پاکستان میں کورونا وبا سے متاثر ہونے والے افراد اور ہلاکتوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے لیکن اس موذی وبا سے بطور قوم ملکر لڑنے کا عزم نظر نہیں آ رہا۔ اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے بعض وفاقی وزرا جن میں علی زیدی، فیصل واوڈا اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم پیش پیش ہیں نے سندھ حکومت پر صوبے میں کورونا وائرس کو روکنے کے بجائے پھیلانے اور مال کھانے کے سنگین الزامات کیوں لگائے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر وفاقی حکومت کو کوئی تحفظات ہیں تو بیانات کے ذریعے اظہار کرنے کے بجائے انہیں وزیر اعلیٰ سندھ سے براہ راست بات کرنی چاہئے تھی۔ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت روز اول سے ہی سندھ حکومت کے وبا سے موثر طریقے سے نمٹنے اور فیصلہ کن اقدامات کی بنا پر کچھ بوکھلا سی گئی ہے۔ اس کورس میں بھلا مراد سعید جیسے شعلہ نوا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ انہوں نے یہ بیان داغا ہے" وزیراعلیٰ سندھ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں، پہلے وزیراعلیٰ خود خبرنامہ اور سپاسنامہ پڑھنے ٹی وی پر آتے اب وزیروں کو بھیج دیا، وہ آٹے اور چینی کے بارے میں انکوائری رپورٹ کے بعد شدید ذہنی دباؤ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں، کورونا جیسی مہلک ترین وبا سے سندھ کے عوام کو بچانے کے بجائے مراد علی شاہ کو ناجائز سبسڈیز دینے کی ان کی واردات کے بے نقاب ہونے کا خطرہ لاحق ہے، انہوں نے زرداری کی کرپشن بچانی ہے تو وزارت اعلیٰ کا منصب خالی کر دیں"۔
مراد سعید کا یہ بیان جب میڈیا پر نشر ہو رہا تھا اس سے تھوڑا پہلے ہی وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایک لائیو پریس کانفرنس میں سندھ حکومت کے کورونا سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر تفصیل بتاتے ہوئے کوشش کی کہ وفاقی وزرا کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا بلاواسطہ جواب بھی دیں۔ وزیراعلیٰ جو لاک ڈاؤن میں دو ہفتے کی توسیع کے حامی ہیں نے پریس کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کورونا وائرس پر آپ یہ نہ کہیں کہ جس کی جو مرضی ہے وہ کر لے بلکہ ایک فیصلہ کریں، آپ ہمیں لیڈ کریں، میں قومی بیانیہ اور قومی ایکشن پلان لے کے آگے چلنا چاہتا ہوں۔ ان کا کہنا تھاہم پر الزام تھا ہم نے بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کیا لیکن ہم نے بالکل ایسا نہیں کیا، جو یہ سمجھتا ہے یا کہتا ہے تو وہ اس کو صحیح طریقے سے سنبھالنے کا راستہ بتا دے ہم اسی کو اپنائیں گے۔ تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا آپ اسی میں خوش ہوں اور اگر آپ کی اور میری زندگی رہی تو ہم ان چیزوں سے بھی نمٹ لیں گے۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کیا ہم اب بھی اسی چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ لاشیں دیکھیں اور ایک پیج پر آئیں، میں وزیراعظم سے درخواست کر رہا ہوں کہ آپ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کورونا ایمرجنسی فنڈ سے ایک روپیہ بھی راشن تقسیم پر خرچ نہیں کیا، راشن کی تقسیم میں فلاحی اداروں اور رینجرز نے ہماری بہت مددکی، الزام لگایا گیا کورونا فنڈ میں ڈھائی ارب روپے جمع کئے اورکہیں غائب ہوگئے، سندھ حکومت نے آج تک 3 کروڑ 88 لاکھ روپے فنڈ سے خرچ کئے، یہ رقم صرف ایکسپو سنٹر ہسپتال پر خرچ کی ہے۔
یقیناً یہ دنیا بھر کی قیادتوں کے لئے ایک مخمصہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کھولتے ہیں تو انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے تاہم اگر لاک ڈاؤن جاری رہتا ہے تو اقتصادی زبوں حالی بڑھتی ہے۔ عالمی بینک نے کورونا وائرس کے اثرات کے حوالے سے اپنی تازہ رپورٹ میں درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ عالمی وبا سے پاکستان سمیت ایشیائی ممالک کو چالیس برسوں میں بدترین معاشی بحران کا خطرہ ہے۔ بینک نے جنوبی ایشیا میں ترقی کی 2.8 فیصد پیش گوئی کو کم کر کے 1.8 فیصد کر دیا ہے جو اس سے قبل 6.3 فیصد تھی جس سے کم از کم آدھے سے زائد ممالک بڑے بحران کی جانب جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس سے سب سے زیادہ متاثر مالدیپ ہو گا جہاں سیاحت کے خاتمے کے نتیجے میں مجموعی گھریلو پیداوار کم از کم 13 فیصد تک سکڑ جائے گی جبکہ افغانستان زیادہ سے زیادہ 5.9 فیصد اور پاکستان کی پیداوار 2.2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان نے مالی سال 2020ء کے پہلے 8 ماہ کے دوران معاشی استحکام کی طرف کافی پیشرفت کی، پاکستانی حکومت کے اقدامات سے گھریلو اور بیرونی عدم توازن کو کم کرنے میں مدد ملی تاہم کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں نے معاشی سرگرمیوں کو متاثر کر دیا ہے۔ ادھر عالمی بینک نے کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے رسک رپورٹ جاری کر دی ہے۔ بینک نے پاکستان کی معیشت پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا :ملکی مجموعی قومی پیداوار 1952ء کے بعد پہلی مرتبہ منفی ہونے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے رواں مالی سال پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو منفی 1.3 فیصد تک کم ہو سکتی ہے، پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار اس سے قبل 1952ء میں تاریخ کی کم ترین سطح منفی 1.80 فیصد رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کا پھیلاؤ پاکستان کی معیشت کے لیے خطرات بڑھائے گا، پاکستان کا بجٹ خسارہ 8.7 سے 9.5 تک پہنچ اور قرضوں کا حجم بڑھ سکتا ہے اور پاکستان کو دوست ملکوں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قرضے واپس کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ بھارت کی صورتحال بھی کوئی بہتر نہیں جہاں شرح نمو میں اضافے کا تخمینہ 1.8 سے2.8 تک لگایا گیا ہے۔
خان صاحب کو حوصلہ چھوڑنے کے بجائے اچھی طرح علم ہونا چاہئے کہ مشکل کی گھڑی میں پاکستانیوں نے خیرات کے معاملے میں کبھی مایوس نہیں کیا۔ اس کا ایک ثبوت خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی کاوشوں سے تعمیر ہونے والا عظیم منصوبہ شوکت خانم میموریل ہسپتال ہے جس کے بارے میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اسے عطیات کی کبھی کمی نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے درست طور پر اپیل کی ہے کہ وہ کورونا ریلیف فنڈ میں کھل کر عطیات دیں اور اس سلسلے میں خصوصی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنی حکومت کو مبارکبا د دی ہے کہ ہم نے بہت سی حکومتوں سے پہلے کورونا سے نمٹنے کیلئے پیشگی انتظامات کئے جبکہ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ انہوں نے 27 فروری کو کورونا وائرس کا پہلا کیس منظر عام پر آنے کے بعد ہی ٹاسک فورس بنا دی تھی جس کی باقاعدہ میٹنگز ہوتی ہیں۔
اگر کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات تسلی بخش ہوتے تو سپریم کورٹ اس معاملے کا اتنا سخت نوٹس کیوں لیتی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا یہ پہلا سوموٹو نوٹس ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک میں کورونا کی وبا کی روک تھام کے سلسلے میں حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی قابلیت اور کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے ظفر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بارے میں آبزرویشن بھی دی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس پر قابو پانے سے متعلق کام کرنے والی ٹیم نے چند روز قبل عدالت عظمیٰ کے ججوں کو جو بریفنگ دی اس میں صرف اعداد و شمار بتائے گئے۔ ججوں نے ٹیم کے ارکان سے پانچ سوالات کئے لیکن وہ کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے :مشیر صحت کس حد تک شفاف ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، معاونین خصوصی کی ایک پوری فوج رکھی گئی ہے جن کے پاس وفاقی وزرا کے اختیارات ہیں، موجودہ وزرا اور مشیران کی موجودگی میں کیسے ترقی ہوسکتی ہے، بعض وزرا پر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں، اس وقت وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تعداد 48 سے زیادہ ہو چکی ہے اور اتنی بڑی کابینہ ہونے کے باوجود کورونا سے نمٹنے کیلئے تسلی بخش انتظامات نہیں کئے جا رہے، مشیران اور معاونین وفاقی وزرا پر حاوی ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، ان حالات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کی کابینہ غیر مؤثر ہوچکی ہے اتنی بڑی کابینہ کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کچھ بھی نہیں جانتے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ دنیا کے متعدد ممالک نے اس بیماری سے نمٹنے کیلئے قانون سازی بھی کر لی ہے لیکن یہاں پر تو پارلیمان کا اجلاس بھی نہیں ہو رہا، اراکین بھی ایوانوں میں آنے سے گھبرا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے احتیار کئے ہوئے ہیں اور ہر سیاست دان اس بارے میں اپنا الگ الگ بیان دے رہا ہے۔ بینچ میں موجود جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا: صدر مملکت کو ایسی صورتحال میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ عوام کی صحت اور آزادی کا ہے جسے کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس حکومت کیلئے کوئی اچھا سرٹیفکیٹ نہیں ہے اور اگر یہ معاملہ طول پکڑا توخان صاحب کو مہنگا پڑ سکتا ہے، وہ نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اپنی انڈر 19 ٹیم کے بجائے اپنے معدودے چند منجھے ہوئے رہنماؤں کو آگے لائیں اور اپوزیشن سمیت سب کو ایک مربوط حکمت عملی کی تیاری کیلئے ایک صفحے پر اکٹھا کریں، ایسا کرنے کیلئے انہیں اپنی مونچھ نیچی کرنی پڑے گی لیکن یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔