف برادران کی مونچھ کا بال ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی چودھری برادران کے در پر حاضری سے ان کی عمران خان کے ساتھ بارگیننگ کی پوزیشن بہتر ہو گئی۔ اگرچہ تحریک انصاف نے واضح کر دیا ہے کہ پنجاب کا ا ٓئندہ وزیر اعلیٰ پی ٹی آ ئی سے ہی ہو گا لیکن اب پرویزالٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر اور پنجاب میں وزارتیں مانگ رہے ہیں۔ یہ جوڑ توڑ تو چلتا ہی رہے گا لیکن وطن عزیز کو جن گوناگوں اور گھمبیر مسائل کا سامنا ہے، ان کے حل کے لیے عمران خان کو زیادہ فعال نظر آنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ہر مسئلے کے حل کا ورکنگ پیپر موجود ہے لیکن خدشہ ہے کہ مسائل کے گرداب میں یہ پیپرز دھرے کے دھرے نہ رہ جائیں۔ سب سے بڑا مسئلہ وطن عزیز کی دگرگوں اقتصادی صورتحال ہے جس کو سنبھالنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے امور خزانہ کے لیے اسد عمر کا صحیح انتخاب کیا ہے۔ اسد عمر پاکستان بزنس کونسل کے مدارالمہام رہے ہیں۔ وہ 2012ء تک ایک بہت بڑے بزنس ہاؤس آفس اینگرو کارپوریشن کے سی ای او بھی تھے۔ اگر انھیں وزیر خزانہ بنا دیا جاتا ہے تو وہ 1972ء کی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد پہلے فل ٹائم وزیر خزانہ ہو نگے جو قومی اسمبلی کے رکن بھی ہونگے۔ قبل ازیں عارضی طورپر قومی اسمبلی کے ارکان وزیر خزانہ رہے ہیں جن میں نوید قمر نمایاں جبکہ اسحق ڈار بطور سینیٹر وزیر خزانہ تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں خزانے کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھا۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ ان کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے، ویسے ان کے والد لیفٹیننٹ جنرل غلام عمرجنرل یحییٰ خان کے دست راست تھے اور ان سے میری کافی یاداللہ تھی۔ انتہائی مرنجان مرنج شخصیت تھے غالبا ً حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں ان کا نام بلحاظ عہدہ ہی تھا۔ اسد عمر کے ایک بھائی محمد زبیر مسلم لیگ (ن) کے رکن ہیں اور حال ہی میں انھوں نے الیکشن 2018ء مبینہ طور پرجس انداز میں کرایا گیا اس پر احتجاجاً سندھ کی گورنری سے استعفیٰ دیا ہے۔ تیسرے بھائی منیرکمال معروف بینکر ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسد عمر کا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل اور ہنر مند ہے۔ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا ادراک توسب کو ہے لیکن اس کا تریاق تلاش کرنا انتہائی پیچیدہ اور کٹھن ہے۔ میاں نوازشریف کی زیر قیادت دعوے تو بڑے ہوئے لیکن عملی طور ان کے وزیر خزانہ اسحق ڈار ملکی اقتصادیات کی بنیادی جزئیات کا بیڑہ غرق کر کے اکتوبر 2017ء میں بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں بشرطیکہ ان قرضوں سے ملکی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہو، لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے۔ اس کے باوجود کہ نواز شریف دور میں مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن قرضے دوگنا ہو گئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے اختتام پر پاکستان پر 54 بلین ڈالر قرضہ تھا جو مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں تقریباً 89 بلین ڈالر ہو گیا ہے یعنی پچھلے پانچ سال میں 35 بلین ڈالر قرضہ لیا گیا۔ اس کی وجہ "سی پیک" کے منصوبے بھی بتائے جاتے تھے۔ عملی طور پر تو صورتحال یہ ہے کہ "سی پیک" کے پاور پراجیکٹس تو مکمل ہو گئے اور بعض تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ اس ضمن میں چینی کمپنیوں کو واجب الادا قرضوں کی واپسی میں مشکلات پیش ا ٓ رہی ہیں۔ ’گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا، جب خزانہ ہی خالی ہو تو قرضے کیونکر ادا ہونگے۔ نوازشریف اور اسحق ڈار بضد رہے کہ روپے کی قیمت میں ہرگز کمی نہ کی جائے اور رو پے کو مصنوعی طور پر مہنگا رکھنے کے لیے مارکیٹ میں خوب ڈالر پھینکے گئے نتیجتاًخطے میں پاکستانی روپیہ سب سے مہنگا ہو گیا۔ اسی بنا پر وہ برآمدات جو پیپلزپارٹی کے دور میں 25ارب ڈالر سالانہ تھیں کم ہو کر 19ارب ڈالر تک آ گئیں۔ بڑھتی ہوئی درآمدات اور گرتی ہوئی برآمدات کی بنا پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا جو 59 فیصد بڑھ گیا، ا س کے ساتھ ہی ساتھ بجٹ کا خسارہ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگا، گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ہی1.487 ٹریلین روپے سے تجاوز کر گیا، یہ ریکارڈ خسارہ پورے مالی سال کے حدف سے بھی زیادہ ہے۔ نوازشریف اور اسحق ڈار کے انخلا کے بعد روپے کے معاملے میں الٹی گنگا بہنے لگی اور وقت کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی نہ کرنے کی بنا پر روپیہ دھڑم سے گر کر 130روپے فی ڈالر تک آ گیا۔ عام انتخابات کے بعد روپے کی قدر میں کچھ بہتری آئی ہے، اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف تو ہم ایٹمی طاقت لیکن دوسری طرف اقتصادی طور پر قلاش ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات جن میں انتہائی کلیدی دفاعی بجٹ بھی شامل ہے کے بعد ترقیاتی منصوبوں اور سوشل سیکٹر کے لیے بچتا ہی کیا ہے۔ عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی وکٹری سپیچ میں قائداعظم کی تصویر کے سائے میں درست کہا کہ قائد کے پاکستان میں غریبوں کی حالت بہتر ہونی چا ہیے لیکن اس کے لیے اسد عمر کو نہ صرف بڑے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے بلکہ خزانے میں رقم بھی لانی ہو گی۔ عمران خان نے ٹیکس نظام کا بھی ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکمران اشرافیہ جس طرح شیرمادر سمجھ کر ٹیکس دہندگان کے پیسے خرچ کرتی ہے لوگ کیسے ٹیکس دینگے؟ ۔ ٹیکس کلچر ٹھیک کرینگے، لوگوں کا ٹیکس ان پر خرچ ہو گا، ان کا ٹیکس چوری نہیں ہوگا۔ یقینا ملک میں ٹیکس کے نظام کی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے اور لوگوں کو بلواسطہ کے بجائے براہ راست ٹیکس دینے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ ایوان وزیراعظم اور گورنر ہاؤسزکے بارے میں ان کا فرمانا تھا کہ شاہانہ وزیراعظم ہاؤس میں رہتے ہوئے مجھے شرم آئے گی، ہماری حکومت فیصلہ کرے گی وزیراعظم ہاؤس کا کیاکرنا ہے، اس کو تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کرینگے، سارے گورنر ہاؤسز پبلک کے استعمال میں لائینگے، نتھیا گلی گورنر ہاؤس کو ہوٹل بنا دیں گے۔ ایوان وزیر اعظم اور گورنر ہاؤسز کو بند کرنے اور انھیں ادارے بنانے کے اعلانات مقبولیت حاصل کرنے کے لیے درست ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کر نے سے اخراجات میں مزید اضافہ ہو گا۔ یقینا کفایت شعاری اور بچت ہمارا وتیرہ ہونا چاہیے لیکن اس کا اطلاق تمام اداروں پر ہونا چاہیے۔ اسدعمر نے اشارہ دیا ہے کہ خراب ترین اقتصادی صورتحال سے نکلنے کیلئے نئی حکومت کو آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑے گا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام کوئی خوشگوار نہیں ہو گا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی غلط اقتصادی ترجیحا ت سے پہلے ہی تنگ ہیں اس پر مستزادیہ کہ اس وقت امریکہ بہادر کا موڈ بھی پاکستان کے بارے میں اتنا اچھا نہیں ہے اور یقینا آئی ایم ایف جیسے اداروں پر اس کا اثرو رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لہٰذا سخت قسم کا آئی ایم ایف پروگرام عمران خان کے لیے سر منڈلاتے ہی اولے پڑنے کے مترادف ہوگا اور ایک طرف ان کے ووٹروں کی خوشگوار توقعات اور دوسری جانب زمینی حقائق سے وہ کس طرح نبردآزما ہوتے ہیں ان کی لیڈر شپ کا کڑا امتحان ہو گا۔