اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوترس نے عالمی سطح پر سیز فائر کی اپیل کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ متحارب ملک اپنی توانیاں اور وسائل جنگی محاذوں پرخرچ کرنے کے بجائے کو روناوائرس جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی حالات مزید بدتر ہونگے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا روئے سخن خانہ جنگی کے شکار شام، لیبیا اور یمن جیسے ملک ہیں لیکن ان کی یہ اپیل باقی دنیا پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ بھارت کو ہی لے لیں اس کی سکیورٹی فورسز عالمی سطح پر آفت کے باوجود نہتے کشمیریوں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے باوجود نئے قوانین کے تحت ان کے حقوق غضب کر رہا ہے۔ دوسرے محاذ پر بی جے پی کے بظاہر ذمہ دار رہنماؤں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ بھی شدومد سے جاری ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما سبرا مینین سوامی نے ایک زہریلے انٹرویو میں برملا کہا ہے بھارت کے اکیس کروڑ مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہیں اور ان کی آبادی اگر تیس فیصد سے بڑھ گئی تو وہ بھارت کے لیے مزید خطرہ ہونگے، اسی بنا پرشہریت بل جیسے مسلمان دشمن قوانین ضروری ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وبا سے ہونے والے نقصانات عالمی سطح پر چار ٹریلین ڈالر یعنی 683 کھرب پاکستانی روپے جتنے ہو سکتے ہیں۔ بینک کے مطابق اس سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح 11 فیصد سے زیادہ رہے گی جبکہ شرح نمو 2.4 فیصد سے کم ہو کر 1.1 فیصد ہو سکتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید 9.8 فیصد کمی متوقع ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جو کورونا وائرس سے متاثر ہونگے۔ Covid19 کی وبا نے دنیا کو اس بری طرح جکڑا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جو کل تک یہ کہہ رہے تھے کہ ایسٹر تک امریکہ کو بزنس کے لیے کھول دیں گے اب اسے جدید دور کا طاعون کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت کورونا وائرس امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ امریکہ میں اب تک 2 لاکھ 30 ہزار افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا میں ہر جگہ وینٹی لیٹرز اور دیگر میڈیکل سازوسامان اور ہسپتالوں کی کمی محسوس کی جا رہی ہے اور یہ کمی صرف تیسری دنیا کے غریب ملکوں تک محدود نہیں بلکہ انتہائی امیر ممالک جو اپنے بجٹ کا قابل ذکر حصہ صحت پر خرچ کرتے ہیں وہاں بھی حال پتلا ہے۔
ایک طرف تو یہ حال ہے جبکہ دوسری جانب سٹاک ہوم کے سویڈش انٹرنیشنل پیس اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2018ء میں تمام ملکوں کا دفاع پر خرچ 1822 بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا اور گزشتہ برس اس میں 2.6 فیصد تک اضافہ ہوا اس سال کے دوران دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں امریکہ، چین، سعودی عرب، بھارت اور فرانس سرفہرست تھے اور یہ پانچ ممالک مجموعی طور پر دنیا کے ساٹھ فیصد دفاعی اخراجات کرتے ہیں۔ اس کے برعکس خوشحال دنیا میں صحت کی سہولتوں کے لیے بجٹ میں جو اضافہ ہوا وہ اتنا نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان میں تو حال بہت ہی پتلا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار کا تین فیصد سے بھی کم حصہ صحت کی سہولتوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں عین جب وطن عزیز باقی دنیا کی طرح کورونا وائرس کی شدید عالمی وبا کا شکار ہے، بڑے طمطراق سے تعمیراتی شعبے کو کنسٹریشن انڈسٹری کا درجہ دینے اور اس کے لیے ایمنسٹی کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال میں تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ لگانے والوں سے آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا، فکسڈ ٹیکس نافذ ہو گا اور نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے لیے سرمایہ کاری پر ٹیکسوں میں چھوٹ ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آمدنی کا ذریعہ نہ پوچھے جانے کی رعایت مابعد کورونا وائرس وبا نہیں بلکہ پورے سال کے لیے دی گئی ہے۔ بظاہر اس کا مقصد ملک میں بزنس اور اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنا ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سکیم ملک کے بعض بڑے پراپرٹی ٹائیکونز اور ایک ٹیکسٹائل میگنیٹ جو ایک بہت بڑی نجی ہاؤسنگ سکیم کے مالک ہیں کے ایما پر کیا گیا۔ یقینا خان صاحب نے یہ فیصلہ اچھی نیت سے ہی کیا ہو گالیکن پاکستان میں اس پیکیج سے کنسٹرکشن انڈسٹری بحال ہو گی اور نہ ہی پراپرٹی کی قیمتیں بڑھ پائیں گی جو حکومت کی مجموعی پالیسیوں کی وجہ سے نیچے آئیں اور اب تو پوری معیشت ہی کورونا کی بنا پر رکی ہوئی ہے۔ کاش صرف ایک سیکٹر کے لیے پیکیج کے بجائے معیشت کے دیگر شعبوں کے لیے بھی مراعات کا اعلان کیا جاتا۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان درست کہتے ہیں کہ تعمیرات میں اضافے سے بیس سے پچیس صنعتوں کو فائدہ ہوتا ہے لیکن ذرائع آمدن بتانے سے استثنیٰ صرف تین ماہ کے لیے ہونا چاہیے۔ ایمنسٹی اور کالا دھن قبول کرنے سے ہمیں ایف اے ٹی ایف میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے رہنما سابق حکومتوں بالخصوص شریف برادران کے ادوار میں تنقید کرتے رہے ہیں کہ وہ سوشل سیکٹر بالخصوص تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی جیسے شعبوں پر توجہ دینے کے بجائے بڑی بڑی سڑکیں، انڈر پاسز، موٹرویز، فلائی اوورز اور بجلی گھر بنانے پر توانیاں صرف کر رہے ہیں لیکن یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ اس ضمن میں خان صاحب کی پالیسیاں اپنے پیشروؤں سے کس طرح مختلف ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت تو یہ تھی کہ اگر تعمیراتی شعبے میں رعایات دینا مقصود تھا تو اس قسم کا پیکیج ہسپتالوں کی تعمیر اور علاج کی سہو لتوں میں اضافے کے لیے بھی دیا جاتا۔ اس طرح پبلک سیکٹر میں سکولوں کی تعمیر کا بیڑہ بھی اٹھایا جاتا۔ اب بھی موقع ہے کہ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند ہفتوں میں آنے والے نئے بجٹ میں ہیلتھ اور ایجوکیشن سیکٹرز کو بھی ترغیبات دی جائیں اور صوبوں کو بھی ا س حوالے سے گائیڈ لائن دی جائے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق تعمیراتی شعبے اور اس سے منسلک سیکٹرز کے لیے14اپریل سے لاک ڈاؤن غیر موثر کیا جا رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت کے اندازوں کے مطابق آئند ہ چند دنوں میں کورونا وائرس ختم ہو جائے گا اور کسی قرنطینہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس فیصلے کے پیچھے غالباً یہ سوچ کارفرما ہے کہ گرمی کے زور سے کورونا وائرس دم توڑ جائے گا اور ویسے بھی جنوبی ایشیا کے باسیوں کے جینز اس سے اس طرح متاثر نہیں ہونگے جیسے باقی دنیا میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مفروضوں پر پالیسیاں بنانا کہاں تک درست ہے؟ ۔